کانگریس رہنما سجن کمار کو سکھ مخالف فسادات میں ملوث ہونے پر عمر قید کی سزا


سجن کمار

انڈیا میں دلی ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کانگریس کے ایک سینیئر رہنما کو سنہ 1984 میں سکھ مخالف فسادات کے دوران ہجوم کو مشتعل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

اس فیصلے کو سکھ مخالف فسادات کے سلسلے میں اب تک کا سب سے اہم فیصلہ کہا جا رہا ہے۔

کانگریس رہنما سجن کمار 1984 میں ان فسادات کے وقت رکن پارلیمان تھے اور انھیں ’ہجوم کو سکھوں کو مارنے کے لیے مشتعل کرنے‘ کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

فیصلے میں ہائی کورٹ کے جج نے کہا کہ ملزم ‘سیاسی سرپرستی’ کے سبب انصاف سے بچتا رہا۔

خیال رہے کہ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے اپنے سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا جس کے بعد ہونے والے فسادات میں تین ہزار سے زیادہ سکھ مارے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

سکھ ابھی بھی آپریشن بلیو سٹار کو نہیں بھولے

خالصتان کا مسئلہ اب کیوں اٹھ رہا ہے؟

سکھ اپنے مذہب کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹمپل سے عسکریت پسندوں کو نکالنے کے لیے اندرا گاندھی کے فوج بھیجنے کے فیصلے سے مشتعل تھے۔

کانگریس کی رہنما اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ملک بھر میں سکھ برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

مظاہرین

34 سال تک اہم رہنما ان سکھ مخالف فسادات میں شامل ہونے کے الزام سے بچتے رہے لیکن پیر کو سجن کمار کے مرتکب پائے جانے کے بعد اس میں تبدیلی نظر آئی ہے۔

سجن کمار کے خلاف فسادات سے متعلق کئی مقدمات درج ہیں لیکن یہ فیصلہ دلی کے ایک سکھ خاندان کے پانچ افراد کے قتل کے سلسلے میں آیا ہے۔

سجن کمار کو کس کیس میں سزا ہوئی ہے؟

پنجابی سروس کے ایڈیٹر اتل سانگر نے بتایا کہ جگدیش کور کے خاندان کے پانچ مرد 34 سال قبل بہیمانہ طور پر قتل کر دیے گئے تھے۔

جگدیش کور نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ‘بہت زمانے کے بعد ہمارے زخموں پر مرہم لگا ہے۔ کم از کم ایک نامی گرامی ملزم اب جیل جائے گا۔’

اتل سانگر نے بتایا کہ سجن کمار کی عمر قید اور پانچ دیگر افراد کو دی جانے والی جیل کی سزا سکھ برادری کے لیے قدرے تسلی کا باعث ضرور ہے لیکن یہ سزا اس تاریک باب کو بند نہیں کر سکے گی۔

نومبر سنہ 1984 کے فسادات میں مارے جانے والے سکھوں کے ہزاروں رشتہ داروں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

اس کے علاوہ کانگریس کے سابق وزیر جگدیش ٹائٹلر کے خلاف بھی سکھ مخالف پر تشدد فسادات کے مقدمات ہیں لیکن وہ اس سے انکار کرتے ہیں۔

سکھوں کے گھروں کو آگ لگائی گئی تھی

AFP/Getti Images
سنہ 1984 میں انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھ مخالف فسادات بھڑک اٹھے تھے

اب تک ان فسادات میں ملوث ہونے پر 400 سے زیادہ ملزمان کو سزا دی جاچکی ہے لیکن انصاف کا دروازہ کھٹکھٹانے والوں کی ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ بڑے کانگریس رہنما اس سے بچتے رہے ہیں۔

73 سالہ سجن کمار کو اس سے قبل ایک ذیلی عدالت نے ان الزامات سے بری کر دیا تھا لیکن ملک کے اعلیٰ تفتیشی ادارے نے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ پولیس کے ساتھ مل کر ‘خوفناک حد تک سکھ مخالف سازش میں ملوث تھے‘۔

نرپریت کور کے والد کو ان کی آنکھوں کے سامنے زندہ جلا دیا گیا تھا۔ 34 سال بعد آنے والے اس فیصلے کے بعد وہ رو پڑیں اور عدالت کا شکریہ ادا کیا۔ بہر حال ان کا مقدمہ ابھی بھی عدالت میں زیر سماعت ہے۔

سجن کمار کو دلی کے سلطان پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے عینی شاہدین کے بیانات کے بعد مجرم قرار دیا گیا۔

ایک خاتون نے کہا کہ انھوں نے دیکھا کہ وہ ہجوم کو سکھوں کو مارنے کے لیے کہہ رہے تھے کہ انھوں نے ‘میری ماں کو مارا ہے’ یہاں ماں سے ان کی مراد اندرا گاندھی تھیں۔

https://twitter.com/ArvindKejriwal/status/1074536980858499072

https://twitter.com/OmarAbdullah/status/1074539010184355841

دلی ہائی کورٹ کے جج ایس مرلی دھر اور ونود گوئل نے سجن کمار کو ‘مجرمانہ ساز باز، دشمنی کو بڑھانے اور سماجی ہم آہنگی کے خلاف کام کرنے’ کا مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں 31 دسمبر تک خود کو پولیس کے حوالے کرنے اور شہر نہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔

جج نے کہا: ‘سنہ 1947 کے موسم گرما میں بہت سے لوگ تقسیم ہند کے دوران مارے گئے تھے۔ اس کے 37 سال بعد دلی میں اسی قسم کا سانحہ دیکھا گیا۔۔۔ ملزمان کو سیاسی پشت پناہی حاصل تھی اور وہ سماعت سے بچتے رہے۔’

دلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر بھی اس کی گونج نظر آنے لگی۔ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ۔۔۔ ‘فسادات میں شامل کوئی شخص بھی بچنا نہیں چاہیے خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp