رادھا کی تھکن…


ہمارے دوست ڈاکٹر سلمان بھی عجب دلچسپ شخصیت ہیں، تین شادیاں کر چکے، تینوں کسی نہ کسے ضابطے میں نبھا رہے ہیں، موصوف پیشے کے اعتبار سے ماہر امراض قلب ، شخصی اعتبار سے دل پھینک اور موسیقی کے دلدادہ واقع ہوئے ہیں۔ گھنگرو، طبلہ اور ہارمونیم ہم چند دوستوں کے علاوہ ان کی بیٹھک کے مستقل مکین ہیں۔ ہارمونیم کا ایک عدد سیٹ گاڑی کی بیک سیٹ پر بھی رکھتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آوے۔ مریض کا معائنہ کرنے کے بعد پانچ منٹ کی بریک لیتے ہیں، اس بریک میں مریض کی ماہیت قلب کے مطابق حسب حال غزل گنگناتے ہیں اور پھر ‘نیکسٹ’ کی آوازلگاتے ہیں۔ گرے بالوں والے پنتالیس سالہ ڈاکٹر سلمان دل کے تار ہلانے والی آواز اور آنکھیں مست کرنے والے رقص کے دیوانے ہیں۔ آئے روز ایسے نمونے بلاتے ہیں اور پرفارمنس سطحی ہونے کی صورت میں ‘نیکسٹ’ کی آواز لگا نے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں لگاتے۔ لیکن اگر آوازان کی سماعتوں اور پاوں ان کی بیٹھک میں جم جائیں تو پھر یہ اپنا تن من دھن سبھی کچھ کلاکار پر وار دیتے ہیں۔ ایسی ہی محافل میں رادھا متعارف ہوئی۔ لمبی پتلی اور نیلی آنکھوں والی رادھا۔ واجبی سا قد کاٹھ لیکن آواز ایسی کہ پہروں سماعتوں میں رس گھولے۔ محفل ہمیشہ محدود افراد پر مشتمل ہوتی، رات گئےشادی شدہ ذمہ داران چلتے بنتے اور یوں باقی رہ جاتے ہم ، ڈاکٹر سلمان اور رادھا۔

عمل: اقبال حسین

فرصت کے چند لمحات میں وہ رات کے پچھلے پہر جب باریک (لیڈیز) سگریٹ کے دھوئیں سے دائرے بناتے بناتے تھک جاتی تو موسیقار خیام کی دھن میں میر تقی میر کی غزل ” دکھائی دئیے یوں کہ بے خود کیا۔” گنگناتی۔

 ایک شب ہم نے پوچھ ہی لیا؛ تمہیں معلوم ہے کہ یہ غزل کا پہلا شعر نہیں ہے؟

 جی ! معلوم ہے۔ اس نے کہا۔

 اچھا! تو پھر بتاو یہ غزل کس نے گائی ؟ ہم گویا ہوئے۔

 سمیتا پٹیل اور نصیرالدین شاہ کی فلم بازار کے لئے لتا جی نے یہ غزل گائی تھی، اور کچھ؟ کمال اعتماد کیساتھ وہ بولی۔

 ہم چپ سے ہو کر رہ گئے کہ شوخ چنچل لیکن بظاہر عام سی دکھائی دینے والی “رادھا” کو بھلا یہ سب کیسے معلوم ہے۔ اسی سوال کی کھوج نے ہمیں رادھا کے مزید قریب کر دیا۔ یہ لڑکی کون ہے؟ کہاں سے آئی ہے؟ کتنے خوابوں کے عوض مصنوعی زندگی بسر کر رہی ہے؟ اور اس جیسے ان گنت سوالات ہمیں بے چین کئے رکھتے۔

خیر! ایسی محافل میں دوستی قربت میں بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ وہ گنگناتی اور کن اکھیوں کیساتھ ہمیں دیکھ کر گنگناتی۔ ایک شب وہ ڈاکٹر سلمان کی فرمائش پر لتا جی کا گایا ہوا کلاسیک آئٹم نمبر ، ” بِیتی نہ بِتائی رینا۔۔ بِرہا کی جائی رینا۔۔ بھیگی ہوئی اکھیوں نے۔۔ لاکھ بجھائی رینا۔۔” گا رہی تھی اور مسلسل گا رہی تھی۔ پتلی لمبی اکھیوں میں سے کب موٹے موٹے آنسو گرنا شروع ہوئے ہمیں خبر نہ ہوئی۔ احساس ہوا تو فوراً ڈاکٹر کی جانب دیکھا جو ناجانے کب سے گہری نیند سو چکا تھا۔ اس کے آنسو مگر نہ تھمے۔ سیاہ اور سرمئی لباس میں ملبوس “رادھا” کے اکھیوں کا کاجل اب کوہ سلیمان پر ہوئی بارش کے نتیجے میں بننے والی رودکوہی کی مانند نیم سانولی گالوں پر سے بہہ رہا تھا۔ رودکوہییوں میں برپا طوفان بپھر رہا تھا ۔ بند باندھنے کی سعی لا حاصل معلوم ہو رہی تھی۔ اٹھنے کی ہمت کئی بار کی لیکن طوفان کی گھن گرج نے قدم روک لئے۔ کوہ سلیمان کی مٹیالی پہاڑیاں پہلو میں کب آن بسیں اس کا احساس اس وقت ہوا جب وہ حسب معمول باریک سگریٹ کے دھوئیں سے دائرے بناتی بناتی میر گنگنانے لگی۔

ہمت باندھتے ہوئے ہم نے کہا: دل ہلکا کر لو! من میں دبا بوجھ شئیر کر دیکھو کہ ہمارے پاس تمہارے لئے فی الحال یہی سیوا دستیاب ہے۔ اگر اس کے بدلے میں کچھ اور مانگوں تو ؟ اس نے استفسار کیا۔ ہم چونک گئے۔ ہمارے چہرے پر بدلتے تاثرات کو بھانپتے ہی اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ، ارے نہیں! آپ کیلئے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ بس ایک معمولی سی فرمائش ہے۔ چِنتا کی کوئی بات نہیں۔ دھیرج رہیں۔ خشک ہوتا گلا صاف کرتے ہوئے ہم نے پاس رکھا بیضوی گلاس اٹھایا ۔ دو گھونٹ اندر اتارے اور غیر محسوس انداز میں دو چار لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے آکسیجن لیول بہتر کیا۔ ہاں کہو! ہم کیا سیوا کر سکتے ہیں؟

آپ کو توعلم ہی ہے کہ بینا آنٹی مسلسل ایک جگہ مجھے نہیں بھیجتیں۔ ان کے ہاں کام کاج کے اپنے طور طریقے اور احتیاطیں ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ مسلسل ایک جگہ جانے سے لڑکی پھسل جانے کے خدشات ہوتے ہیں ۔ جب سے چھوٹے شہروں سے آئے امیرزادوں نے پوش علاقوں میں کوٹھیاں کرائے پر لینا شروع کی ہیں تب سے بینا آنٹی کا کام دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ہفتہ وار چھٹی بھی بند ہو گئی ہے۔ ایک ایک لڑکی کو رات میں دو و و شفٹیں کرنا پڑتی ہیں۔ کام کاج ڈبل ہو گیا ہے۔ اب یہاں آپ کے ہاں مسلسل آنا جانا مشکل ہو رہا ہے۔ ہاں یہ تو ہے۔ پھر کیا کیا جائے؟ ہم نے پوچھا ۔ اس نے سیاہ اور سلور پٹیوں والے دوپٹے سے آنکھوں میں پھیلا اور گالوں پر جما کاجل صاف کیا، ہمارے قریب ہو ئی، سگریٹ بجھائی اور انتہائی معصومانہ انداز میں کہنے لگی۔ کیا آپ مجھے یہاں اپنے ہاں نوکری پر رکھ سکتے ہیں؟ اسی ڈیرے پر؟ ہم سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ کیا مطلب تمہارا؟ تم یہاں کیا کام کروگی بھلا؟ ہم نے پوچھا۔ میں یہاں کچھ خاص نہیں، صفائی ستھرائی اور کچن سنبھال سکتی ہوں۔ پروین اور اختر کی جگہ ایک مجھے رکھ لیں سبھی کام سنبھال لوں گی۔ یقین جانیں آپ کو بہت فائدہ ہو گا۔ وہ بولی۔ لیکن اس سے تمہیں کیا فائدہ ہوگا۔۔؟ مجھے؟ سوالیہ انداز میں اس نے پوچھا۔ ہاں تمہیں۔۔! کیا فائدہ ہو گا تمہیں؟ ہم نے دوبارہ استفسار کیا۔ سر جھکاتے ہوئے دوپٹے کو گرہیں لگاتی رادھا بولی۔ یہاں صرف ڈاکٹر سلمان اور آپ کا قیام رہتا ہے، میرا “کام کاج ” کم ہو جائے گا ۔

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami