فلک بوس عمارتیں اور عبد اللہ شاہ غازی کا مزار


میں جس علاقے میں رہتا ہوں وہاں کا ساحل آٹھویں صدی کے مشہور صوفی بزرگ عبد اللہ شاہ غازی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ جب سے اس شہر میں گھوڑوں کے تاجر کے طور پر آئے ہیں، اس شہر کے لئے مشکل کشا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر کسی پر کوئی فوری مصیبت آن پہنچی ہے جو زندوں سے رفع نہیں ہوسکتی تو غازی صاحبان کے مزار کی سیڑھیاں چڑھیں اور چند پھولوں کی پتیوں کے سنگ ایک دعا کیجئے۔ آپ کی مصیبت فوراً ختم چاہے نہ بھی ہو، ہاں آپ بہتر ضرور محسوس کرنا شروع کر دیں گے۔

کراچی والوں کا غازی صاحب کی قدرت پر اتنا بھروسہ ہے کہ جب بھی کوئی طوفان کی وارننگ آتی ہے تو بجائے اس کے کہ نقل مکانی کر جائیں یہ سمندر کی جانب لطف حاصل کرنے کے لئے دوڑے چلے جاتے ہیں۔ اس شہر کی اپنی مشکلات ہیں۔۔۔ پانی کی کمی، نسلی جھگڑے، گینگ وار، جرم سے لتھڑی مقامی سیاست۔۔۔ مگر بارہ صدیوں سے غازی صاحب نے اس شہر کو بحیرہ عرب کے قہر سے بچا کر رکھا ہوا ہے۔

مگر اب کراچی کا مشکل کشا صوفی خود مشکل میں گھرا ہے۔ غازی کا ایک نیا نودولتیا ہمسایہ آگیا ہے، بحریہ ٹاؤن آئکون ٹاور۔ یہ 62 منزلہ عمارتوں کا جوڑا ہے جو پاکستان کی سب سے بلند و بالا عمارتیں ہوں گی اور صحیح معنوں میں ملک کی فلک بوس عمارتیں کہلائیں گی۔ یہ پراجیکٹ، اگرچہ ابھی نا مکمل ہے مگر یہ عمارتیں مزار کو صرف گہناتی ہی نہیں ہیں بلکہ انہوں نے مزار کو قید خانے کی دیواروں کی طرح گھیر رکھا ہے جس سے مزار نظروں سے اوجھل اور اس کی رسائی انتہائی مشکل ہوچکی ہے۔

روایت ہے کہ کسی بھی دانا ولی کی طرح غازی صاحب نے اپنا ٹھکانہ ساحل کے ساتھ ایک ٹیلے پر بنایا تھا۔ اس کا سبز و سفید گنبد میلوں دور سے دکھائی دیتا تھا۔ اس کے کھلے صحن اور اس ارد گرد کی کھلی جگہیں ہزاروں لوگوں کے لئے صوفی کے عرس کے دوران میزبان بنتیں۔ لوگ نماز پڑھنے، قوالی سننے، لنگر کھانے اور اجتماع کے لئے آتے۔ مزار ان لوگوں کو بھی محفل میں جگہ دیتا جنہیں کوئی اپنی محفل میں نہیں بلاتا۔

غازی صاحب کے نئے ہمسائے کارپوریٹ آفسوں، پر تعیش اپارٹمنٹس اور غیر ملکی برانڈز والے شاپنگ مالز سے لیس ہیں۔ اس کا اشتہار ایک ایسی زندگی کا وعدہ کرتا ہے جس میں اروما تھراپی، انواع و اقسام کے سجے ہوئے میواجات اور خوش و خرم چھوٹے بچے جو کشادہ پولز میں اچھل کود رہے ہیں۔ بحریہ آئکون ٹاور میں امید کی جا رہی ہے کہ کارپوریٹ ملازمین اور پرتعیش اپارٹمنٹس کے رہائشیوں کی ڈھیر ساری کاریں آیا کریں گی۔ ڈویلپرز نے ملٹی سٹوری کار پارکنگ نیز فلائی اوور اور انڈر پاسز کا ایک جال بنا ڈالا ہے۔ وہ یہ بتانا نہیں بھولتے کہ یہ “عوام کے لئے تحفہ” ہے۔

علاقے کے مالدار رہائشیوں نے پہلے تو مزاحمت کی مگر جلد ہی ہار مان لی جب ڈویلپرز نے مزار کے ارد گرد کی تمام سڑکیں کھود ڈالیں اور پھر عدالت میں جا کر کام جاری رکھ سکنے کا حکم امتناعی بھی لے آئے۔ عدالتوں نے بھی رویہ نرم ہی رکھا، ظاہر ہے کہ اب کون ہے جو فلک بوس عمارتوں کی کشش کو مات دے سکتا ہے۔

اب فلائی اوور اور انڈر پاس مکمل ہوچکا ہے مگر علاقہ اس قدر گنجلک ہوچکا ہے کہ اگر غازی صاحب کا بھی یہاں سے گزر ہو تو اپنے مزار کے داخلے کو ڈھونڈنے کے لئے انہیں اپنی ولایت کی تمام طاقتوں کی ضرورت پڑے گی۔ وہ بھی تب جب وہ یہ علاقہ پہچان پائیں۔ شہریوں کی طرف سے اس تشویش کے بدلے میں کہ اس فلک بوس عمارت کی وجہ سے مزار کی عمارت کو نقصان پہنچ سکتا ہے ڈویلپرز نے مزار کے گرد ریتیلے رنگ کی کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کر دیں ہیں۔ “عوام کے لئے تحفہ”۔۔۔

مزار کا سبز و سفید گنبد اور نیلی و سفید دھاری دار بیرونی عمارت جو کبھی اس شہر کے نشان کی حیثیت رکھتے تھے ان فلک بوس  عمارتوں کے بیچ و بیچ چھپ گئی ہے۔ غازی صاحب جو کبھی شہر پر راج کرتے تھے آج وہ ایک طرح سے کسی بے ڈھنگے مگر وسیع چھاپہ مار قسم کے محل میں قید ہیں۔

پاکستان بڑے بڑے صوفیاء کے مزاروں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ وہ ہیں جو شوگر کا علاج کرتے ہیں۔ وہ بھی جو اولاد نرینہ عطا کرتے ہیں۔ وہ بھی جو آپ کے بیٹے کو موت کے منہ سے واپس لاسکتے ہیں۔ اور وہ بھی سب جنہوں نے عظیم صوفیانہ کلام لکھا اور ایسی لاجواب موسیقی تخلیق کی جو صدیوں سے زندہ ہے۔

مگر عبداللہ شاہ غازی کے لئے محبت اس قدر عام ہے کہ وہ لوگ جو مسجدوں، دعاؤں اور روحانی علاجوں پر یقین نہیں رکھتے وہ بھی اس مزار میں اپنی پوشیدہ خواہشات اور پھول کی پتیوں سمیت جاتے ہیں۔ 2010 میں ایک خودکش حملے،جس میں سات افراد وفات پا گئے تھے، کے باوجود یہاں زائرین کا تانتا بندھا رہتا۔

غازی صاحب کا مزار ان لوگوں کے لئے آخری امید ہے جو نہ تو حکومت کے پاس جا سکتے ہیں اور نہ ہی ڈاکٹر کی استطاعت رکھتے ہیں۔ وہ بھی جو اپنی بہن سے بات نہیں کر سکتے یا ان کی بہن ان سے بات نہیں کرتی، وہ بھی جن کے بچے بیمار ہیں اور وہ بھی جو بچوں کی آس لگائے بیٹھی ہیں، نوبیاہتا جوڑے بھی یا وہ جو اپنے ناراض شوہر واپس لانا چاہتی ہیں۔ یہ کراچی کی واحد جگہ ہے جہاں لوگ جی بھر کر رو سکتے ہیں اور ارد گرد والے اس کا غم سمجھتے ہیں۔

یہاں آنے والے اکثر لوگ پسینے اور بدبو لئے ہوتے ہیں، اور ایسے لوگوں کو بحریہ آئکون ٹاور میں خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔ ان لوگوں کا کون رکھوالا ہوگا جب کہ ڈویلپرز تو غازی صاحب کو ہی دھمکا رہے ہیں؟ اور ان عناصر سے ہمیں کون بچائے گا؟

ایک وقت تھا کہ بحیرہ عرب مزار کے قدم چھوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ سمندر پیچھے کو دھکیل دیا گیا ہے اور مزار کے میلوں دور تک زمین اس لئے ہتھیا لی گئی ہے کہ پرتعیش مینشن اور شاپنگ مالز بنائےجا سکیں۔

یہ وہ ترقیاتی ماڈل ہے جس کی تقلید کراچی نے کی ہے۔ یہاں کار مالکان کے لئے سگنل فری سڑکیں ہیں مگر لاکھوں پیدل چل کر کام پر جانے والے فٹ پاتھ سے اکثر محروم ہیں۔ مالدار کسٹمرز کے لئے ایئر کنڈشنڈ شاپنگ مالز ہیں مگر پولیس پھیری لگانے والوں کو یہ کہہ کر تنگ کرتی ہے کہ یہ نقص امن کا باعث ہیں۔

یہاں میکڈونلڈ ساحل کی بہترین جگہ پر قابض ہے اور اب یہ ساحل کی سب سے بدبودار جگہ بن چکی ہے۔ یہ ڈیولپرز پارکنگ لاٹ کی سیوریج سسٹم سے زیادہ پرواہ کرتے ہیں، سارا فضلہ بحیرہ عرب کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

مگر سمندر کی کس کو ضرورت ہے، اور کس کو ایسے ولی کی ضرورت ہے جو اس سمندر کے قہر سے ہمیں بچائے جب ہمارے پاس فضاؤں میں تعمیر شدہ کشادہ پولز ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments