اوریانیت کا ناسور


\"tahirہمارے معاشرے میں صدیوں سے خواتین گھروں سے باہر مختلف کردار ادا کر رہی ہیں۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں فصل کی کاشت کے لئے بیج بونے سے لے کر کٹائی اور اناج گھر لانے تک کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوتا تھا جس میں خواتین کا متحرک کردار نہ رہا ہو۔ آج بھی زرعی اعتبار سے زرخیز دیہاتوں میں ان کے یہی معمولات ہوتے ہیں۔ ان کاموں کے لئے وہ برقع نہیں اوڑھتیں بلکہ باریک سا دوپٹہ ہی لیتی ہیں اور کام کرتے ہوئے انہیں بعض اوقات دوپٹے کا خیال بھی نہیں ہوتا۔ کھیتوں میں کام کے لئے جانے کے لئے انہیں کسی مرد کی لازمی طور پر ساتھ کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ دو تین خواتین مل کر یا گروہوں میں اور بعض اوقات اکیلی بھی چلی جاتی ہیں۔ کپڑے دھونے اور نہانے کے لئے کنوؤں، ندیوں اور آبشاروں پر خواتین جاتی رہی ہیں اور اب بھی جن دیہاتوں میں واٹر سپلائی کا نظام نہیں اور گھروں میں پانی آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا، وہاں خواتین کو پانی کے لئے دور دراز گھریلو استعمال کے لئے پانی بھر کر لانا پڑتا ہے اور کپڑے دھونے ہوں تو وہ کپڑے اٹھا کر پانی کے کسی ذخیرے کے پاس ہی لے جاتی ہیں۔ وہ وہاں لباس اتار کر غسل بھی کرتی ہیں۔ اگر کوئی لڑکا یا مرد ان کے کھیتوں میں کام کرتے ہوئے یا کپڑے دھوتے اور نہاتے ہوئے ارد گرد سے نظر ڈالنے کی کوشش کرے تو وہ معاشرتی دباؤ کے تحت احساسِ جرم اور احساسِ ندامت کا شکار تو ہوتا ہی ہے، لیکن اس میں خواتین نہیں، بلکہ سماجی سطح پر وہ مرد شدید بدنام ہوتا ہےٍ۔ یہ وہ تحفظ ہے جو عورت کے احترام کی اقدار سے خواتین کو حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے انہیں گھر سے باہر دور دراز کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا اور وہ اطمینان سے اپنی سرگرمیاں سرانجام دیتی ہیں اور کام نمٹاتی ہیں۔

شٹل کاک برقعہ یا سخت قسم کا پردہ قبائلی علاقوں یا ان علاقوں میں ملے گا جہاں زراعت پر کم انحصار ہوتا ہے یا گھروں سے باہر پیداوار میں خواتین کا کچھ خاص کردار نہیں ہوتا اور دستکاری و دیگر گھریلو صنعتوں میں ہی خواتین کردار ادا کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کا گھر سے باہر آنا معیوب سمجھا جاتا ہے اور مکمل ڈھاپنا جاتا ہے۔ اگر انہیں گھر سے باہر کوئی کام ہو تو پردوں میں چھپا کر لایا جاتا ہے۔ صحرائی معاشرے کی بجائے جہاں زرعی پیداوار پر انحصار ہوتا تھا، وہاں خواتین کو  گھر سے باہر کام کاج کے لئے نکلنے کو معاشرتی تحفظ فراہم کرنے کے لئے اقدار وضع ہوئیں۔ اگر کوئی ان پر گندی نظر ڈالنے کی کوشش کرتا تو اس کا کوئی دفاع نہیں کیا جاتا بلکہ وہ لعن طعن کا حقدار ہی ٹھہرتا۔ ان اقدار کے بیان کرنے کا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ ہمارا معاشرہ مادرانہ تھا اور یہاں مردانہ بالادستی کی غیرت اور خواتین کے استحصال کی روایات موجود نہیں رہیں۔ خواتین کو زندہ جلانا، غیرت کے نام پر قتل، ونی، قرآن سے شادی، وٹہ سٹہ، کالا کالی، طور طورہ، کاروکاری، ریپ کی صورت میں عورت کو ذمہ دار سمجھنا، عورتوں کو برابر کے انسان کا درجہ نہ دینا وغیرہ کی اقدار بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں، مگر چند مثبت سماجی اقدار بھی رہیں جن کا ذکر ہونا چاہیے اور معاشرے کے آگے بڑھنے کے لئے شعور کے ذریعے انہیں ترقی دینا اور از کار رفتہ اقدار کا خاتمہ کرنا ہوتا ہے۔

صنعتی دور میں پیداوار کے نئے طریقوں میں کام کے مواقع اور میدان وسعت اختیار کر گئے۔ ایسے میں جب خواتین تعلیم اور مختلف شعبوں میں کام کے لئے باہر نکلیں تو معاشرے نے مجموعی طور پر تنگ نظری کا مظاہرہ کیا جو کہ ہر جدت کے بعد پرانے ادوار میں جینے والوں کی جانب سے ہوتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اور خواتین کے لئے معاشرے میں مختلف کردار ادا کرنے میں طرح طرح کی مشکلات انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں بھی جاری ہیں جس کی سب سے کمتر شکل خواتین کو ہراساں کرنے والی ”اوریاں“ نظریں ہیں۔ معاشرتی سطح پر نئے حالات کا سامنا کرنے کے لئے بدلنے کی رفتار کافی سست ہے بلکہ اس عمل کو پیچھے لے جانے میں ضیا کے تاریک دور کا سایہ بھی دہائیوں سے قائم ہے جب پی ٹی وی پر خواتین کو مکمل طور پر ڈھانپ دیا گیا، زن مخالف ادب اور خیالات کو مزید فروغ ملا اور اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہم ابھی تک اس تاریک دور کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے۔ سماجی سطح پر البتہ گندی نظر والوں کو کبھی کوئی مقام حاصل نہ ہوا اور اسے برا ہی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اب ایک عمر رسیدہ اینکر اور کالم نگار کو محض گندی نظر کی وجہ سے دھرتی کا بیٹا اور اسلام کا سپاہی وغیرہ جیسے القاب و آداب دے کر نام نہاد معاشرتی اقدار و روایات کے امین ہونے کے دعویداروں نے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف ان اقدار کو ہی اہمیت دیتے ہیں جس میں قدامت پسند اور زن مخالف پہلو ہی نمایاں ہو۔

کیو موبائل کے دقیانوسی سوچ کے خلاف مثبت پیغام اجاگر کرنے والے پانچ منٹ تین سیکنڈ کے ایڈ میں سے ایک سیکنڈ کے باؤلنگ ایکشن پر ”اوریانی“ و فحاشی کے الزامات کے متعلق منٹو مرحوم کے افسانوں پر عریانی کے الزام میں قائم کیے گئے مقدمات میں بہت زبردست مواد ملتا ہے۔ افسانہ ”ٹھنڈا گوشت“ پر مقدمے میں منٹو نے دفاع میں کہا تھا: \”میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لیے ہیں۔ نارمل انسان کے لیے جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے“۔ یہ باؤلنگ کرانے والی لڑکی کے سینے پر تاک کر نظریں گاڑھنے والوں پر صادق آتا ہے۔ افسانہ ”دھواں“ پر الزامات کی صفائی میں منٹو نے بیان جمع کروایا: \”جو لوگ روحانی، ذہنی اور جسمانی لحاظ سے تندرست ہیں، اصل میں انہی کے لئے شاعر شعر کہتا ہے، افسانہ نگار افسانہ لکھتا ہے اور مصور تصویر بناتا ہے“۔ کیو موبائل کو بھی اپنے اشتہار میں انتباہ شامل کر دینا چاہیے تھا کہ ان کا تخلیقی آئیڈیا پر مشتمل ایڈ صحت مند اذہان کے لئے ہے، ذہنی معذور اور دماغی خلل کا شکار افراد اسے نہ دیکھیں۔

اس اشتہار پر ”عریاں“ ردعمل سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ فحاشی کا تعلق دیکھنے والے کی نیت اور دماغی فتور سے زیادہ ہوتا ہے۔ اکثریت نے جب اشتہار دیکھا تو ایسا کچھ محسوس نہ کیا بلکہ جذباتی پیغام پر غور کیا، مگر بعض ”عریاں“ اذہان کے مالک لوگوں نے سلو موشن میں سینے کے ابھار بار بار زوم کر کے اور انتہائی گہرائی سے لڑکی کے اچھلتے قدم گن گن کر فحاشی برآمد کی جو ان کی پانچ منٹ کے اشتہار میں سے ایک سیکنڈ کے سین پر غور و فکر اور نہایت باریکی سے مناظر کو جزوی طور پر پسِ منظر سے علیحدہ کر کے فحش ثابت کرنے کے لئے کی جانے والی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اس ایڈ میں خواتین کو اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے اپنی مرضی کی فیلڈ چننے میں خاندانی اقدار کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات کا تو ذکر ہے مگر اس کے بعد ایک انتہائی آئیڈیل کیس ہے جس میں ”اوریاں“ نظروں اور ہراساں کرنے کیوجہ سے پیش آنے والی معاشرتی مشکلات کا کوئی ذکر نہیں۔ اوریا مقبول جان نے ”اوریانی“ کا پہلو کشید کرکے اس کمی کو انتہائی نفاست سے پورا کیا۔ ایڈ میں لڑکی کا والد بھی انہی ”اوریاں“ نظروں کی وجہ سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ اسے کرکٹ کھیلنے کے لئے نہیں جانے دے رہا تھا۔

خواتین کی کرکٹ اور دیگر کھیلوں کی ٹیموں میں یہ ”اوریانیت“ کے واقعات حقیقی طور پر موجود ہیں۔ انڈر 17 خواتین کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی حلیمہ رفیق نے دو سال قبل ملتان کرکٹ کلب کی انتظامیہ کے ناروا سلوک سے تنگ آ کر رمضان میں ہی خود کشی کر لی تھی۔ خواتین کی قومی کرکٹ ٹیم کی کھلاڑیوں کی کہانیاں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں کہ کیسے وہ سٹیریوٹائپس کو توڑ کر کھیلنے کے لئے باہر نکلیں اور معاشرتی مشکلات کے مقابلے میں محنت کے ذریعے قومی ٹیم تک پہنچیں۔ قومی کھلاڑی ندا ڈار کے مطابق اس کا بھائی کھیلنے سے روکتا تھا لیکن جب وہ کرکٹ ٹیم کا حصہ بنی تو اب وہی بھائی لوگوں کو فخر سے بتاتا ہے کہ وہ ندا ڈار کا بھائی ہے۔ ان کے کھیل کو اوریانیت زدہ سوچ کے تحت فحش قرار دینا دراصل ان کے لئے معاشرتی مسائل پیدا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہی ہے۔

خاندان کا ادارہ یا اقدار کبھی بھی مستقل نہیں ہوتیں اور ان میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے۔ آج جو اقدار ہیں، وہ بھی صدیوں کی تاریخ میں ارتقاء پذیر ہو کر ہی موجودہ حالت تک پہنچی ہیں۔ اسی طرح والدین بھی انسان ہوتے ہیں۔ والدین اور اولاد کا رشتہ احترام کے اعلیٰ مقام پر ضرور ہوتا ہے، لیکن بہرحال انسانی تعلق ہی ہوتا ہے۔ وہ بھی والدین ہی ہوتے ہیں جو اپنی بیٹیوں کو زندہ جلاتے، غیرت کے نام پر قتل کرتے اور ان کی مرضی کے بغیر ان کی شادی کرتے ہیں۔ اس لئے اس رشتے کو انسانی رشتے سے بڑھ کر کسی مقدس مقام پر فائز نہیں کیا جا سکتا اور یہ والدین کے لئے بھی یہی بہتر رہتا ہے کہ ان سے تعلق کو انسانی تعلق ہی سمجھا جائے۔ والدین سے بھی بشری کمزوریوں کے باعث غلطیاں ہوتی ہیں۔ جب انسان کسی کے فیصلے سے اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود ہوتا دیکھے یا گھٹن محسوس کرے تو ایسی صورت حال میں بہتر یہی ہوتا ہے کہ بہتری کے لئے اپنی زندگی سے متعلق فیصلے کو صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد خود اپنے ہاتھ میں لے لیا جائے۔ اس ایڈ میں بھی لڑکی کا باپ ایسا تھا جو صرف سنانے پر یقین رکھتا تھا اور اولاد کے متعلق فیصلوں میں ان کی رائے سننا پسند نہیں کرتا تھا مگر بعد میں اسے غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وقت ثابت کرتا ہے کہ لڑکی کا فیصلہ درست تھا، لیکن والد کے ممکنہ غلط فیصلے کی وجہ سے کوئی مجموعی نقصان نہ ہوا۔ نقصان تب ہوتا جب وہ باپ کے دقیانوسی خیالات کی وجہ سے ہمت ہار کر گھر بیٹھ جاتی، اپنے ٹیلنٹ کو باپ کے فیصلے کی بھینٹ چڑھا دیتی اور ملک کو بھی اس کے ٹیلنٹ کا کوئی فائدہ نہ ہوتا، مگر اس نے ایسا نہ کیا اور قومی ٹیم کو میچ جتوا کر اور ملک کا نام روشن کیا اور اپنی صلاحیت اور محنت کے ذریعے پلئیر آف دی میچ کا ایوارڈ جیت کر باپ کو اس کے خیالات کے متعلق احساس دلوایا۔ یہ کافی جذباتی اشتہار ہے۔حالیہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں خواتین کی ٹیم کی جس طریقے سے حوصلہ افزائی کی گئی، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نئی حقیقتوں کا سامنا کرنے کے لئے سوچ بدل ضرور رہی ہے لیکن قدامت پسند خوف پیدا کرنے کے ذریعے اس سوچ کی تبدیلی کو روکنے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ہی کراچی یونیورسٹی میں طلبہ کی ایک انتہاء پسند مذہبی تنظیم نے کرکٹ کھیلنے پر لڑکیوں کی بلے سے پٹائی کی۔ خواتین کو اس اوریانیت سے تحفظ کی ضرورت ہے۔ اوریانیت کا حل یہ نہیں کہ لڑکیوں کو گھروں میں قید کر دیا جائے بلکہ اوریاں زدہ لوگوں کے شر کو لگام دینی چاہیے۔ ریاستی ذمہ داری کے علاوہ معاشرتی سطح پر بھی ایسے لوگوں اور ایسی سوچ پر سماجی دباؤ ہو تاکہ ہماری خواتین معاشرے میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق کردار ادا کرنے اور اپنی مرضی کی مثبت تخلیقی اور تفریحی سرگرمیوں کے لئے غیر محفوظ نہ ہوں۔ پاکستان کی خواتین کی کرکٹ ٹیم موجود ہے اور ان کے میچز لائیو نشر کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں گیند پھینکتی لڑکی کو دکھانے والے ایڈ پر پابندی کا مطالبہ بے معنی اور مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ ہمیں ان خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو مختلف گھسے پٹے نظریات اور ٹابوز کو توڑ کر مقامی و عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرتی ہیں، نہ کہ ان کے کھیلنے کو ہی فحش سمجھا جائے۔

عورت کے احترام اور اسے انسان سمجھنے کی اقدار کو فروغ حاصل ہونا چاہیے اور ہر خاتون کو گندی، ہوس زدہ اور بھوکی نظر سے دیکھنے، ہراساں کرنے، عورت کو محض جنسی عمل کے لئے استعمال ہونے والی شے سمجھنے اور اس کے ہر انگ اور عمل سے جنسی لذت کشید کرنے اور تصور کرنے والے رویوں کے لئے بالکل بھی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ خواتین کے لئے محفوظ معاشرہ اور ماحول تشکیل دینے کے لئے یہ لازم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments