حیدرآباد میں وہ گھر جہاں فلم اسٹار محمد علی نے بچپن اور جوانی گذاری



سال 2009 سے جب سے میں نے صحافت میں قدم رکھا ہے، اس دن سے لے کر آج تک حیدرآباد کے علاقے گاڑی کھاتہ کی تنگ اور بوسیدہ گلیوں سے سیکڑوں بار گزر چکا ہوں۔ ان گلیوں میں موجود انگریز دور کی عمارتوں کو دیکھ کر مجھے ڈر سا لگنے لگتا ہے۔ جب بھی کوئی ان قدیم عمارتوں کو خریدنے کی بات کرتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے :
”کیوں کہ یہ عمارتیں ہندوں کی چھوڑی ہوئی ہیں، اس لئے ان میں بھوت اور آسیب پائے جاتے ہیں۔ “

یہ سن کر ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ اور بھی زیادہ ڈر جاتے ہیں اور ان قدیم عمارتوں سے دور بھاگتے ہیں۔ اور پھر ہوتا یوں ہے کہ کوئی بلڈر ان آسیب زدہ عمارتوں کو گرا کر وہاں فلیٹوں کی اونچی عمارت کھڑی کر دیتا ہے جس کے بعد بھوت اور آسیب بھاگ جاتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو گاڑی کھاتہ کی ان تنگ اور بوسیدہ گلیوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی اور جتنا جلدی ہوسکے میں وہاں سے نکلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر کچھ دن قبل میرے ایک دوست ڈاکٹر سنتوش کامرانی نے مجھے حیرت میں ڈال دیا جب انہوں نے بتایا کہ:
”کیا تم جانتے ہوکہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار محمد علی صاحب کا تعلق حیدرآباد سے تھا۔ “

اپنے دوست کی اس بات پر میں چونک اٹھا اور اس کھوج میں نکل پڑا کہ آخر پاکستان کے اتنے بڑے فلمی ستارے نے حیدرآباد کی کن گلیوں میں اپنا بچپں اور جوانی گذاری ہے!

اسی تلاش میں میں ایک سندھی اخبار ”عبرت“ کے دفتر آیا، یہاں مجھے سید حیات شاہ بخاری صاحب ملے (شاہ صاحب اس اخبار کے سینئر سب ایڈیٹر ہیں، اس کے علاوہ انہوں نے کئی سندھی فلمیں بھی بنائیں ہیں ) ۔ میں نے ان سے دریافت کیا کہ:
”مجھے معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار محمد علی کا تعلق حیدرآباد سے تھا؟ “
”جی ہاں عبرت پریس کے سیدھے ہاتھ پر جو گلی ہے، اس میں ایک تنگ سی گلی نکلتی ہے، اسی گلی میں ان کا گھر تھا۔ “ شاہ صاحب نے مجھے بتایا۔

میرا کام آسان ہوگیا اور اگلے ہی روز کیمرہ لے کر اس گلی کی جانب نکل پڑا۔ یہ گلی حیدرآباد کے علاقے گاڑی کھاتہ کی یو سی 25 میں پڑتی ہے۔ میں جیسے ہی تنگ گلی میں داخل ہوا تو میری نظر داخلی دروازے کے اوپر پڑی جہاں پر دو شیر بنے ہوئے نظر آئے۔ اور ایک شاندار اور عالیشاں عمارت جو کہ شاید ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی بٹوارے کی نشانی لگ رہی تھی، اس عمارت پر لگی ہوئی تختی سے پتا چلا کہ اس عمارت کی تعمیر 1925 ع میں شروع کی گئی اور 1926 ع تک مکمل ہوگئی، جس کا مطلب یہ عمارت قریب قریب سو سال پرانی ہے۔ اس زمانے میں اس محلے کو صدکیھر محلہ نمبر 1 کہاجاتا تھا۔

اس دوران میری ملاقات ایک محقق نور احمد بھٹو (بھٹو صاحب کی دو کتابیں حیدرآباد کی علمی و ادبی شخصیات اور سندھی صحافت کی تاریخ چھپ چکی ہیں اور وہ خود اس محلے میں دس برس تک رہ چکے ہیں ) ۔ بھٹو صاحب نے مجھے وہ عمارت جس میں محمد علی صاحب رہا کرتے تھے، دیکھاتے ہوئے بتایا کہ:
”اس عمارت میں فلم اسٹار محمد علی اور سندھی زبان کے مشہور ڈرامہ نویس، ناول نگار و صحافی محمد عثمان ڈیپلائی جو قاضی برادران سے پہلے عبرت پریس کے مالک بھی تھے، وہ رہا کرتے تھے۔ “

یہ پتھر کی بنی ہوئی دو منزلہ عمارت ہے، یہ موجودہ روڈ سے کچھ فیٹ اوپر ہے اور اس کی تنگ سی گلی میں سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہونا پڑتا ہے۔ عمارت کو اس انداز میں بنایا گیا ہے کہ موسم گرما میں وینٹلیشن کے ساتھ ساتھ مکمل ہوا دار رہے۔ اس عمارت پر سنگتراشی بھی دلکش انداز میں کی گئی ہے۔ عمارت کی سامنے والی دیوار پر گول دائرے میں پھول اور اس کے باڈر پر پتیاں جبکہ دو ستارے بھی بنائے گئے ہیں، جو اس دور کی اکثر ہندوؤں کی عمارتوں پر ملتے ہیں۔

عمارت کی کھڑکیوں پر بھی شاندار قسم کے نقوش ملتے ہیں جبکہ کھڑکیوں کے لئے استعمال کی گئی لکڑی آج بھی ویسے کی ویسی ہی نظر آتی ہے۔

بھٹو صاحب نے مجھے مزید بتایا کہ:

”اس گلی سے نکل کر محمد علی صاحب عبرت پریس والا راستہ لے کر کلو پکوڑاے والے (کلو پکوڑے والا حیدرآباد کا مشہور پکوڑے والا ہے اور کئی برسوں سے گاڑی کھاتہ کی ایک پہچان وہ بھی ہے ) سے ہوتے ہوئے حیدر چوک آتے، وہاں سے اورینٹ ہوٹل (یہ حیدرآباد کا مشہور ترین ہوٹل تھا، جہاں ایوب شاہی کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو آ کر قیام کرتے تھے۔ اس ہوٹل کے مالک بھی عبرت گروپ والے قاضی برادران تھے ) سے ہوتے ہوئے سلطان ایرانی ہوٹل والا راستھ لے کر ہوم اسٹیڈ ہال پہنچتے۔ جہاں پر 1952 میں ریڈیو پاکستاں حیدرآباد کی نشریات کا آغاز ہوا تھا۔ اب ریڈیو پاکستاں حیدرآباد کی عمارت گول بلڈنگ کے قریب حیدرآباد پریس کلب کے برابر میں ہے۔ یہ مجھے اس لئے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہوم اسٹیڈ ہال تک پہنچنے کا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ “

اس حوالے سے میں نے ریڈیو پاکستاں کے سابقہ اسٹیشن ڈاریکٹر (ریجنل مینیجر) نصیر مرزا جنہوں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے حوالے سے دو والیومز پر مشتمل کتاب بھی لکھی ہے، سے رابطہ کیا۔ نصیر صاحب کا کہنا تھا کہ:

” 1947 کے بٹوارے کے بعد محمد علی صاحب کا خانداں حیدرآباد میں آ بسا۔ ان کا تعلق جئہ پور سے تھا۔ ان کے والد سید مرشد علی حافظ قرآں تھے اور اسی محلے کی مسجد میں موذن بھی تھے۔

محمد علی صاحب نے 1955 ع میں ریڈیو پاکستاں حیدرآباد میں بطور اناؤنسر آڈیشن دیا اور پہلی ہی ٹیسٹ میں سلیکٹ ہوگئے۔ یہاں سے وہ ڈرامے وغیرہ کرنے لگے۔

زیڈ اے بخاری (جوکہ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائرکٹر جنرل تھے ) نے ہمت افزائی کرتے ہوئے ان کو سال 1964 میں کراچی اسٹیشن ٹرانسفر کردیا۔ کراچی میں ان کی ملاقات سبطین فضلی کے ساتھ ہوئی۔

رب نے اچھی آواز کے ساتھ شکل بھی اچھی دی تھی اور یوں 1965 یا 1966 میں پہلی اردو فلم ”چراغ جلتا رہا“ ملی، جس میں ان کے ساتھ زیبا اور دیبا بھی تھیں۔ ”

اگر ہم محمد علی صاحب کے فلمی کیریئر پر نظر ڈالیں تو انہوں نے دو سو سے زیادہ فلموں میں اپنی دلفریب اداؤں سے پرستاروں کے دل جیت لئے ۔ انہون نے فلمی دنیا میں ہیرو سے لے کر ولن تک ہر قسم کے رول پرفارم کیے۔ 2010 ع میں سی این این نے ایک سروے کیا اور ایشیا کے بیس بڑے اداکاروں میں محمد علی صاحب کا نام بھی شامل کیا۔

گاڑی کھاتہ کی اس تنگ گلی میں یہاں کے علاقہ مقیم حیدر بھائی ملے، ان کا کہنا تھا کہ:

”محمد علی صاحب وفات سے پہلے ایک بار یہاں اپنی اہلیہ کے ساتھ آئے تھے۔ اس گھر اور گلی میں گھموتے رہے۔ جاننے والے اور بزرگوں سے ملے، اور اپنے گھر کے ساتھ محلے کی ویڈیو فلم بھی بنوائی۔ حیدرآباد کے سابقہ ایس ایس پی پیر فرید جان سرہندی محمد علی صاحب کے قریبی رشتے دار ہیں اور وہ اب جی او آر کالونی میں رہتے ہیں۔ “

حیدر بھائی نے یہ بھی بتایا کہ اب یہ مکان کیسی انصاری خاندان کے پاس ہے جوکہ جوتوں کا کاروبار کرتی ہے۔ ہم نے موجودہ مالک مکان سے رابطہ کیا اور اجازت لینے کی کوشش کی کہ ہمیں گھر کے اندر فوٹوگرافی کرنے کی اجازت دیں مگر اجازت نہ ملی۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس مکان اور محلے کی اب تاریخی حیثیت ہوچکی ہے، پاکستانی فلم انڈسٹری نے چڑھتا اور ڈوبتا سورج دیکھا ہے۔ اب تو پاکستانی فلم انڈسٹری سسکیاں بھرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جو شاید پھر سے پاؤں پر مشکل ہی کھڑی ہو پائے۔ مگر ہم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ اپنے لیجنڈز کے پرانے گھروں اور مکانوں کو چھوٹے چھوٹے میوزیموں میں تبدیل کر کے وہاں ان کی یادگار سجا دیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اپنے شاندار ماضی سے آشنا ہوسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).