بے روزگار صحافت کے موسم میں انٹرویو برائے ملازمت کی باتیں


 

مخصوص حالات نے مجھے کچھ لوگوں کا اعزازی مشیر بنا رکھا ہے۔ اِن میں سب سے نمایاں زمرہ میرے سابق ہمکار صحافیوں کا ہے، جن میں سے کوئی نہ کوئی ہر آٹھویں دسویں دن کسی تربیتی اسکالرشپ کے لیے ریفرنس لکھنے کی فرمائش کر دیتا ہے۔ دوسرے نمبر پہ ہیں یونیورسٹی کے نئے اور پرانے شاگرد جن کے مطالبات میں تحقیقی مقالوں کی نظر ثانی سے لے کر دستاویزی فلموں کی اسکرپٹنگ، ایڈٹنگ اور صوتی ریکارڈنگ جیسی میری رضا کارانہ سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔

زیادہ مزیدار وہ فصلی بٹیرے ہیں جن کی آواز صرف افواہوں کے موسم میں سننے کو ملتی ہے۔ افواہوں سے مراد سیاسی قیاس آرائیاں نہیں بلکہ کبھی کبھا ر یونہی اڑتی اڑتی خبریں کہ شاہد ملک ایک معروف ٹی وی چینل کے ڈائرکٹر نیوز ہونے والے ہیں۔ تب ہر فون کال کا آغاز اِسی جملے سے ہوتا ہے کہ ملک صاحب، اِس دفعہ اپنے بھائی کا خیال ضرور رکھئے۔

اب ایک طرف سفارشی فون کالیں، ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا کے پیغامات، دوسری جانب خود بھائی کا یہ تذبذب کہ اگر محض اُس کے کہنے پہ کسی کو الیکٹرانک میڈیا میں فل ٹائم جاب مِل جانے کا اندیشہ ہوتا تو بھائی سب سے پہلے سچ مُچ اپنے لئے ٹرائی نہ کر رہا ہوتا۔ اِس پر کیا کلاسیکل جواب ملتا ہے۔ ”سر، آپ کی بات اور ہے۔ آپ کو تو ضرورت ہی نہیں“۔ ضرورت کیوں نہیں؟ یہ پوچھنے کی جرأت مجھ میں نہیں۔ اِس لئے کہ شرافت کی سند رکھنے والے نیک نام آدمیوں کو یار دوست جوشِ محبت سے ایسے برتر مقام پہ لے جاتے ہیں جہاں اُس کی ذات انسانی ضرورتوں سے تہی ایک تجریدی اکائی بن کے رہ جاتی ہے۔ اِس پس منظر میں، دو سال پہلے سول سروس کا ایک سنجیدہ امیدوار آخری وقت پر اِس تجریدی اکائی سے ملنے پہنچ گیا اور کہنے لگا ”انکل کل انٹرویو ہے، ذرا سی گائیڈ نس چاہتا ہوں“۔

ایسی صورت میں اعزازی مشیر امیدوار کو گائیڈ کرنے کی خاطر ترانہ ء پاکستان کے خالق ابو الاثر حفیظ جالندھری سے رہنمائی کا طالب ہوتا ہے۔ حفیظ صاحب کو اپنی ”سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی“ والی طرز اتنی پسند تھی کہ اگر اُن کی کوئی نظم قدرے مختلف بحر میں ہوتی تو بھی اُس کے ترنم کو اِسی دُھن میں ڈھالنے کی کوشش فرماتے۔ یہی کچھ انکل نے کیا، جن کی لاپروائی کا یہ عالم ہے کہ سول سروس انہیں اگر غور سے دیکھ لے تو مارے شرمندگی کے کسی فوجی محکمے کے پیچھے منہ چھپا لے۔

 انکل نے ا میدوار سے اُسی کی دلچسپی کی دو ایک باتیں پوچھیں اور کہا کہ انٹرویو میں چہرے پہ مسکراہٹ کا تاثر لائیں، ساتھ ہی آواز کا لیول تھوڑا سا اونچا رکھیں۔ دوسرا مشورہ یہ تھا کہ ہر جواب کا اوسط دورانیہ پینتیس سیکنڈ ہونا چاہیے اور جواب آپ کے کسی پسندیدہ کلیدی لفظ پہ ختم ہو۔ اکثر و بیشتر یہی لفظ اگلے سوال کی بنیاد بنے گا۔ عملی طور پر ایسا ہی ہوا اور نوجوان کی سلیکشن ہو گئی۔

اِس سال، البتہ، سردیاں شروع ہوتے ہی ذرائع ابلاغ میں نوکریوں کو ہونجا پھرنے کا جو حوصلہ شکن سلسلہ جاری ہے، اُس کے ہوتے ہوئے اپنے بارے میں قیاس آرائیوں کی گنجائش تو بالکل نہیں رہی۔ ساتھ ہی اِس مطالبے کا امکان معدوم سمجھیں کہ ملک صاحب، اِس دفعہ اپنے بھائی کا خیال ضرور رکھئے۔ پاکستانی معیشت میڈیا کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں اور یونیورسٹیاں ہیں کہ ہر برس بے روزگاروں کی فوج میں سینکڑوں، بلکہ ہزاروں کے حساب سے نفری بڑھاتی جا رہی ہیں۔

 میڈیا کو چھوڑ کر باقی پیشوں کی صورتِ حال بھی چنداں بہتر نہیں۔ چنانچہ اِس مہینے عزیز و اقارب کے جو بچے بچیاں حصولِ ملازمت کی مشاورت کے لئے آ رہے ہیں، انہیں کیا مشورہ دوں؟ سوائے اِس کے کہ آپ کا انٹرویو تو ہماری اُن بیٹیوں اور بہنوں جیسا قسمت کا کھیل ہو گا، جنہیں اپنے ازدواجی رشتے کی خاطر آج بھی اجنبی مرد و خواتین کے سامنے چائے کی ٹرالیاں پھدکانی پڑتی ہیں۔

 یہاں پہنچ کر قارئین اپنے کالم نویس سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا اُس نے بھی نوکری کی خاطر کبھی ٹرالی پھدکائی یا ساری باتیں محض تخیل کے زور پہ کی جا رہی ہیں۔ اس پر اپنی ٹرالی سے پہلے ایک اور صاحبِ طرز کالم نگار کی چائے کی ٹرے بیچ میں پھدکتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ ٹرے بردار خالد حسن ہیں، جو ایم اے انگلش کرنے کے بعد تدریس سے وابستہ ہوئے اور پھر خدا جانے کِس جذبے کے تحت انکم ٹیکس سروس کے امتحان میں شریک ہو کر کوئی دس برس تک سرکارِ پاکستان کی ملازمت میں رہے۔

 آخرکار اپنے طبعی میلان کے ہاتھوں اس بنا پہ روزنامہ ”پاکستان ٹائمز“ میں سینئر رپورٹر کا عہدہ قبول کرنا پڑا کہ یار، نہ تو مجھے انکم ٹیکس کے کام میں دلچسپی تھی، نہ اِس محکمے میں رہ کر پیسے بنانے کا شوق۔ بہر حال، سروس میں اُن کی شمولیت کو ایک خوشگوار حادثہ سمجھنا چاہیے، کیونکہ انٹرویو کے دوران انہوں نے بعض سوالات کے ایسے جواب دیے جو فقط خالد صاحب ہی کو سوجھ سکتے تھے۔

 جیسے بورڈ نے یہ سوچ کر کہ آپ مرے کالج سیالکوٹ، اسلامیہ کالج لاہور، لارنس کالج گھوڑا گلی اور کیڈٹ کالج حسن ابدال میں انگریزی پڑھا چکے ہیں، امیدوار سے مشکل الفاظ کے لغوی معانی پوچھنے شروعکیے۔ ایک لفظ تھا ”ہاؤلر“۔ آج کل تو زرد صحافت اور بھانت بھانت کے ٹی وی چینل کھُل جانے کی بدولت اِس کا مفہوم پوری طرح آشکار ہو چکا ہے، مگر 1958 ء کے خالد حسن کے لئے یہ ایک نیا لفظ تھا۔ انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اِس کے معانی انہیں معلوم نہیں۔ بورڈ کے رکن اور انگریزی ادب کے نامور استاد پروفیسر سراج الدین اُس دن چسکا لینے کے مُوڈ میں ہوں گے۔ کہنے لگے ”ذہن پہ زور ڈالو اور کوشش کرو“۔ اب خالد صاحب نے جو جواب دیا اُس کا مزا اہلِ ذوق ہی لے سکتے ہیں۔ فرمایا : Howler ’means one who howls‘ امیدوار انٹرویو میں اول رہا۔

پندرہ سولہ سال کے وقفے سے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے سامنے میرا ٹرالی پھدکانے کا واقعہ اتنا ڈرامائی نہیں۔ ہاں، ایک مماثلت ضرور ہے اور وہ یہ کہ کمیشن کے چیئرمین کے ساتھ انٹرویو لینے کے لئے انگریزی ادب کے جو ماہرین بیٹھے اُن میں ایک تو نامور صحافی زیڈ اے سلہری کی غیر ملکی اہلیہ مسز ایس ایم سلہری جو پنجاب یونیورسٹی کی استاد تھیں۔ اُن کے ساتھ تشریف فرما تھے گورنمنٹ کالج لاہور کے دو پروفیسر خالد خان اور عبدالرؤف انجم، جبکہ امیدوار ایم اے کی ڈگری ایک غیر مقامی ادارے گورڈن کالج راولپنڈی سے لے کر آیا تھا۔

خالد حسن نے، جن کی تعلیم مرے کالج سیالکوٹ میں ہوئی، ایم اے میں اپنے غیر معیاری نتیجے کے طعنے پر بورڈ کے سامنے صاف کہہ دیا تھا کہ پنجاب میں فرسٹ اور سیکنڈ ڈویژن کی ڈگریا ں صرف لاہور کے طلبہ میں تقسیم ہوتی ہیں، جبکہ مَیں نے امتحان ایک دور افتادہ ادارے سے دیا تھا۔ مجھے یہ طعنہ تو نہ ملا، لیکن انٹرویو میں ممتحنوں کا دیا ہوا ٹف ٹائم ہمیشہ یاد رہے گا۔

آپ کہیں گے ”اتنی لمبی کہانی سُنا دی۔ یہ تو بتاؤ، پوائنٹ کیا مارنا چاہتے ہو؟ “ پوائنٹ یہ ہے کہ گورڈن کالج میں ڈاکٹر فرانسس زیوئر، پروفیسر سجاد شیخ، نتھینئیل ڈین اور رؤف حسن کے زیر تعلیم رہنے والے شاگرد نے دورانِ انٹرویو جارحانہ بولنگ کے جواب میں کہیِں تو سیدھے بیٹ سے دفاعی انداز میں کھیلا، کہیں بیک فٹ ہو کر گیند کی ٹرن کا زہر نکالا اور ایک دو موقعوں پہ مسکرا کر منجھے ہوئے انداز میں ویل لیفٹ۔ مجموعی کارکردگی درمیانے درجے سے کچھ بہتر تھی۔ جب امپائر وکٹوں پہ سے ’بیلز‘ ہٹانے لگے تو چیئر مین صاحب نے، جن کے نام کے آخر میں محمود آتا تھا، ایک لُوز بال دے دی۔ پوچھنے لگے ”آپ کا مشغلہ؟ “ مجھے علم نہیں تھا کہ فوٹو گرافی یا ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کی طرح شعر گوئی بھی ایک با قاعدہ مشغلہ ہے۔ خیر، ذکر کرنے کی دیر تھی کہ چئیرمین صاحب کھِل اُٹھے۔

بلے باز بھی چوکے چھکے مارنے لگا۔ نتیجہ نکلا تو صوبے بھر میں دویم۔ یہ توکئی سال پہلے لاہور کے ایک سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس، جو پچھلی صدی میں مجھ سے دو سال انگریزی پڑھتے رہے، پنجاب اسمبلی کے احاطے میں صحافیوں کے ایک ٹریڈ یونین رہنما سے شدید بد سلوکی کے مرتکب ہوئے۔ مَیں موقع پر پہنچا تو جرنلسٹ برادری کے اشتعال پر قابو پانے کے لئے مجھے گلے لگا کر زور سے کہنے لگے ”زندگی میں جو سیکھا، ’سر‘ سے سیکھا ہے“۔ ”جو کچھ آج کر رہے ہو، یہ تو مَیں نے نہیں سکھایا تھا“۔

آپ کہیں گے پیشہ ورانہ شعبوں کے آئندہ امیدواروں کے لیے تو کوئی مشورہ دیجئے۔ جواب میں برطانوی فلسفی اور پولیٹکل سائنٹسٹ سی ای ایم جوڈ کا حوالہ دوں گا، جنہوں نے تحریری اسلوب کے موضوع پہ طلبہ کو یہ کارآمد نصیحت کی تھی کہ ”صاف صاف سوچو، سیدھا سیدھا لکھو“۔ امتحان، انٹرویو، نوکریاں اور بے روزگاری، یہ سب ٹیسٹ میچ کے بجائے ٹونٹی ٹونٹی کا کھیل ہیں، لیکن صاف سوچنے اور سیدھا لکھنے کے سبق کو اگر سارے جیون پہ لاگو کر لیں تو پھر ”ہارے بھی تو بازی مات نہیں“۔ نہ بھی ہو تو میری رائے بہرحال یہی ہے۔

 (بشکریہ روزنامہ پاکستان)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).