نظریہ ضرورت


”ڈیئر سٹوڈنٹس سقوطِ ڈھاکہ 1971 ء میں بظاہر ہوا لیکن تاریخ پر طائرانہ نگاہ رکھنے والے اس کی جڑیں اور شاخسانے بہت دور تلاش کرتے ہیں۔ وہاں کہ جہاں بظاہر کوئی گمان بھی نہیں گزرتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”سر! یہ طائرانہ نگاہ کیا ہے؟ “
”بیٹا جیسے پرندہ بہت آگے تک دیکھ سکتا ہے چونکہ وہ بلندی پر اُڑتا ہے یونہی جو شخص بہت آگے تک دیکھ سکے، سوچ سکے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کی جڑیں بھی بہت گہری ہوں۔ مثلاً جو درخت بہت پھیلا ہوا بہت بلند ہو وہ زمین میں بھی اتنا ہی گہرا ہو۔ جیسے کوئی پیڑ، پیڑ عام درخت نہیں ہوتا بلکہ قدیم درخت کو کہتے ہیں جو اندر باہر پھیلا ہوتا ہے۔ تو اس کا مطلب بہت عمیق، گہری اور بھرپور نظر رکھنا کسی بھی شے پر، نقطہ پر، کسی بھی بات پر۔
تھینک یو سر۔

”سر! یہ تو سارا تسلسل ہی توڑ دیتا ہے۔ آپ اتنی اچھی تاریخ پڑھا رہے ہوتے ہیں، کہانی کی طرح ورنہ تو مطالعہ تاریخ سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ “
”کوئی بات نہیں بیٹا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پوچھنا آدھا علم ہے۔ “ (مسکراتے ہوئے ) ۔
(ساری جماعت میں پھر خاموشی چھا گئی اور سب کی دونوں آنکھیں، دونوں کان پھر متوجہ ہوگئے ) ۔
”سقوطِ ڈھاکہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہماری تاریخ کا وہ المیہ ہے کہ جس میں شاید ہر ہر فرد شامل ہے، ہر ہر فرد قصوروار ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1947 ء سے قبل اور بعد میں بہت ہی زیادہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”فراز صاحب آپ کو پرنسپل صاحب بلا رہے ہیں۔ “

”اچھا! ان سے کہو کہ کلاس کے بعد آتا ہوں۔ “
”صاحب انہوں نے کہا ہے کہ فوری طور پر بلا کر لاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحب ملازم بندہ ہوں، نوکر کی تے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”اچھا چلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! میں آرہا ہوں (غصے میں ) ۔ “
”ڈئیر سٹوڈنٹس، یہیں سے شروع کرتے ہیں بس میں ابھی آرہا ہوں۔ “
کمرہ جماعت کا سناٹا بھنبھناہٹ میں بدل گیا۔
٭٭٭

”سر! آسکتا ہوں؟ “
”جی ضرور تشریف رکھیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “ (اکھڑے لہجے میں )
”آپ نے بلایا تھا سر؟ “

”جی ہاں! میں نے ہی یہ گستاخی کی ہے مسٹر فراز حسین، آپ کو پہلے بھی وارن کر چکا ہوں لیکن آپ بدستور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس اس کا آخری حل بھی ہے جو آپ باخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ “
”سر! لیکن یہ حقیقت ہے ان بچوں نے کل کو اس ملک، اس قوم کو لے کر آگے چلنا ہے۔ انہیں اصل تاریخ و حقائق کا علم ہونا چاہیے ورنہ ان کے قدم بھی گمراہ ہو سکتے ہیں۔ “
”یہ ناپختہ ذہن ہیں مسٹر فراز! اور ضرورت ہی کیا ہے اس سب کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! تاریخ جب خود سیاہ پردوں کے پیچھے ہے تو اس سے چھیڑ چھاڑ کیوں کرتے ہیں؟ “

”سر! اگر یہ ذہن اس تاریخِ پردہ پوش سے ہی پختہ ہو گئے تو مستقبل کا لائحہ عمل بھی غلط ہو سکتا ہے اور ان پردوں کا اٹھانا ہم سب کا فرض ہے۔ میں صرف اپنا فرض پورا کر رہا ہوں۔ “
”یہ آپ کا کام نہیں۔ جو کچھ آپ بچوں کو بتاتے ہیں وہ گھر جا کر اسے discuss کرتے ہیں اور مجھے مسلسل شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ آپ اکسانے والی تعلیم دے رہے ہیں۔ “
”سر پلیز! میں سچائی پہ منہ بند تو نہیں کر سکتا۔ چھپا تو نہیں سکتا۔ معذرت کے ساتھ منہ اگر کالا ہو تو برقع اس کو ہمیشہ کے لئے تو چھپا نہیں سکتا۔ کفن میں سب عیاں ہو جاتا ہے۔ “

”مسٹر فراز آپ حد سے بڑھ رہے ہیں۔ میں اس ادارے کا انچارج ہوں، مجھے اداراہ چلانا ہے۔ جن کو چلانے کے لئے یہی سیاہ و سفید حکومتیں مجھے مالی امداد بھی دیتی ہیں اور ان کے بچے بھی یہاں پڑھتے ہیں۔ سمجھے آپ اور یہ آپ کو آخری مرتبہ بتا رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
”سر! اطلاع دینے کا شکریہ“ (وہ غصے میں اُٹھ کر باہر چلا گیا۔ کلاس کا وقت ختم ہو چکا تھا)
٭٭٭

”ہیلو ہیلو! جی کیسے ہیں آپ؟ کیسے یاد کیا، آج تو میرا پروگرام نہیں ہے۔ “
”شجاع! آج شام کو بورڈ کی میٹنگ ہے چار بجے پہنچ جائیے گا۔ “
”پہنچ جاؤں گا۔ اللہ حافظ“ (حیرت سے ) ۔
(اس کو سمجھ نہیں آیا کہ کیوں بلایاجا رہا ہے ) شاید کچھ نیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! بہرکیف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !

(شام کو سب کمیٹی روم میں جمع تھے رسمی گفتگو ختم ہو چکی تھی)
”شجاع! آپ نے اس ہفتے لائیو پروگرام میں کچھ جملے کہے جو ہماری پالیسی کے خلاف ہیں۔ مثلاً وہ جملے! وہی جملے جو آپ نے جمہوریت کے خلاف کہے ہیں۔ دیکھئے شجاع! یہ قوم سمجھ بوجھ نہیں رکھتی، سنی سنائی کو رنگنے کی ماہر ہے۔ دوسرے ہم جمہوریت کے علم بردار ہیں۔ ہمارا جہاد صرف کالے دور کے خلاف ہے۔ جمہوریت کسی قسم کی بھی ہو۔ اس کے خلاف آپ کم از کم ہمارے چینل پہ کوئی جملہ نہیں بول سکتے۔ یہ آپ کو بتا دیا گیا تھا۔ “

”آپ کی بات ختم ہو تو میں کچھ عرض کروں۔ “
”جی فرمائیے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
”وہ جملے جمہوریت کے خلاف نہیں تھے محض کچھ ایسے اشارے تھے جو جمہوری منشور کے خلاف ہیں اور ان کو Point out کرنا صحافتی ذمہ داری ہے۔ ورنہ جمہوری تاریخ اور کالی تاریخ کا فرق مٹ جائے گا اور مستقبل ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ “

”آپ کا موقف بجا ہے۔ درست ہے شجاع! لیکن پھر بھی ہم اس غلط جمہوری منشور کے نقاط کو بھی پوائنٹ آؤٹ نہیں کر سکتے۔ ’جمہوریت جیسی ہے‘ کہ بنیاد پر ہی ہمیں کام کرنا ہے۔ کیونکہ جمہوریت زندگی کی طرح تجربہ مانگتی ہے۔ جب ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے ہر جمہوری دور کا سانس اس کے لڑکپن میں ہی روک دیا۔ اس کو جوانی کی غلطیاں کرنے کا بھرپور موقع ملا ہی نہیں کہ جس کے بعد وہ باشعور و پختہ ہوتی۔ ابھی بھی ہماری جمہوری تاریخ کی جڑیں زمین میں کچی ہیں۔ ابھی اسے توجہ کی ضرورت ہے۔ “

”آپ کی دلیل سر آنکھوں پر لیکن بچے کو پروان چڑھتے، اس کی رہنمائی نہ کی جائے تو وہ خود روبیلوں کی طرح خود راستہ بنانا شروع کر دیتا ہے۔ جو کم از کم جمہوریت کے لئے اس کڑے وقت میں خطرناک نتائج لا سکتا ہے اور میرے پیش نظر محض یہی نتائج ہیں، یوں بھی اگر میں جمہوریت کا علم بردار نہ ہوتا تو اور بھی جگہیں میری منتظر تھیں آپ کے منشور کی وجہ سے آپ کا ٹی وی چینل میرا انتخاب تھا۔ مگر میری نیت میں کوئی فتور نہیں ہے۔ جمہوریت کے خلاف نہ ہی کبھی میں نے کسی پروگرام میں شخصیت پرستی کا رنگ دیا ہے۔ جس کے آپ سب گواہ ہیں۔ “

”شجاع! ہمیں آپ پر اعتبار ہے۔ آپ نے بُرے وقتوں میں ہمارے چینل کا ساتھ دیا ہے کالے دور کے کالے قانون کو فیس کیا ہے۔ آپ کی بدنیتی کا تو شائبہ بھی نہیں پھر بھی آپ کوشش کیجئے کہ اس طرح کے جملے یا اشارے گفتگو کا حصہ نہ ہی بنیں تو بہتر ہے۔ بے لاگ تبصرہ کیجئے مگر صرف جمہوریت جیسی ہے کے جھنڈے تلے۔ “
”مطلب آپ کے کہنے کا یہی سمجھا جائے کہ بھلے اس سے ملک و قوم کے نقصان کا اندیشہ ہو۔ “
”دیکھئے! یہ تبدیلی آپ اکیلے نہیں لا سکتے۔ “

”مان لیتا ہوں سر! مگر میں اکیلا شعور کی چند شمعیں تو روشن کر ہی سکتا ہوں۔ میرا مقصد تبدیلی لانا بھی نہیں میرا مقصد صرف وطن کی سلامتی، ملک کا امن اور عوام کی خوشحالی ہے اور بس! “
”امید ہے شجاع ہم اپنے ادارے میں آپ کی seniority کا لحاظ رکھتے ہیں تو آپ ہمارے منشور کا رکھیں گے۔ “
(اس جملے کے بعد رسمی اختتامیہ ہوا اور سب میس روم میں چائے کے لئے چلے گئے بظاہر کوئی تلخی نہ ہوئی مگر کچھ دلوں کی حسرتیں ناچیں تو کچھ کی مسوس ہوئیں )
٭٭٭

(کچھ دن بعد پرنسپل صاحب نے سینئر اساتذہ کی میٹنگ بلائی)
”مجھے کچھ ضروری فیصلے لینے تھے۔ اس لئے سوچا کہ اپنے سینئر و تجربہ کار سٹاف سے کچھ مشورہ و تجاویز و تبادلہ خیال بہتر رہے گا۔ “ (سب نے مسکرا کر دل میں کہا کہ درست، کہیے )
”فائنل امتحانات میں تین ماہ رہ گئے ہیں۔ آپ سب کا سلیبس کہاں تک پہنچا؟ سر تقریباً مکمل ہونے والا ہے اس کے بعد Revision کروا دیں گے۔ “
”Good اور نئے Teachers کی کیا رپورٹ ہے؟ “

”سر! سب ہی روانی میں ہیں لیکن سرفراز ذرا سست ہیں۔ چونکہ آپ کے تو شاید علم میں بھی ہو کہ وہ غیر ضروری تفاصیل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ “
”مجھے بھی Reports ملتی رہتی ہیں۔ بہرحال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ کریں گے۔ “
”سر! چھوڑیں جی کیا کرنا ہے۔ وہ کالم لکھنے والا بلاوجہ ہی جوانی کا خون اُبلتا رہتا اس کا، کسی دن کوئی گولی اسے خود ہی آلگے گی جو کچھ وہ لکھ رہا ہے یا پھر کسی جیل کوٹھری میں ڈال دیا جائے گا۔ “
(ایک کونے کی کرسی سے جُلسی آواز آئی)
”لیکن یہ بھی ہے کہ اچھے اداروں میں اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نامور استاد نہ رکھے جائیں تو بھی والدین کو شکایت ہوتی ہے۔ بڑے اداروں کی مجبوریاں بھی بڑی ہوتی ہیں لیکن میں سوچ رہا ہوں ان سے کہوں اسی مہینے سارا کورس ختم کروا دیں تاکہ اگلے ماہ سے Revision ہو سکے۔ “
”سر! نکال باہر کریں اسے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کروا لیں گے۔ “
”صبر صبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! ہر کام وقت پر اچھا لگتا ہے ابھی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ “
٭٭٭

”آج کل تو کوئی پروگرام کرنے کو ہی تیار نہیں۔ ذرا سا کوئی لفظ نکلا اور پولیس حاضر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت مسئلہ ہو رہا ہے۔ گنتی کے چند لڑکے ہیں جو پروگرام آن ایئر کر رہے ہیں۔ بہت سے پروگرامز تو Rj کے بغیر Back to Back Music پہ چل رہے ہیں۔ “
”میم! میری نظر میں ایک لڑکا ہے۔ میرے خیال میں اس میں Capability ہے، پروگرام کر سکتا ہے۔ انقلابی شاعر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نڈر ہے، جانتا ہے کہ رقص زنجیر پہن کر کیسے کیا جاتا ہے آپ کہیں تو بات کروں اس سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”Really بات کیا کرنی ہے کل بُلا لاؤ اسے۔ “
”میم! ان سے ملئے یہ ہیں نوید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جن کا میں نے کل آپ سے تذکرہ کیا تھا۔ “
”تشریف رکھیے، تشریف رکھیے (تپاک سے ) اِنہوں نے تو آپ کی تعریف کے ایسے پل باندھے کہ ہم مجبور ہو گئے آپ سے ملنے پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “

”Thank You یہ تو ان کی اپنی بڑائی ہے۔ ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “ (اس کی آواز پُرعزم و جاندار، مردانہ وجاہت سے بھرپور تھی) ”نہیں مسٹر نوید، ایسی بھی بات نہیں، انسان کی آدھی کہانی تو اس کا چہرہ بتا دیتا ہے اور باقی کی آدھی زبان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آدھی تو ہم پڑھ چکے اور باقی کی آدھی ابھی چائے کے دوران پڑھی جائے گی۔ “ میز پر لگے ایک بٹن کو دباتے ہوئے۔
(ایک لڑکا کمرے میں داخل ہوا) ”تین کپ چائے لے آؤ۔ “
”جی اچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
”کبھی ریڈیو کے لئے کوئی کام کیا؟ “
”نہیں، بالکل بھی نہیں! “
”اب اگر موقع ملے تو کریں گے۔ “
”کوشش کر لوں گا، دعویٰ تو نہیں کر سکتا لیکن کس نوعیت کا پروگرام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ “

”ہاں یہ اچھا سوال ہے؟ نوعیت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! آپ جانتے ہیں ملک جن حالات سے دوچار ہے۔ بس کوشش کیجئے گا کہ ذرا لائٹ سٹائل میں ان حالات پر گہری نظر رہے تاکہ ہم سب بھی مل کر اس ملکی خدمت میں اپنا حصہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
(اس جملے نے اس کے اندر لگی آگ پر تیل کا کام کیا)
”سمجھ گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیم سیاسی، نیم روحانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “

”دیکھا جناب ہم نہ کہتے تھے کہ آدھی کہانی ابھی چائے کے دوران پڑھ لیں گے۔ یہ تو چائے سے قبل ہی پڑھی گئی۔ “
”آپ میں وہ جوہر موجود ہیں جس کی ہمیں تلاش تھی بس Done اس ہفتے۔ آپ کا پہلا پروگرام on air ہوگا۔ آپ اتوار کو دس بجے تک آجائیے گا۔ کچھ ٹیکنیکل ضروریات کے پیش نظر جو آپ کو سمجھانے کے بعد اس رات سے آپ کا پروگرام شروع کر دیں گے۔ “
(چائے آچکی تھی بسکٹ میز پر رکھے جا چکے تھے اور سب کے ہاتھوں میں چائے کے مگ حدتِ مسرت کو بڑھا رہے تھے )
”یار اسلم میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا“ (باہر نکل کر)
”چھوڑ یار موقع بار بار ہاتھ نہیں آتا۔ بس خود کو ثابت کر دینا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
”انشاء اللہ! “

(فیضؔ، فرازؔ، جالبؔ اورنجانے کس کس نے مل کر اس کے پروگرام کو جیل کی وہ سیاہ کوٹھری بنا دیاکہ ایک دن پولیس اس کو لینے ریڈیو اسٹیشن کے باہر کھڑی تھی)
”مسٹر نوید آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہو گا! یہ سرکاری آرڈر ہیں۔ “

”جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی کیا مطلب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ “
”ہم مجبور ہیں نوید صاحب! ورنہ ہم آپ کے بڑے پرانے اور پکے فین ہیں۔ رات کی ڈیوٹی میں آپ کے پروگرام ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ جس purpose کے لئے آپ کام کر رہے ہیں۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں مگر یہ وردی ہمارے دل کی، ہمارے جذبات کی ترجمان نہیں۔ ہماری مجبوری ہے۔ “
(یہ کہتے ہوئے اس کی آواز جذباتی، نرمی و مجبوری سے مسوس چکی تھی)

”نوید صاحب! آپ اپنی گاڑی میں بیٹھیں اور گھر جائیں۔ “ (ایک دوسری باوردی و پُرعزم آواز آئی)
”دیکھا جائے گا۔ “ (ایک اور آواز)
”سرکاری آرڈر ہیں سر! “

”ہم کہہ دیں گے وہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی نکل چکے تھے۔ ویسے بھی ہماری پولیس تو ہے ہی بدنام کہ وقوعہ ہونے کے بعد پہنچتی ہے تو یہ وقوعہ بھی ہو جانے دو۔ “
(اور انہوں نے نوید کو روانہ کر دیا اس طرح آخرکار پوری قوم نے مل کر اس کالے راج کاخاتمہ کر دیا۔ اب تک وہ پروگرام کو Wench Beauty دے چکا تھا۔ انتخابات ہو گئے ریڈیو کی نئی پالیسی بھی بنی اور ایک سال بعد)

”مسٹر نوید! آج آپ پروگرام کے لئے Kindly تشریف نہ لائیے گا۔ تفصیل کل بتا دی جائے گی۔ چار بجے شام دفتر آجائیے گا۔ “ (فون پر ایک نئی زنانہ آواز تھی) ۔
(وہ کئی دن تک چار بجے دفتر نہ گیا پھر ایک دن وہ کرچی کرچی، مَن مَن کے قدم اٹھائے دفتر میں داخل ہوا)
”تشریف رکھیے پلیز“ (ایک نئی عورت اسی پرانی کرسی پر بیٹھی تھی)
”ہم معذرت چاہتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
”لیکن کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ کوئی وجہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ “

”آپ نے اپنے 2 nd last پروگرام جو کہ فرمائشی گانوں کا تھا۔ اس کے درمیان رات تین بجے وہ گانا لگا دیا“ وطن کی مٹی گواہ رہنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آپ کو معلوم ہونا چاہیے National Songs اس طرح، ایسے حالات میں Play نہیں کیے جا سکتے اور خصوصاً اس دن جو ہماری تاریخ کا ایسا دن تھا جب وطن کی مٹی اپنی طاقت کی گواہی دے چکی تھی۔ لہٰذا پلیز ہم معذرت چاہتے ہیں۔ ہمیں بھی اوپر سے آرڈر ہیں، ہم مجبور ہیں۔ مس خوشبو تو کہہ رہی تھیں کہ وہ شاید آپ کو face بھی نہ کر سکیں۔ انہوں نے ہی تو اس پروگرام کا آغاز کروایا تھا۔ “ (اور اس نے ایک لفافہ آگے بڑھا دیا) ۔
(وہ باہر نکلا تو اس کی زبان پر ایک مصرعہ راستہ بنا رہا تھا)
They۔ No۔ Move۔ Need۔ Me۔ ! (طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ)
٭٭٭

”مطلب یہ ہوا کہ وہ آج مجھے اس لئے اسی انداز میں Warn کر رہے تھے کہ انہیں میری ضرورت ہے۔ مزید ضرورت ہے۔ صرف اپنے چینل کے لئے Mean They move need me۔ But No۔ No move۔ اب تو میں اپنے وطن، اپنی سرزمین، اپنے دین کے لئے واضح طورپر جو چاہوں گا کہوں گا، تاکہ وہ جو کہنا چاہ رہے تھے کہہ ہی دیں۔ ان کے پاس آخری حربہ، ایک جملہ“ اوپر سے آرڈر ہیں ”چاہے آرڈر ہوں یا نہ ہوں مگر یہ اوپر والے کے نام کا جھنڈا جو نظریہ ضرورت کے عین مطابق استعمال کر ہی سکتے ہیں تو کیا ہوا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! یہ تو وہ لوگ ہیں جو نظریہ ضرورت کے تحت اس سے بھی اوپر والے کا کلام استعمال کر لیتے ہیں۔ سو کیجئے اب! ضرور کیجئے، شوق سے کیجئے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ حاسد کھل کر ناچیں اور حامی کھل کر نعرے لگا سکیں۔ دکھ سنا سکیں، اب میں یہ سب کروں گا۔ “
(شجاع گھر جاتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کرتے یہ سب سوچ رہا تھا، غصہ سے سرخ ہوئے جارہا تھا اور اس نے اگلے پروگرام میں اپنی باتوں سے آگ لگا دی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی اور پروگرام کرتا اس کو بلا کر کہہ دیا گیا)
”Sorry مسٹر شجاع! ہم مجبور ہیں“، ”ہمیں اوپر سے آرڈر ہیں“۔ ”Sorry again! “
(شجاع فاتحانہ مسکراہٹ سجائے کمرے سے باہر نکل گیا)
٭٭٭

(ایک ماہ میں فراز نے سلیبس ختم کروا دیا۔ انہی دنوں کچھ شہریوں اور با اثر افراد نے اس کے خلاف F۔ I۔ R درج کروا دی کہ اس کے کالم جمہوری سالمیت کے لیے خطرہ ہیں اور عوامی ذہن کو اُکسا رہے ہیں۔ کیس عدالت میں چلا گیا، وکیل صفائی کے لئے فراز کے دوست نے کہا)
”تمہارا مقدمہ میں لڑوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
”نہیں میں اپنا مقدمہ خود لڑوں گا۔ “
”کیا دلیل ہے تمہارے پاس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کیا یقین ہے کہ مقدمہ جیت لو گے۔ “

”جیت کا تو نہیں کہہ سکتا۔ مگر میں نے ان عدالتوں کی بحالی کی جنگ لڑی ہے، اپنے قلم سے، لہٰذا مجھے یقین ہے کہ انصاف ہو گا، اور شاید یہی جمہوری سالمیت کا خطرہ گردانا جا رہا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دلیل۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”دیکھو دلیل سے کام نہیں چلے گا صرف، تم نے تو قلم سے جنگ لڑی ہے۔ ہم نے سڑکوں پر لڑی ہے اور اب بھی ایک سرد جنگ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
”پلیز کوئی مایوسی کی بات نہ کرنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! “
”اچھا نہیں کرتا تم اپنی دلیل تو بتاؤ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “

”پہلی دلیل تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا خطبہ خلافت ہے۔ جو رہتی دنیا تک کم از کم مسلم دنیا کے لئے تو ایک حکومتی پالیسی و منشور کی حیثیت رکھتا ہے۔ “ اگر میں اچھا کروں تو تم میری مدد کرو اور اگر میں بُرا کروں تو مجھ کو سیدھا کر دو۔ ”
”مگر مائی ڈئیر یہ مقدمہ شرعی عدالت میں نہیں لڑا جائے گا۔ “
یار عدالت کوئی بھی ہو ان کا یہ جمہوری موقف کسی تاریخ میں رَد نہیں ہوا اور دوسری دلیل بھی اس خطبے کے آخر میں ہے۔
”اور جب میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کروں تم پر میری کوئی اطاعت فرض نہیں ہے۔ “

یہ دونوں دلیلیں تو میرے پیش نظر بھی ہیں مگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔
”اور اور تیسری دلیل جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو انہوں نے ایک دن منبر پر کھڑے ہو کر کہا کہ“ اگر میں غلط کام کروں تو کیا کرو گے؟ ایک بدو نے اٹھ کر کہا تمہارا سر تلوار سے قلم کر دیا جائے گا۔ آپ نے فرمایا! خدا کا شکر ہے کہ ابھی اس امت میں ایسے لوگ ہیں جو برائی کو ختم کر سکیں گے۔ ”
”بس بس یار ایک تو تم جذبات سے زیادہ اور حواس سے کم کام لیتے ہو۔ دوسرے جو بھی ہو یہ مقدمہ میں ہی لڑوں گا۔ فکر نہ کر تیرے سے فیس نہیں لوں گا۔ “
”اچھا یار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو خوش ہو جا۔ “ (بے دلی سے ذرا دھیمے لہجے میں کہنے لگا)

(مقدمہ لڑا گیا فیصلہ فراز کے حق میں ہوا۔ کچھ دن بعد ادارے کی انتظامیہ کے ایک پینل نے فراز کو بلا کر بتایا چونکہ وہ عدالتی کارروائی سے گزرا ہے۔ لہٰذا اب اس ادارے میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی ان کی زبان سے پورا جملہ ادا نہ ہوا تھا۔ فراز جرنیلی طور پر کھڑا ہوا اور ذرا بلند مگر تہذیب سے جرنیلی انداز میں کہنے لگا)
Sir! you no more need me actually۔ !
اور وہ فاتح عالم کی طرح اس بڑے ادارے کے چھوٹے کمرے سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭٭٭


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).