واہیات پوزیشنز


تاریخ ایک ایسی طشتری ہے جس میں ہر عہد کے حکمران اپنی پسندیدہ غذا رکھ کر اسے زبردستی دوسروں کو کھلانے پر زور د یتے رہے۔ ہندوستانی تاریخ میں سلطان فتح علی ٹیپو المعروف ٹیپو سلطان کی سیاسی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ شیرِ میسور سے جانا جانے والا یہ مردِ آہن واقعتاً ایک شیر کی طرح برطانوی سامراج کے خلاف برسرِ پیکار رہا اور پھر ایک دن یہ مزاحمت کی علامت وطن کی خاک پر شہید ہوگیا۔ ابتدا میں اپنے والد حیدر علی کی موت کے بعد ٹیپو سلطان نے تنِ تنہا انگریزوں کے خلاف لڑنے کی کوشش کی بعد ازاں اسے نظام الملک اور مرہٹوں کو ساتھ ملانے کی ضرورت پیش آئی لیکن نظام اور مرہٹے ٹھیک وقت پر ٹیپو سلطان کا ساتھ چھوڑ گئے اور سلطان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور آخری محاذ پر وہ شیروں کی طرح لڑتے ہوئے جان جانِ آفریں کے سپرد کرگیا۔

ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت قائم ہے جو اپنے متشدد ہندو نظریات کی وجہ سے جانی جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہندوستانی شہروں کے نام تبدیل کرنے اور تاریخِ ہندوستان کو نیا لباس پہنانے کا جو چلن چلا ہے وہ نیا نہیں ہے۔ کانگریس نسبتاً سیکیولر جماعت کے بہر حال ہندوستانی سماج میں ایک الگ دھارے کی نمائندہ ہے۔ پچھلے کچھ برس سے متحدہ ہندوستان کا پہلے باقاعدہ مزاحمتی کردار یعنی ٹیپو سلطان مختلف سطحوں پر زیرِ بحث رہا۔

ہندوستانی سماج میں ٹیپو کو بیک وقت ہیرو بھی مانا جاتا ہے اور ولن بھی۔ اس ضمن میں جنوبی بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف اداکار، فلم ہدایت کار، ڈرامہ نویس، اور دانش ور گریش کرناڈکا نام اور کام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ گریش کرناڈ کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان اگر ہندو ہوتے تو کرناٹک میں ان کا وہی مقام ہوتا جو مہاراشٹر میں شیوا جی کا ہے۔ گریش کرناڈ نے تو یہ بھی کہا کہ بنگلور ہوائی اڈے کا نام ٹیپو سلطان کے نام پر رکھا جانا چاہیے۔

کرناڈ کے اس بیان کے بعد ہندوستانی شدت پسند سماجی ”دانش وروں“ نے ایک طوفانِ بدتمیزی اٹھادیا بلکہ گریش کو اس ”ہمت“ کے جواب میں قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ متشدد ہندوؤں کا ماننا ہے کہ ٹیپو سلطان نے لاتعدا برہمنوں کا قتلِ عام کیا۔ اور وہ یہ مانتے ہیں کہ ٹیپو سلطان ایک ظالم حکمران تھا۔ یاد رہے کہ نوے کی دہائی میں بھگون گڈوانی کے ایک ناول پر مبنی ڈرامہ سیریل ”The Sword of Tipu Sultan“ کے نام سے ہندوستان کے قومی ٹی وی چینل دور درشن سے ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی جس میں ٹیپو سلطان کا کردار معروف فلمی اداکار سنجے خان نے ادا کیا تھا۔

اس ڈرامہ سیریل میں جہاں ٹیپو سلطان کو مذہبی رواداری پرقائم ایک مسلمان شخص کے طور پر دکھایا گیا تھا وہیں اسے برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کے استعارے کے طور پر بھی دکھایا گیا تھا۔ ہندوستان میں موجود ”ہندتوا“ کی لہر نے (حالانکہ بھارت خود کو ایک سیکیولر ریاست کے طورپر شمار کرتا ہے ) مقامی ہندوؤں کو ابھی تک نو آبادیاتی اثرات سے نہیں نکالا اور مابعد نو آبادیاتی اثرات میں سے ایک یہ کہ مقامی تہذیبی اکائیاں قبلِ از نو آبادیاتی شناخت سے بغل گیر ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔

ٹیپو سلطان تاریخی طور پر ایک امن پسند، صلح جُو اور ترقی پسند فکر کا مالک مسلمان تھا۔ انگریزوں کے مقابلے میں ٹیپو سلطان کا عہد اپنے دور کا سب سے ترقی یافتہ عہد مانا جاتا ہے۔ ٹیپو سلطان ایک پیش بین اور زیرک حکمران تھا۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ انگریزوں کی شکل میں سرمایہ دارانہ فکر بہت جلد ہندوستان میں پنپ اٹھے گی اور جلد ہی ہندوستانی سماج آزاد سماج کی بجائے معاشی طور پر ایک صارف سماج کے سامنے آئے گا۔

لہٰذا اس نے مقامی صنعت، مقامی راکٹ سازی کی صنعت، کاشت کاری اور چھوٹی صنعتوں کو مضبوط کیا۔ لیکن ٹیپو کے مرکزی بیانیے سے متصادم بیانیہ معاصر اور کچھ دہائیاں قبل کے فکری کلامیے میں کچھ اس طرح سے نفوذ کرچکا تھا کہ بھارت اپنی ہی زمین کے مزاحمتی کرداروں کو مذہب کے پیمانے میں تول کر حقیر ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس بحث نے زیادہ طوالت تب اختیار کیا جب گریش کرناڈ نے معروف اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار وی ایس نائیپول کے ہندوستانی تاریخ میں مسلمانوں کے منفی کردار سے متعلق بیان کو چیلنج کیا۔

یاد رہے کہ نائیپول کا تعلق ٹرینیڈاڈ اور ٹاباگو سے تھا ( نائپول کا اسی برس 11 اگست کو انتقال ہوا) ۔ جزائر غرب الہند میں سے دو جزیروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک جو کسی زمانے میں ہسپانیہ کی نو آبادیات کا حصہ رہا تھا۔ چونکہ نائپول خود ایک ایسے سماج کا حصہ رہا جس میں شناخت اور عدم شناخت کے قضایا بہت نمائندہ فکری عوامل رہے اور جزائر غرب الہند میں سیاہ فام اور ہندوستانی نسل کا ادغام اور نئی زبان کا حصول اور تشکیک فکری مباحث میں بہت زیادہ اہمیت کے حامل رہے لہٰذا نائپول کے بیانیے کی ردِ تشکیلیت بھی ضروری ہے۔

1999 میں آوٹ لک کو انٹرویو دیتے ہوئے وی ایس نائپول نے کہاتھا کہ ”عیسائیت نے ہندوستان کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کہ اسلام نے۔ تاج (مرکزی حکومت، سلطنت) ایک بے کار، زوال آمادہ اور بہت ظالم شے تھا لہٰذا زیادہ دیر تک اس کاطاقت میں رہنا بہت تکلیف دہ اور مشکل تھا۔ جس کی بنیاد لوگوں کے لہو پر رکھی گئی“۔ نائپول کا ماننا تھا کہ دسویں صدی عیسوی کے ہندومندروں کواس عہد کے حکمرانوں نے تباہ و برباد کردیا اور چار دیواری میں پنپنے والی تہذیب کو باہر سے آنے والے تہذیبی نمائندوں نے تباہ و برباد کردیا۔

وی ایس نائپول ( 1998 ) میں اپنی کتابBeyond Belief: Islamic Excursions بلکہ اپنی دیگر غیر فکشن کتب جیسے کہ India: A Million Mutinies Now، India: A Wounded Civilization، The Middle Passageمیں مسلم بیزار نظر آتاہے۔ گریش کرناڈ نے مرکزی میڈیا پر اپنے انٹرویو میں ایک نوبل انعام یافتہ کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ غیر ہندوستانی بھی کہا یعنی نائیپول بطور ایک غیر ملکی کے ہندوستانی سماج کو نہیں سمجھتا۔ گریش کرناڈ جو کہ ایک شاندار ڈرامہ نویس ہیں ( جو اپنے ڈرامے بعد ازاں انگریزی میں بھی ترجمہ کرتے ہیں ) نے ٹیپو سلطان کے کردار پر ایک اسٹیج ڈرامہ The Dreams of Tipu Sultan تحریر کیا۔

بنیادی طور پر یہ ڈرامہ بی بی سی ریڈیو کے لیے تحریر کیا گیاتھا جسے ہندوستان میں مختلف مواقع پر اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ یہ ڈرامہ ٹیپو سلطان کا نہ صرف بیرون متشکل کرتا ہے بلکہ بطور ایک اسٹیٹس مین، بطور ایک والد، شوہر، پیش بین، صنعت کار، راکٹ کی صنعت کے پیشوا، ریشم سازی اور کھلونا سازی اور ٹیکس کے نظام کے ماہر کے طور پر درون بھی پیش کرتا ہے۔ ڈاکٹر رام پنیانی معروف مقرر، محقق اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے ہندوستانی دانش ور ہیں ان کا کہنا ہے کہ ٹیپو سلطان کوبرہمنوں کو مارنے کی کیا ضرورت تھی؟

سلطان کا ایک انتہائی اہم مشیرِ خاص برہمن تھا جس کا نام پورنیا تھا۔ ایسے ہی سلطان کی سلطنت میں کئی ایک مندر بھی آتے تھے جن کی ذمہ داری ٹیپو سلطان پر آتی تھی۔ کچھ ہندوستانی دانش وروں کا ماننا ہے کہ ٹیپو سلطان نے سید عبداللہ دلائی کومکتوب بھیجا تھا کہ اس نے بے شمار برہمنوں کو مسلمان کیا ہے۔ جب کہ یہی دانش ور شنکر اچاریہ کے ساتھ ان کے تعلقات اور مکتوبات کو بیان نہیں کرتے۔ ٹیپو سلطان نے ایک مہم جوئی پر جانے سے قبل شنکر اچاریہ سے آشیر باد بھی لی تھی۔

دوسری طرف مرہٹے جب ٹیپو پر حملہ کرنے آئے توناکامی کی صورت میں واپس جاتے ہوئے انہوں نے سرنگاپٹم کا مندر توڑ دیا۔ ٹیپو سلطان نے اس کی مرمت کروائی جس کی تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ مابعد نو آبادیاتی ڈسکورس میں تاریخ کے خالص پن کے حصول کے لیے ہر دو طرف سے ایسی ایسی واہیات پوزیشنز لی گئیں ہیں کہ معلوم نہیں ہوتا کہ تاریخ کا کون سا دھارا کس وقت کون سا رخ اختیار کر لے۔ جہاں ایک طرف گریش کرناڈ جیسے دانش ور اور لکھاری ایک تاریخٰی مزاحمتی کردار ٹیپو سلطان کو زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں وہیں بی جے پی کی سیاست کی نذر ہونے والے دانش وروں کا گروہ بھی جڑ پکڑ رہا ہے۔ یہ جانے بغیر کے کہ تاریخ کا سفر خطِ مستقیم کا سفر ہے نہ کہ دائروی۔ اور جو مورخ تاریخ کے دائروی سفر کے قائل ہیں ان کے ہاں ماضی پرستی اور ماضی میں بھی اپنی ”پوزیشن“ کے خالص پن کے حصول کی خُو ہے جو خالصتاً مابعد نو آبادیاتی کجی ہے جس کے لیے خواہ مخواہ مقامی اکائیاں اپنی طاقت کا زیاں کررہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).