چیخ


مما، مما آخر کب بنے گا میرا نیا یونیفارم؟ کتنے ماہ ہو گئے میں ہر روز یہی سنتی ہوں کہ بس بیٹا تیار ہونے والا ہے میری ساری سہیلیوں نے نیا یونیفارم بنوا لیا ہے ایک میں ہوں جو ابھی تک پھٹے پرانے یونیفارم میں جاتی ہوں۔

ماں اپنی آٹھ سالہ ننھی بچی کی معصوم سی خواہش پر روتے ہوئے دیکھ کر تڑپ اٹھتی اور جلدی سے بشریٰ کو گلے لگا کر کہا بیٹا میں ابھی معلوم کرتی ہوں کہ میری شہزادی کی یونیفارم کو بننے میں اتنی دیر کیوں لگ گئی؟ اور بشریٰ کے دل کو بہلانے کے لیے کہا کہ آخر شہزادی کا یونیفارم تھا کوئی عام بات تھوڑی ہے!

بشریٰ خوش ہو کر اپنی سہیلی کے گھر چلی گئی اور ادھر ثوبیہ بچی کی معصوم خواہش کو پورا نہ کر سکنے کی وجہ سے عجیب سی کشمکش کا شکار ہو گئی اور اپنے ہی سوالوں کے عذاب میں پھنس گئی کہ آخر کیوں بشریٰ کا باپ ہمیں زمانے میں تنہا چھوڑ کر چلا گیا اور آخر کیوں وہ ایک ایسے بے حس معاشرے کی فرد ہے جہاں لوگوں کو کردار سے نہیں بلکہ اس کے رنگ اور اس کی مال و دولت سے پہچانا جاتا ہے جہاں امیروں کو انسان اور غریبوں کو حیوان سے بد تر سمجھا جاتا ہے جہاں امیروں کو ذرا سی چوٹ بھی لگ جائے تو قیامت آ جاتی ہے اور ہم غریبوں پر قیامت بھی گزرے تو کہتے ہیں کوئی بات نہیں۔ جہاں معصوم روتے، سسکتے، بلکتے غریب بچوں کے ماں باپ کی شام امیروں کے بچوں کو سلانے میں گزر جاتی ہے جہاں وہ لوگ ایک دن میں لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اور ہم ایک پھوٹی کوڑی کو ترستے رہ جاتے ہیں۔

اگلی صبح ثوبیہ کسی سے ادھار لے کر اپنی اکلوتی بیٹی کو نیا یونیفارم بنوا لائی اور بشریٰ نئے یونیفارم میں ملبوس اپنی سہیلیوں کے ساتھ بہت خوش نظر آنے لگی بشریٰ بچپن ہی سے ذہین تھی اور پڑھائی میں بہت زیادہ دلچسپی لیتی تھی اس لیے ہر سال کی طرح اس سال بھی وہ اپنی کلاس میں اول آئی۔

وقت اور دن سرکتے گئے آخرکار بشریٰ کی محنت رنگ لائی اور وہ یونیورسٹی جاپہنچی مگر غربت نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا اور ایک دیوار بن کر بشریٰ کی تعلیم پرحاوی ہو گئی مگر ثوبیہ نے ماں باپ دونوں کا فرض ادا کرتے کیا اس بار بھی ہمت نہ ہاری اور اس بار تو ماں کی ممتا اس حد تک جا پہنچی کہ اس نے اپنی زندگی داؤ پر لگاتے ہوئے اپنی آنکھ بیچ دی تاکہ وہ سہانا خواب جس کی بچپن سے بشریٰ کے من میں پیوند کاری کی تھی وہ پایہ؟ تکمیل تک پہنچ سکے۔

یہ ایک اور منظر ہے نئی دنیا ہے۔ جہاں نو عمر لڑکے اور لڑکیاں اپنے شب و روز جذبات کے سمندر کنارے گزارتے ہیں۔ جذبات لبریز ہوتے ہیں۔ یونی پہنچتے ہی ایک دن ایک فنکشن میں سکندر حیات ایک بگڑے گھرانے کے سپوت نے کہا بشریٰ صدیقی کو اپنے دل کی ملکہ بنانے کو تیار ہوں۔ یہ الفاظ سن کر بشریٰ پہلے پہل تو گھبرائی اور سوچا کہ اپنی ماں کو خبر کر دوں پھر خیال آیا ماں نے تو سختی سے ہدایت کی تھی کہ آوارہ لڑکوں سے بات بھی مت کرنا۔ لیکن سکندر حیات تو آوارہ نہیں ہے پھر اس سے دوستی کرنے میں حرج ہی کیا ہے ویسے بھی اگر میں مما کو نہ بتاؤں تو انہیں کوئی وحی تو نازل ہو گی نہیں اور یہی بہتر رہے گا۔

عابدہ، تم جانتی ہو کہ سکندر حیات مجھے پہلے دن ہی اچھا لگنے لگا تو میں سوچ رہی ہوں اس سے دوستی کر لوں تمہارا کیا خیال ہے؟
نہیں بشریٰ یہ ٹھیک نہیں ہے تم اپنے دو دن کے پیار کی خاطر اپنی اس ماں کو دھوکا کیسے دے سکتی ہو جس نے اپنے دل کا خون کرکے تمہیں اس قابل بنایا کہ تم اس دنیا کے سنگ چل سکو۔
یار ایک تو میں بھی پاگل ہوں جو تم جیسی بیوقوف لڑکی سے مشورہ کرنے بیٹھ جاتی ہوں۔ مجھے تم سے پوچھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔

جو میں کہہ نہیں سکتی وہ میں فرض کرتی ہوں چلو میں فرض کرتی ہوں مجھے تم سے محبت ہے اپنے موبائل کی سکرین پر بشریٰ کا میسج دیکھ کر سکندر نے زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا کہ آخر آگئی چڑیا جال میں۔ بشریٰ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ تم نے اقرار محبت کر کے مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے میں تا عمر تمہاراغلام بن کر رہوں گا اور تم میری دنیا کا حسین خواب۔
بشریٰ میسج پڑھتے ہی خوشی سے ناچنے لگی۔

وقت کے ساتھ سکندر نے بشریٰ کو اپنے عشق کے جال میں ایسا پھنسایا کہ پڑھائی تو ایک طرف وہ اپنی ماں کو بھی بھول گئی پورا سال گزر گیا اور بشریٰ نے اپنی ماں کی خبر تک نہ لی۔ ماں اس لمحے یاد آتی جب پیسوں کی ضرورت پڑتی مگر وہ ماں کا دل تھا جو اپنی بیٹی کی اس قدر بے رخی کو بیٹی کی مصروفیت سمجھتی اور دل ہی دل میں خوش ہوتی کہ اب وہ وقت جلد ہی آنے والا ہے جب اس کی بیٹی دنیا کو یہ بتائے گی کہ میں غریب ہوں تو کیا ہوا مجھے ماں کے پیار کی دولت نے اپنی گود میں پالا ہے۔

عرصہ گزرنے کے بعد ثوبیہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب پڑوسن نے بتایا کہ بشریٰ کا فون آیا ہے ثوبیہ اپنا بڑھاپا بھول کر تیزی سے دوڑتے ہوئے فون کو جھپٹ لیا۔ بیٹی کی آواز سن کر ماں کے دل کو قرار آ گیا مگر بیٹی پہلے والی نہ تھی۔
”ماں میں بہت جلدی میں ہوں مجھے صرف دو لاکھ روپے کی ضرورت ہے۔ بیٹی کی بات سنتے ہی ماں سکتے میں آ گئی اور سوچنے لگی
اتنی رقم؟
اس نے ڈیڑھ لاکھ روپے میں اپنا پورا گھر اور سازوسامان بیچ ڈالا اب پچاس ہزار روپے کی فکر مسلسل اسے کھائے جارہی تھی بہت کوشش کے باوجود جب کچھ نہ بن سکا تو اپنا ایک گردہ بیچ ڈالا اور دو لاکھ روپے بیٹی کو بھجوادیے مگر خود آپریشن کے دوران دارِفانی سے کوچ کر گئی۔
ادھر لالچ عروج پہ تھا۔

”یار اگر تم میرے لئے دو لاکھ ارینج نہیں کر سکتی ہو تو پہلے بتا دینا تھا میں کہیں اور سے بندوبست کر لیتا مگر مجھے بتانا تو تھا میں نہیں جانتا تھا کہ تم اس قدر خود غرض ہو۔
سکندر کی ناراضگی دور کرنے کے لیے بشریٰ نے جلدی سے دو لاکھ سکندر کو بھیج دیے پیسے لیتے ہی سکندر بشریٰ کو چھوڑ کر اتنا دور بھاگ گیا کہ پھر اس کا کہیں سراغ نہ ملا۔

ایک دن ماں کو فون کرنے پر جب اسے ساری بات معلوم ہوئی تو شدید ذہنی صدمے سے دو چار ہو گئی اورکومہ میں چلی گئی ایک عرصہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد جب کومہ سے باہر آئی تو اس نے سارے رشتے ناطے ختم کر لیے۔ اب اسے ہر وقت اس کی ماں کی آوازیں سنائی دیتیں۔ ہتھوڑے کی مانند اس کے دماغ ضرب لگاتی آوازیں۔

”میری بیٹی میں بھوک پیاس سے اس لیے تو نہیں لڑی تھی کہ تمہیں ایسا بناؤں جو اس معاشرے کے رنگ میں ڈھل جائے اور خود غرضی کی ہر حد پار کر جائے میں راتوں کو اس لیے تو نہیں جاگی تھی جو تمہیں وحشی درندہ بناؤں جو اپنی ہی ماں کو نوچ نوچ کر کھا جائے یہ باتیں سن سن کر وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی۔
راوی کا کہنا ہے ایک عورت میلی کچیلی پھٹے کپڑے، گھونسلہ بال، ننگے پاؤں، سارا دن گلیوں میں کاغذ اور الا بلا چنتی ہے۔ طویل وقفے کے بعد اس کی دل دہلا دینے والی چیخ گونجتی ہے ”ما اا اا اں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).