’پاکستان میں فوجی آپریشنز سے بھی شہد کی مکھیوں کو نقصان پہنچا‘


شہد

شہد کی مکھیوں کے اپنے اپنے مزاج اور رویے ہوتے ہیں۔ یہ غصہ بھی کرتی ہیں اور بے وفائی بھی!

پاکستان میں مقامی سطح پر پائی جانے والی دیسی مکھیوں میں بھی یہ رویے سامنے آئے ہیں مگر ان متلون مزاج مکھیوں کی کچھ نسلوں کے معدوم ہونے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

آپ کو شاید حیرانگی ہوگی کہ مکھیاں غصہ کیسے کرتی ہیں اور بے وفائی ان میں کیسے پائی جاتی ہے۔ اس بارے میں شہد کی مکھیوں پر تحقیق کرنے والے پروفیسر حسین علی نے بتایا کہ مقامی مکھیوں کو اگر کوئی بات ناگوار گزرے تو غصہ کرتی ہیں، کوئی جگہ پسند نہ آئے تو یہ اس علاقے سے دوسرے کسی مقام پر چلی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

قدرتی آفات سے شہد کی پیداوار متاثر

شہد کی مکھیوں کا کرکٹ گراؤنڈ پر قبضہ

مکھی غصے میں آ جائے تو اس کے کاٹنے کے امکان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

حسین علی بتاتے ہیں کہ مقامی دیسی مکھی جیسے ایپس سرانا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قدرتی ماحول میں رہنے والی مکھی ہے، یہ چھوٹے سائز کی مکھی ہے اور یہ غصے کی تیز ہوتی ہے۔ اسی طرح بڑی پہاڑی مکھی کا اپنا مزاج ہوتا ہے اور ان دونوں مکھیوں کو ڈبوں میں مگس بانی کے لیے پالا نہیں جا سکتا۔

ماہرین کے مطابق اس مکھی کو اب چین بھیج کر اس پر تحقیق کی جائے گی کہ اس میں غصے کی علامات کیوں پیدا ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ اس میں بے وفائی یا فرار حاصل کرنے کی حس پر بھی توجہ دی جائے گی۔

پروفیسر حسین علی کے مطابق اس وقت مگس بانی کے لیے یورپی نسل کی مکھی پالی جاتی ہے جو وفادار ہوتی ہے، غصہ نہیں کرتی اور سال میں چار مرتبہ شہد بنا سکتی ہیں۔ اس مکھی کو ایپس ملفرا کہا جاتا ہے۔

پشاور کے ترناب ریسرچ فارم میں موجود محمد شکیل ان دنوں ان مکھیوں کے رویوں اور ان کی ساخت پر تحقیق کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ شہد کی مکھیوں کی ساخت پر تحقیق سے دلچسپ معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔

’فوجی آپریشنز سے مکھیوں کی تعداد میں کمی ہوئی‘

ڈاکٹر حسین علی کے مطابق پاکستان میں فوجی آپریشنز کے دوران بارود کے استعمال، فصلوں پر کیمیکلز کا سپرے، درختوں کی کٹائی اور موسمیاتی تغیرات سے اب شہد کی دو مقامی یا دیسی نسلوں کو شدید خطرات لاحق ہیں جس سے ان کی تعداد میں بڑی حد تک کمی واقع ہو رہی ہے۔

اس وقت پاکستان میں کل چار قسم کی شہد کی مکھیاں ہیں جن میں تین مقامی اقسام بتائی جاتی ہیں جبکہ ایک قسم یورپی مکھی کہلاتی ہے جو اکثر مگس بانی کے لیے پالی جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ مکھیاں گھروں میں دیکھی جاتی تھیں اور اکثر گھروں، گلیوں یا پارکس میں یہ شہد کے چھتے بناتی تھیں مگر اب یہ کم ہی نظر آتی ہیں۔

پروفیسر حسین علی نے بی بی سی کو بتایا کہ تین دیسی اقسام کے نام ایپس داڑسیٹا، ڈومنا، سارانا اور چوتھی قسم جو کہ یورپی ہے، کو ایپس ملفرا کہتے ہیں۔ ان میں سے دو دیسی نسل کی مکھیوں کو پالا جا سکتا ہے۔

پروفیسر حسین علی کا کہنا ہے کہ سوات آپریشن کے دوران جب اس علاقے میں بمباری کی گئی تو شہد کی مکھیوں کے علاوہ دیگر حشرات جو فصلوں کے لیے بہتر ہوتے ہیں، وہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے اور پھر تین برسوں کے بعد واپس آئے تھے۔

اسی طرح شہد کے کاروبار سے واستہ افراد کا کہنا ہے کہ باجوڑ ایجنسی سے لے کر جنوبی وزیرستان اور اس کے ساتھ واقع خیبر پختونخوا کے شہروں میں دیسی مکھیوں کی تعداد انتہائی کم ہو گئی ہے۔

سید گل بادشاہ پشاور میں قائم شہد کی ایک بڑی مارکیٹ میں کاروبار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پھول دار پودے اب نہیں رہے اور مکھیاں نجانے کہاں غائب ہو گئی ہیں؟ ان کے مطابق درختوں کی کٹائی کی وجہ سے بیری کے درخت اب بہت کم ہیں اور دنیا بھر میں بیری کے شہد کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اگر سرپرستی کرے تو وہ شہد کے کاروبار سے بھاری زرمبادلہ حاصل کر سکتے ہیں۔

شہد

پاکستان میں شہر کا کاروبار

تاجروں کے مطابق 1980 تک پاکستان شہد درآمد کرتا تھا لیکن افغان پناہ گزینوں کے آنے کے بعد اقوام متحدہ کے ادارے نے ان پناہ گزینوں کو مگس بانی کی تربیت دی اور ہر خاندان کو چار چار ڈبے دیے اور اس کے بعد 1990 میں پاکستان شہد برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا تھا۔ سید گل بادشاہ نے بتایا کہ سال 2000 کے بعد جب آپریشنز ہوئے اور جنگلات کی کٹائی شروع ہوئی تو شہد کی پیداوار کم ہوگئی۔

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے مگس بانی سے منسلک تاجر شیر زمان مہمند نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ 7000 ٹن شہد برآمد کرتے تھے اور اس سے بھاری زرمبادلہ حاصل ہوتا تھا لیکن اب یہ مقدار کم ہو کر 3000 ٹن تک پہنچ گئی ہے۔

ماہرین اور تاجروں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سرسبز پاکستان اور سونامی ٹری منصوبے میں ایسے پودے اور درخت لائے جائیں جن پر پھول زیادہ وقت تک رہیں کیوں کہ پودے اور درختوں سے شہد کی مکھی بہتر شہد بنانے کے قابل ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32466 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp