جب تیل نکلا میرے تلوے سے


ٹک کے ایک جگہ بیٹھنا میرے نصیب میں نہیں ہے۔ نصیب کو کیا کوسنا، طبعیت میں ہی نہیں ہے۔ معاش کے ذرائع بھی ہر بار ایسے ہی نکلے کہ بلھے شاہ کی طرح در در پھردیاں والا معاملہ رہا۔ معاش کے ان ذرائع کا صرف ایک فائدہ رہا کہ ازراہ عذر کہہ پاتا ہوں کہ معاشی مجبوری ہے اس لیے جانا پڑا تھا پڑ رہا ہے اور پڑے گا۔ ورنہ معاشی مجبوری نہ ہو تو بھی ابن بطوطہ کے نعلین پاؤں میں ہی رہتے ہیں۔ دربدری ہی کے سبب میرا ہمیشہ سے دعوی رہا ہے کہ میرے تلوے پہ پیدائشی تِل ہے۔ یہ دعوی اس کے باوجود ہے کہ یہ تِل کبھی خود دیکھا اور نہ کبھی کسی اور نے اس کی موجودگی کی تصدیق کی۔ ایک ستم ظریف نے تو محدب عدسے سے دیکھ کر رپورٹ دی کہ تمہارے تلوے میں کھجلیاں تو بہت ہیں تِل ایک بھی نہیں ہے۔

کچھ برس قبل حسنین جمال کی پابند نظم جیسی مقفیٰ و مسجع داڑھی نے بہت متاثر کیا۔ کم اب بھی نہیں ہے مگر اب میر کے مصرعوں جیسی وہ تراش نہیں رہی۔ اب تو یا عبدالحلیم شرر کی آزاد نظم جیسی ہوتی ہے یا اگر وزن میں ہو تو جاوید اختر کی طرح لمبی بحروں میں ہوتی ہے۔ شاید چیخوف کی پیروی سے چھوڑ کر گرو رجنیش اوشو کی اتباع میں آگئے ہیں۔ فریڈرک اینگلزاور سگمنڈ فرائیڈ کی داڑھیوں پر بھی عین یہی ادوار گزرے تھے۔ یعنی بڑے لوگوں کے خیالات ہی نہیں ملتے، داڑھیاں بھی بہت ملتی ہیں۔

حسنین کو دیکھ کر بجا طور پر اندازہ ہوا کہ بال وپر سنوارنے کے اچھے برے سبھی مراکز کا انہیں کو علم ہوگا۔ تقریبا التجا کردی کہ بھائی کوئی ڈھنگ کا بندہ بتادو جو ڈھب کی حجامت ہی کردیا کرے۔ تھک ہار گیا ہوں مگر اسلام آبادمیں کوئی ملا ہی نہیں جو داڑھی مونچھ کے قافیہ ردیف سنوار دے۔ جب بھی ملا کوئی غیر موزوں قینچی گزار ہی ملا۔ حسنین نے اسلام آباد میں رومی سے متعارف کروا دیا۔ ایک دن رومی کی جناب میں پہنچ کر سر تسلیم خم کردیا۔ سر اٹھایا تو اندازہ ہوا کہ اس نے کچھ نہیں کیا، بس گیسوئے برہم کو زلفِ پریشاں میں بدل دیا ہے۔ داڑھی کی بات آئی تو رومی نے اوزار رکھ دیے۔ یہ مجھ سے نہ ہوگا بھیا۔ افضل نامی ایک کڑیل جوان کو کام پر لگا دیا کہ ریش درازوں کی کتربیونت اس کا کام ہے۔

کچھ دن پہلے خبر ہوئی کہ دونوں جوانوں نے مل کر دو گلی پیچھے اپنا سیلون کرلیا ہے۔ کل چھٹی کا مبارک دن تھا، مبارک باد دینے چلاگیا۔ پہنچتے ہی میں نے کہا، میاں اوزار تیز مت کرنا صرف مبارک دینے آیا ہوں۔ پہلے یہ بتاؤ کہ ساونڈ سسٹم ویسا ہی اودھم و شملے ہے؟ افضل بولا، نہیں دادا اس سے بھی مضبوط ہے۔ لاؤ اپنا موبائل کنکٹ کرو ذرا۔ موبائل براستہ بلو ٹوتھ کنیکٹ کیا، بہتی آبشار جیسی فارسی موسیقی لگائی، مولانا طارق جمیل کی حور جیسی میٹھی برفی چکھی، اپنے اعمال جیسی سیاہ کافی پی، درباری قصیدہ خوانوں کی طرح سیلون کے ماحول کو سراہا اور اچھے بچوں کی طرح اجازت چاہی۔ آواز آئی، ایسے کیسے جاسکتے ہو دادا! پیڈی کیور کے لیے سامان ریڈی ہورہا ہے۔ پیڈی کیور اور میں؟ مولا رحم!

پیڈی کیور تسنیم و کوثر میں کیے جانے والے پاؤں کے اشنان کو کہتے ہیں۔ اور اس تجربے سے گزرنے کا مجھے پہلا موقع مل رہا تھا۔ اس تجربے سے گزرنا بھی چاہتا تھا اور فرار کی کوشش بھی بھرپور تھی۔ استخارے میں پڑگیا کہ تسمے کھولوں نہ کھولوں؟ ایک ارادہ آتا ہے کہ دوسرا جاتا ہے۔ گھر کا حمام اور انسان کے پاؤں شخصیت اور طبعیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ خوف دامن گیر تھا کہ پاؤں دکھا کربنی بنائی عزت کا آلو بخارا نہ کروا دوں۔

فرار کی کوئی مناسب راہ ابھی ڈھونڈہی رہا تھا کہ رومی کی آواز نے پاؤں پکڑلیے، دادا جوتے اتاردو۔ یہ حکم کوہ طور پر کبھی حضرت موسی کو ہوا تھا۔ پیڈی کیور پہ مامور نوجوان بولا، چلے بھی آؤ۔ یہ التجا اس سے پہلے فیض احمد فیض نے شاید کراچی کے ٹریفک میں پھنسی محبوبہ سے کی تھی۔ چنانچہ میرا موبائل جو ساونڈ سسٹم کے ساتھ کنکٹ ہوچکا تھا، پہلے مہدی حسن کی غزل ”چراغ طور جلاؤ کہ بہت اندھیرا ہے“ لگائی۔ پھر انہی کی گائی ہوئی ہوئی غزل ”چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے“ لگا دی۔ اور بیٹھ رہے کسی نواب سراج الدولہ کی مانند پاؤں پسارے۔

نوجوان خوشبو کی طرح پاؤں کی پذیرائی میں مگن تھا۔ قدموں کا تزکیہ جاری تھا کہ اچانک سے نوجوان کا انہماک ٹوٹا اور مسکردایا۔ مجھے کچھ ایسی جستجو ہوئی کہ پاؤں پہ ہونے والی گدگداہٹوں کا لطیف احساس ہی مرگیا۔ ظاہر میں نے ہونے نہیں دیا، مگر سوال تو پیدا ہوگئے تھے۔ کیا یہ میرے پاؤں پر تین عشروں سے زائد کا میل دیکھ کر ہنسا؟ کیا اسے میرے پاؤں کا معاملہ مور والا لگا؟ کیا میرے پیر دیکھ کراس کو ”پیر بڑے سرداروں کے“ والا محاورہ یاد آگیا؟ کہیں اس نے نیچے ٹب میں میرے قدموں کے گناہوں کو تیرتا ہوا تو نہیں دیکھ لیا؟ سوچ سوچ کر جب دماغ تھک گیا تو میں نے کہا

سنو
جی!

پوت کے پاؤں مانجھنے میں نظر آگئے کیا؟
نہیں تو!

تو چھالے نظر آگئے کیا؟
یہ محنت کشوں کے پاؤں لگتے تو نہیں ہیں سر!

تو بادہ کشوں کے بھی نہیں لگتے کیا؟
اُن کے تو دل پہ چھالے ہوتے ہیں سر!

دھت تیرے کی۔

جوان باذوق تو لگ ہی رہا تھا اب حساس بھی معلوم ہوا۔ مجھے یقین ہوچلا کہ یہ میرے میلے پیروں پر پردے ڈال رہا ہے۔ ہو نہ ہو پاؤں کا برگ وبار دیکھ کر ہی اس کی بانچھیں کھلی ہیں۔ میں نے خفت مٹانے کی پیشگی کوشش میں کہا، بیٹا یہ کوئے یار کی خاک ہے اس کی قدر کرو۔ ترنت بولا، ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے سر۔ دراصل آپ کے پاؤں پہ تیل نکل آیا ہے۔

تیل؟ جوان نے مشکل اور بڑھادی۔ خیال آیا کہ ہاں میری جِلد آئلی تو ہے۔ اتنی آئلی کہ ایک دوست کہتا ہے کہ اگر تم عراق کے شہر موصل میں ہوتے تو داعش نے تم پر قبضہ کرلیا ہوتا۔ اس حقیقت کے باوجود پاؤں پر تیل والی بات مجھے ہضم نہیں ہورہی تھی۔ فوری ردعمل دینے سے میں نے گریز کیا۔ سوچ میں پڑگیا کہ یہ کہنا کیا چاہ رہا ہے۔ کچھ سمجھ نہ آئی تو پوچھ لیا، یہ بتاؤ کہ یہ تم نے میرے پیروں کا مذاق اڑایا ہے یا پھر یہ کوئی ”مثبت“ خبر تھی؟ ترنت بولا، نہیں سر یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔ نصیبوں والے ہیں آپ نصیبوں والے!

میں نے خود ستائشی قسم کی تائید کرتے ہوئے کہا، ہاں نا! لوگ ہتھیلی پہ جماتے ہیں، میں نے عمر بھر تلوے پہ سرسوں جمایا ہے، بس کبھی ناچنے کا موقع نہیں ملا۔ آج تم رگڑائی کررہے ہو تو نو من نہ سہی کچھ تو نکل ہی رہا ہے۔ ورنہ قحط کے اس دور میں اتنی بھی کہاں میسر ہے مے خانے میں جتنی غالب چھوڑدیا کرتے تھے پیمانے میں۔ نوجوان کے چہرے کے تاثرات واضح طور پر مجھے کہہ رہے تھے کہ میاں لگتے تو بھلے ہو مگر باتیں سنکیوں والی؟ خیر ہمیں کیا، عزت ہماری بچ گئی تھی، سو ہم ٹیک لگا کر پھر سے نواب سراج الدولہ ہوگئے۔

پاؤں کو گدگاتے ہوئے ہاتھوں کی رفتار کم ہوتے ہوتے رک گئی۔ آواز آئی، ہوگیا باس۔ شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم نے کمر سیدھی کی، انگڑائی لی، جوتے میں پاؤں دینے سے پہلے ٹب کا جائزہ لیا۔ تیل تری نہ دکھنے پرجوانِ رعنا کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ جواب میں اس کی بھنویں بھی سوالیہ نشان ہوگئیں تو میں نے پوچھا، تیل کہاں ہے؟

تعجب سے اس نے کہا
تیل؟ کون سا تیل؟ تیل چاہیے آپ کو؟

ابے بھائی ابھی جو تم کہہ رہے تھے کہ پاؤں پہ تیل نکل آیا ہے، کہاں ہے تیل؟
قہقہاتے ہوئے بولا، ارے تیل نہیں نکلا، تِل نکلا ہے سر!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).