16 دسمبر : ’’دل لہو سے بھر گیا‘‘


کئی مہینوں کے انکار کے بعد حکومت کی جانب سے شہبازشریف کو بالآخر قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین لگانے کے معاملے پر یوٹرن لینے کی وجہ سے تحریک انصاف کی صفوں میں نفاق کا تاثر پھیل رہا ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ نفاق حقیقتاًََ موجود نہیں۔ بہت ہوشیاری سے پھیلایا ایک تاثر ہے۔

اس کی وجہ سے خواجہ سعد رفیق کو اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی وہ سہولت میسر نہیں ہوگی جو پاکستان مسلم لیگ کے صدر کو بآسانی فراہم کردی گئی تھی۔سپیکر اسد قیصر نے اس ضمن میں کافی ’’بڑا دل‘‘ دکھا دیا۔ اسے مزید کشادہ کرنے کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا۔ اپنے تند و تیز بیانات کے باوجود فواد چودھری Hawk نہیں ہیں۔

نہ ہی پرویزخٹک اور شاہ محمود قریشی کسی Dovish راہ پر چل نکلے ہیں۔ عمران خان کی سربراہی میں یہ سب ’’ایک‘‘ ہیں۔ فقط انگریزی محاورے والے Good Cop Bad Cop والی کہانی ہے۔

اس کے سوا کچھ نہیں۔اپنے اس دعویٰ کو سمجھانے کے لئے ایک تفصیلی کالم لکھنے کا ارادہ باندھا تھا۔آنکھ کھلی تو گھر کے مرکزی دروازے پر جاکر اخبارات کا پلندہ اٹھایا اور کمرے میں لاکر بستر پہ رکھ دیا۔ عادتاًََ یہ کالم لکھنے کے بعد اسے دفتر بھیج کرہی اخبارات کے پلندے کے طرف لوٹتا ہوں۔

بدقسمتی سے لیکن ایک اخبار کی پیشانی پر نظر پڑگئی۔احساس ہوا کہ آج 16دسمبر ہے۔کئی حوالوں سے ذاتی طور پر بھی میرے لئے یہ تاریخ بہت اذیت دہ ہے۔ یہ تاریخ جس سال میرے ذہن پر تیز دھار کے ذریعے لگائی ضرب کی طرح ثبت ہوئی اس سال میں فسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔

سکول چھوڑنے کے آخری ایام ہی میں فیصلہ کرلیا تھا کہ بڑے ہوکر مجھے ڈاکٹریا انجینئر نہیں صحافی بننا ہے۔سیاست اور خاص کر قومی اور بین الاقوامی سازشوں وغیرہ کا لیکن علم نہیں تھا۔اس تاریخ کو جو سانحہ ہوا اس کی وجہ سے سادہ لوح ہونے کے باوجود کئی مہینوں تک اداس رہا۔

دل میں خواہش مچلتی رہی کہ جو سانحہ ہوا ہے اسے شیکسپیئر کے انداز میں لکھے کسی المیہ کی صورت بیان کیا جائے۔ ’’تیرا لٹیا شہر بھنبھور‘‘ اس کا عنوان بھی طے کرلیا۔ بات مگر اس سے آگے بڑھ نہیں پائی۔ اوائل عمری ہی میں سمجھ آگئی کہ شیکسپیئر جیسے لوگ یکتا ہوتے ہیں۔صدیوں میں اس جیسا کوئی ایک ہی نمودار ہوتا ہے۔ بندے کو اپنی اوقات میں رہنا چاہیے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ وغیرہ وغیرہ۔

کتابوں کی دوکانوں میں جاکر لیکن اکثر یہ احساس دل کوکچوکے لگاتا رہا کہ زندہ قومیں خود پر بیتے سانحات کو فراموش نہیں کرتیں۔ آج بھی ہر برس یورپ کے کسی نہ کسی ملک میں کوئی شخص سب کچھ تج کر یہ طے کرنے کی لگن میں مبتلا ہوجاتا کہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کے دوران لوگ اس قدروحشی کیوں ہوگئے تھے۔

اس کی وجوہات ڈھونڈتے ہوئے کچھ بہت ہی حیران کن توجیحات دریافت ہوجاتی ہیں۔ مقصد اس تحقیق کا یہ ہوتا ہے کہ تاریخ خود کو دہرائے نہیں۔ماضی پر بہت لگن اور خلوص سے ہوئی اس مسلسل تحقیق کے باوجود برطانیہ میں گزشتہ برس Brexit ہوگیا۔ پولینڈ اور ہنگری میں متعصب قوم پرستی شدت اختیار کررہی ہے۔

جرمنی میں کئی لوگوں کو ہٹلر یاد آنا شروع ہوگیا ہے اور حال ہی میں اٹلی میں جو ناول سب سے زیادہ مقبول ہوا ہے اس کا موضوع مسولینی ہے جس نے اس ملک پر فسطائیت مسلط کی تھی۔ اس ناول کا مصنف بہت عاجزی سے لوگوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ مسولینی کو اپنی قوم کا ہیرو نہیں سمجھتا۔ اسے بدی کی علامت ٹھہراتا ہے۔ اس کے ناول پر تبصرہ کرنے والوں کو مگر اعتبار نہیں آرہا۔

قارئین کی اکثریت تک بھی یہ پیغام نہیں پہنچا جو مصنف اپنے تئیں پہنچانا چاہ رہا تھا۔ اس ناول کے قارئین میں نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے کئی فلمسازNetflixکے لئے اس کی بنیاد پر کوئی ڈرامائی سلسلہ تیار کرنا چاہ رہے ہیں۔ کئی مبصرین کو یہ خدشہ ہے کہ ایسا کوئی ڈرامہ بن کر مقبول ہوگیا تو اٹلی میں احیائے مسولینی کی تحریک مضبوط تر ہونا شروع ہوجائے گی۔

وہاں کی مخلوط حکومت میں ان دنوں Five Star Partyنامی جماعت بھی شامل ہے۔ یہ جماعت بنیادی طورپر اٹلی کے جنوبی صوبوں میں کئی برسوں سے پھیلی بیروزگاری اور تارکین وطن کے بوجھ کے باعث ابھرے غصے کی وجہ سے ’’اچانک‘‘ ابھری۔ بہت استقامت سے اس نے خود کو اٹلی کے روایتی میڈیا سے دور رکھا۔

اپنے رہ نمائوں پر پابندی لگائے رکھی کہ وہ مقبول ٹی وی ٹاک شوز میں حصہ نہیں لیں گے۔ عوام تک اپنا پیغام براہِ راست رابطوں کے ذریعے پہنچائیں گے۔ اس کے علاوہ SMS، فیس بک اور Whatsappکے گروپ بنے اور انتخابات میں اس جماعت نے اٹلی کے جنوبی اضلاع میں اپنے تمام سیاسی مخالفین کو جو کئی برسوں سے اقتدار میں ’’باریاں‘‘ لے رہے تھے چاروں شانے چت کردیا۔

اپنی کاہلی اور غیر تخلیقی ذہن کو تسلی دینے کے لئے مجھے یہ عذر تراشنے میں آسانی ہوگئی ہے کہ آج سے47سال قبل آئے 16دسمبر کی شب میرے ذہن پر جو کاری ضرب لگی تھی اس کی شدت کو برقرار رکھتے ہوئے میں کوئی ادبی شاہکار وغیرہ تخلیق بھی کرلیتا تو کیا فرق پڑتا۔

شاہ حسین نے رب کا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس کی جوانی اور حسن بڑھاپے کی نذر ہوگئے۔وہ ’’مکھیوں کی بھنبھناہٹ‘‘ سے نجات پا گیا۔ دل کی بے کلی سے نجات پانے ہی میں شانتی ہے۔

اخباری کالم کو ویسے بھی شگفتہ ہونا چاہیے تاکہ لوگوں کا دن اسے صبح پڑھنے کے بعد خراب نہ ہو۔ تھوڑی چاشنی اور ذرا چسکے سے کام چلانا چاہیے۔مناسب ہوتا کہ آصف علی زرداری کی جانب سے ہفتے کی شب حیدر آباد میں ہوئی تقریر کے بعد میں ’’اینٹ سے اینٹ‘‘ والی تقریر کو یاد کرکے آج کی دیہاڑی پوری کر لیتا۔ اخبار کی پیشانی پر 16دسمبر کی تاریخ دیکھی تو منیرنیازی کا ریل کی سیٹی کی وجہ سے ’’دل لہو سے بھرگیا‘‘ والا معاملہ ہوگیا۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).