ریاست مدینہ، قرارداد پاکستان اور 16 دسمبر


سولہ اگست 1971 کے سقوط ڈھاکہ اور 16 اگست 2014 کے آرمی پبلک اسکول سانحہ کے درمیان 43 سال کا فاصلہ ہے۔ سوچنا چاہیے کہ ان 43 برس میں اس قوم نے اپنے قیام کے صرف چوبیس برس بعد پیش آنے والے سانحہ سے کیا سبق سیکھا۔ یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ آج قومی سطح پر اور عالمی طور سے پاکستان جن حالات کا سامنا کررہا ہے کیا اس کی وجوہات میں کوئی ایسے عوامل بھی شامل ہیں جو ہماری ضد اور ناسمجھی کی وجہ سے ہمیشہ سے قومی ریاستی پالیسیوں کا حصہ رہے ہوں۔

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی بنیاد میں کجی ہو تو دیوار بھی سیدھی نہیں اٹھتی۔ یہ کہنا تاریخ سے دست و گریباں ہونے کے مترادف ہوگا کہ تحریک پاکستان کے مقاصد اور بنیاد ی اصولوں میں کوئی خامی رہ گئی تھی یا اس وقت مسلم لیگ کی قیادت بعض ایسے معاملات پر واضح اور دو ٹوک رہنما پالیسی اصول وضع کرنے میں ناکام رہی تھی جو ہندوستان میں مسلمانوں کا الگ وطن مانگنے کی تحریک شروع کرتے ہوئے بتانا اہم تھا۔ رہنماؤں کو صاف طور سے یہ بتانا چاہیے تھاکہ علیحدہ ملک کامطالبہ خالصتاً مسئلہ کے سیاسی اور معاشی حل کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔

اس کا مسلمانوں کے عقیدہ یا اس پر عمل کرنے کے طریقہ کار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بوجوہ مسلم لیگ کی حکمت عملی کے بارے میں یہ وضاحت و صراحت سامنے نہیں آسکی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کے مطالبہ کو لے کر آگے چلنے والے یہ بتانے میں بھی ناکام رہے کہ متحدہ ہندوستان میں سے پاکستان نام کا خطہ علیحدہ کرنے کے بعد باقی ماندہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کون کرے گا۔ قیام پاکستان کے بعد کے دنوں میں ان دونوں امور پر سیاسی پریشان خیالی اور فکری بحران دیکھنے میں آیا۔

قائد اعظم محمد علی جناح کو ایک سیکولر لیڈر کے طور پر پیش کرنے والے ان کی دستور ساز اسمبلی میں 11 اگست 1947 کی تقریر کو بنیاد بناتے ہیں جبکہ قرار داد مقاصد کو نظریہ پاکستان کی وجہ تسمیہ جاننے اور بتانے والے اس تقریر پر تبصرہ کرنے کی بجائے قائداعظم کی ایسی تقریروں کے حوالے لاتے ہیں جن میں قرآن اور اسلام کو رہنما اصول بنانے کی بات کی گئی ہے۔ یہ بھی تاریخ کا کڑوا سچ ہے کہ بانی پاکستان کی رحلت کے ایک سال سے بھی کم مدت میں ان کے ہی دست راست اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی سرکردگی میں قرار دادمقاصد کو دستور ساز اسمبلی سے منظور کروایا گیا۔

انہوں نے مارچ 1949 کے پہلے ہفتے میں یہ قرارداد پیش کی اور اسمبلی نے 12 مارچ کو اسے منظور کرلیا۔ یہ قرارداد ان رہنما اصولوں سے متصادم ہے جو قائد اعظم نے گیارہ اگست کی تقریر میں پیشکیے تھے اور جن میں ریاست کو لوگوں کے انفرادی مذہبی عقائد سے بالا قرار دیتے ہوئے پاکستان کو ایک ایسا ملک بتایا گیا تھا جہاں شہریوں کے ساتھ عقیدہ و مسلک کی تفریق کے بغیر سلوک روا رکھا جائے گا۔

بعد کے سارے سال اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ملک کے سیاست دانوں نے ان برسوں کو قائد اعظم کے ریاست اور عقیدہ کو علیحدہ رکھنے کے اصول کو مسترد کرنے کی کوششوں میں صرف کیا۔ اب ملک میں یہ بحث موجود تو ہے کہ کیا قائداعظم سیکولر معاشرہ چاہتے تھے یا وہ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر نئے ملک کا نظام استوار کرنا چاہتے تھے۔ لیکن قائد اعظم کو سیکولر سمجھنے یا قرار دینے والوں کو ملک دشمنی یا مذہب سے برگشتہ ہونے کا طعنہ بھی سننا پڑتا ہے۔

مذہب اور ریاست کے علیحدہ ہونے کی رائے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ کمزور پڑ رہی ہے۔ پاکستان کو ایک نظریاتی ملک تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف یہ مان لیا گیا ہے کہ اسے قرآن و سنت کے مقررہ اصولوں پر ہی چلایا جائے گا بلکہ اس پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عملی طور سے ملک میں آباد اقلیتوں کو ’ذمی‘ کی حیثیت دے دی گئی ہے جو کسی بھی اسلامی معاشرہ میں دوسرے درجے کے شہریوں کے لئے مخصوص اصطلاح کہی جا سکتی ہے۔

ستم ظریفی البتہ یہ ہے کہ اسلامی شریعت ریاست پر ذمیوں یا غیر مسلموں کی حفاظت کی جو ذمہ داری عائد کرتی ہے، موجودہ پاکستان میں اس کا اہتمام کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ یہ مباحث غیر متعلقہ اور غیر ضروری ہو چکے ہیں کیوں کہ سرکاری بیانیہ اور قومی تعلیمی نظام یہ سکھانے اور پڑھانے میں مصروف ہے کہ ملک کی اقلیتیں دراصل ملکی مفاد کے خلاف بغض رکھتی ہیں اور اسی لئے وہ اس کے خلاف سازشوں میں شریک رہتی ہیں۔ اسی لئے ایک دوسرے کا احترام کرنے والے معاشرہ کودفن کردیا گیا ہے۔

قیام پاکستان کے پچیس تیس برس بعد تک معاشرہ میں ایک دوسرے کی خوشی غمی میں عقیدہ اور مسلک کی بنیاد پر نہیں بلکہ سماجی لین دین اور مراسم کی وجہ سے شریک ہونا بنیادی انسانی رویہ کے طور پر قبول کیا جاتا تھا۔ اب یہ سوچ اور طریقہ کار تبدیل ہوچکا ہے۔ بلکہ یہ تقسیم اس قدر واضح اور گہری ہورہی ہے کہ اب صرف عقیدہ ہی نہیں بلکہ مسالک بھی ملک میں رہنے والے لوگوں کے سماجی طور طریقوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔

اس بات کو کہنا اور تسلیم کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے لیکن اس تاریخی حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ معاشرہ کو گروہوں اور مذہبی شناخت کے دائروں میں تقسیم کرنے کی بنیاد قرارداد مقاصد نے ہی ڈالی تھی۔ ایک تو یہ کہ اس قرارداد کی دستور ساز اسمبلی سے منظوری کے وقت ان تمام اقلیتی ارکان نے اس کی مخالفت کی تھی جنہیں قائد اعظم کے ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ لیکن کسی نے ان کے احتجاج اور انتباہ کو خاطر میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

اس واقعہ کے ستر برس بعد واقعات کو درست تناظر میں دیکھنے کا شعور حاصل کیا جاسکے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ قرارداد مقاصد کا اصل محرک طوائف الملوکی کی سیاست اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاسی لیڈروں کی چپقلش تھی جس میں مذہب کو بنیاد بنا کر ایک گروہ نے دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششوں کا آغاز کیا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali