اسلامی نظریاتی کونسل ختم کرنے کا جائز مطالبہ


\"sherani\"سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں اسلامی نظریاتی کونسل ختم کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے یہ تجویز متعدد حلقوں کی طرف سے سامنے آ چکی ہے تاہم پہلی بار ملک کے قانون سازوں کی طرف سے ایک ایسے غیر ضروری ادارے کو ختم کرنے کی بات کی گئی ہے جو گزشتہ چند برسوں کے دوران ہم آہنگی پیدا کرنے کی بجائے تنازعات کو جنم دینے کا سبب بنتا رہا ہے۔ حکومت کو سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کی طرف سے پیش کئے گئے دلائل اور تجاویز پر غور کرتے ہوئے فوری طور پر مناسب قانونی اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے خواتین کے بارے میں مضحکہ خیز اور ناقابل عمل تجاویز پیش کرنے اور انہیں اسلامی قرار دینے کی کوشش کرنے کے بعد، اس ادارے کے وجود کے بارے میں شبہات اور تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک کی پارلیمنٹ ایک بااختیار ادارہ ہے اور آئین کے تحت وہ کوئی غیر اسلامی قانون نہ بنانے کی پابند ہے تو اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ایک ایسا ادارہ برقرار رکھنے کی کیا ضرورت ہے جو کوئی مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے اس ادارے کی سربراہی سیاسی رشوت کے طور پر کسی حلیف پارٹی کے رکن کو دی جاتی ہے۔ موجودہ چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کو یہ عہدہ مولانا فضل الرحمن کی سفارش پر ملا ہوا ہے۔

سینیٹ کمیٹی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے خواتین کے خلاف طرز عمل کو خاص طور سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب حکومت کی طرف سے عورتوں کے تحفظ بل کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ خود ایسی تجاویز پیش کرے گی جو اسلامی بھی ہوں گی اور جن پر عملدرآمد سے ملک میں خواتین کے ساتھ ظلم و ستم کا خاتمہ ہو سکے گا۔ بدقسمتی سے گزشتہ ماہ کے دوران اسلامی نظریاتی کونسل نے 75 صفحات پر مشتمل جو تجاویز پیش کی تھیں، ان میں سے صرف اس تجویز کو توجہ حاصل ہو سکی تھی کہ شوہر اپنی بیویوں پر جسمانی تشدد کا حق و اختیار رکھتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر اس افسوسناک تجویز کو خواتین کی حفاظت کےلئے قانون سازی میں شامل کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ یہ متنازعہ تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب ملک میں عورتوں پر تشدد کے متعدد واقعات رپورٹ ہو رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے کئی لڑکیوں کو مرضی کی شادی کرنے یا اپنی مرضی کے خلاف شادی سے انکار پر زندہ جلا دیا گیا یا قتل کر دیا گیا۔ ان سنگدلانہ اور غیر انسانی جرائم کے قلع قمع کی بات کرنے اور ایسے مجرموں کو سخت سزائیں دلوانے کی مہم چلانے کی بجائے اسلامی نظریاتی کونسل معاشرے کی اخلاقی تربیت کے نام پر عورتوں پر ہی پابندیاں عائد کرنے کی بات کرتی رہی ہے۔ عورتوں کے تحفظ کی تجاویز میں ملک میں جنس کی بنیاد پر برتے جانے والے تعصب اور امتیازی سلوک کے خلاف بات کرنے، عورتوں کے خلاف مردوں اور نظام کی زیادتیوں کو روکنے اور ان کے حقوق کےلئے ٹھوس مشورے دینے کی بجائے ضرورت پڑنے پر ’’نافرمان‘‘ بیوی کو سزا دینے اور تشدد کرنے، عورتوں کو سماجی سرگرمیوں سے دور رکھنے اور انہیں اسلام کے ایک خود ساختہ تصور کے مطابق مردوں کا محتاج بنانے کی باتیں کی گئی ہیں۔

\"Mulana-Sherani-Isb-Pkg-20-10\"اس سے پہلے بھی اسلامی نظریاتی کونسل اور اس کے سربراہ مولانا محمد خان شیرانی عورتوں کی ’’بے راہروی‘‘ کے حوالے سے ہی خوف اور پریشانی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یوں لگنے لگا تھا کہ ملک کے ممتاز ترین علما پر مشتمل یہ کونسل صرف عورتوں کے امور پر غور کرنے کےلئے بنائی گئی ہے۔ اسی پر اکتفا نہیں بلکہ مولانا محمد خان شیرانی کی سربراہی میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ریپ اور جنسی زیادتی کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اسلامی شریعت کے مطابق چار گواہ ضروری ہوتے ہیں۔ عملی طور سے اسلامی نظریاتی کونسل جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی عورتوں کو تنہا چھوڑنے کی بات کر رہی تھی۔ بین السطور یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا کہ صرف وہی عورتیں ایسے جرائم کا نشانہ بنتی ہیں جو مناسب لباس نہیں پہنتیں یا اپنی حرکتوں سے مردوں کو متوجہ کرتی ہیں۔ گویا ایک جرم سرزد ہونے کے بعد ذمہ داری کا سارا بوجھ بھی اسی فریق پر لادنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جو ظلم اور زیادتی کا نشانہ بنتا ہے۔ ایسے میں کونسل کے فاضل سربراہ کے پاس مردوں کی ہوس اور شہوت کو لگام دینے کےلئے کوئی اسلامی طریقہ یا حکم موجود نہیں ہوتا۔

اسی طرح کمسن بچیوں کی شادیوں کی روک تھام کرنے کی بجائے مولانا محمد خان شیرانی اس کی حوصلہ افزائی کرنے کا سبب بنے ہیں۔ ان کا موقف رہا ہے کہ ملک کے قانون میں شادی کےلئے عمر کا تعین خلاف اسلام ہے اور اسے ختم ہونا چاہئے یعنی مولانا شیرانی اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ وہ اسلام دشمنوں کے ایسے الزامات کو اپنے دینی علم کی روشنی میں درست ثابت کریں جو وہ اسلام کو بدنام کرنے کےلئے اکثر و بیشتر سامنے لاتے رہتے ہیں۔ یعنی عورتوں کے ساتھ ظلم اور اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنانا یا غیرت کے نام پر بیٹوں بیٹیوں کو قتل کرنا۔ ان الزامات کی روشنی میں اسلامی نظریاتی کونسل جیسے ادارے پر تو یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انہیں غلط ثابت کرنے اور عورتوں کے تحفظ اور عزت و احترام کی صورتحال کو بہتر بنانے کےلئے تحقیق و جستجو کے ذریعے اسلامی تاریخ ، شریعت اور شخصیات کی زندگی سے ایسی مثالیں سامنے لائے، جن سے عورت دشمن منفی سماجی رویوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ لیکن مولانا شیرانی اور ان کے ساتھی اس حوالے سے مسلمہ سماجی علتوں کو اسلام کا جامہ پہنا کر معاشرے کو تاریکی کے زمانے میں واپس لے جانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔

\"sherani\"ان کا یہ کردار اس سال کے شروع میں اس وقت زیادہ واضح ہو گیا تھا جب پنجاب اسمبلی نے عورتوں کے تحفظ کےلئے ایک بل منظور کیا لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے اسے غیر اسلامی قرار دیا۔ حالانکہ اس قانون میں تجویز کئے گئے کسی بھی اقدام کو اسلام سے متصادم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس قانون کے خلاف مولانا شیرانی اور ان کے سرپرست مولانا فضل الرحمن کی مہم جوئی کسی غیر اسلامی اقدام کے خلاف نہیں تھی بلکہ وہ ایک مفید قانون کو متنازعہ بنا کر اسلام اور شریعت کے حوالے سے اپنی اتھارٹی کو تسلیم کروانے کی سیاسی جدوجہد کر رہے تھے۔ عام طور سے اس کاوش کے نتیجے میں دیگر سیاسی و معاشی فائدے بھی حاصل کر لئے جاتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی ابتدائی شکل سابق صدر ایوب خان کے دور میں سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ہوئی تھی۔ بعد کی حکومتوں نے بھی اسے ملک کے دینی طبقوں کو رام کرنے کے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر برقرار رکھا۔ اسی لئے اسے آئینی ادارہ بنا کر اس کے چیئرمین کو وفاقی وزیر کے مساوی مراعات دی جاتی ہیں اور اس ادارے کو چلانے کےلئے کثیر وسائل صرف ہوتے ہیں۔ ہر فرقہ کے علما کو راضی رکھنے کےلئے باری باری اس کونسل کا رکن نامزد کیا جاتا ہے اور اس کا سربراہ اس شخص کو بنایا جاتا ہے، جس کی پارٹی حکمران وقت کی سیاسی ضرورتوں کو پورا کرنے کا فریضہ ادا کر سکے۔ ان حالات میں مولانا محمد خان شیرانی جیسے جید عالم یا اس کونسل کے رکن کے طور پر خدمات سرانجام دینے والے کسی مذہبی رہنما نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ آخر اس کونسل کی خود اپنی شرعی حیثیت کیا ہے۔ کیا اسلام میں اجتہاد اور قانون سازی کےلئے سرکار کی سرپرستی میں قائم ہونے والی کونسل فرائض سرانجام دیتی ہے۔ یا اسلامی تاریخ میں مشائخ اور علمی مرتبت کے منصب پر فائز بزرگوں نے حکومت اور حکمرانوں سے دور رہ کر اپنی علمی استعداد و بصیرت کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی تھی۔ مولانا محمد خان شیرانی عورتوں کو پابند کرنے کےلئے تو ہزار سال پرانی سماجی روایات کا احیا چاہتے ہیں لیکن اتنی ہی پرانی، بزرگان دین کی عہدہ و منصب سے گریز کی روایت پر عمل کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔ خاص طور سے اس صورت میں جبکہ یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام کا مقصد دینی ضرورت کو پورا کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے درپردہ سیاسی مقاصد کارفرما رہے ہیں۔

\"molanaان حالات میں سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی میں کی جانے والی باتیں اور سامنے آنے والی تجاویز نہایت مناسب اور قابل غور ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے ذریعے نہ ملک میں اجتہاد کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں اور نہ اس ادارے میں شامل لوگ معاشرے کے کمزور طبقوں کی حفاظت کےلئے آواز اٹھانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس مختلف مشوروں اور بیانات کے ذریعے عورتوں کے خلاف قتل و غارتگری ، اقلیتوں کے استحصال اور شدت پسندانہ مزاج کی حوصلہ افزائی کا ماحول ضرور پیدا کیا گیا ہے۔ سینیٹ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل کی یہ بات درست ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل خواتین کے خلاف جرائم کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے۔ اور معاشرے میں عورتوں کے بارے میں منفی ماحول پیدا کر کے ان کے خلاف تشدد کو جائز قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل عورتوں کو تحفظ اور احترام فراہم کرنے کی بجائے، ان کے مصائب اور تکلیفوں میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بتایا کہ اسلامی نظریاتی کونسل لوگوں کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ اپنے گھروں پر کلمہ طیبہ تحریر کروائیں۔ اس طرز عمل سے ملک میں جہادی کلچر کو فروغ حاصل ہو گا۔

کمیٹی کے ارکان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں۔ اس لئے ایسا ادارہ نہ قانون سازی میں مدد کر سکتا ہے اور نہ ہی اسلام کی خدمت سرانجام دے سکتا ہے۔ اسے فوری طور پر ختم کرنے کےلئے اقدام کیا جائے اور اس پر صرف ہونے والے 10 کروڑ روپے عورتوں کی حفاظت کےلئے کام کرنے والے قومی کمیشن کو دیئے جائیں۔ حکومت کو اس تجویز پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے فوری اقدام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فیصلہ قومی ایکشن پلان کی روح کے مطابق اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمہ کےلئے اہم قدم ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments