مہاراجہ چندر گپت موریہ کی جی ٹی روڈ اور سی پیک


پاکستان کو چین سے ملانی والے پاک چائنا اکانامک کاریڈور (سیپیک) کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں پاکستان میں معاشی استحکام کے واسطے کمال اور دنیا کے لئے سی پیک اک عجوبہ ہوگا، مگر پاکستان کو ایک وقت میں افغانستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے جوڑنے والے تاریخی راستے گرانڈ ٹرنک روڈ (جی ٹی روڈ) بھی سی پیک سے کسی صورت کم نہیں۔

مجھے جی ٹی روڈ اس لئے بھی مرعوب کرتا ہے کہ یہ روڈ واہگہ سے لاہور، شاہدرہ، مریدکے، وزیرآباد، گجرانوالہ، گجرات سے لے کر کھاریاں تک مسلسل آباد ہے، اک مسلسل شہر ہے جو ختم ہی نہیں ہوتا۔ یقیناً پنجاب کے لئے جی ٹی روڈ اک لائف لائن کی حیثیت رکھتا ہے، پنجاب اگر جسم ہے تو اس کی ”شہہ رگ“ جی ٹی روڈ ہے۔

مغلوں کے آشیرواد سے بہار صوبے میں بنے زمیندار ابراہیم خان سوری کے پوتے اور مغل دربار میں خاص اثر رکھنے والے فرید خان سوری کے بیٹے شیر شاہ سوری بلاشبہ ہندوستان کی تاریخ کے اک شاندار حاکم گزرے ہیں جنہوں نے سوری سلطنت کا بنیاد رکھا مگر جی ٹی روڈ جیسی عظیم شاہراہ کا بنیاد رکھنا اس کے بھی بس کی بات نہیں تھی۔

1541 ع سے 1548 ع تک آدھے ہندوستان پر صرف سات سال حکومت کرنے والے سلطان شیر شاہ سوری نے کابل سے دلی تک اس شاہراہ کو پیدل چلنے کے بجائے سواریوں مطلب گھوڑا گاڑیوں اور بیل گاڑیوں کے چلنے جیسا ضرور بنایا۔

اصل میں یہ کام صرف برصغیر کے عظیم مہاراجا ”چندر گپت موریہ“ نے کیا اور وہ ہی کرسکتا تھا۔ ۔ ۔ جی بالکل اس دھرتی کے اپنے بیٹے عظیم موریہ سلطنت کے بانی اور برصفیر کے سب سے بڑے مہاراجہ چندر گپت موریہ نے ہی گنگا ماتا کے ابتدا سے لے کر شہنشاہیت کے افغان علاقوں کی سرحدوں تک اک راستہ بنوایا تھا۔ 322 قبل مسیح میں یہ راستہ دیش کی معاشی ترقی اور سرحدوں کے تحفظ کے لئے بنوایا گیا تھا۔ قبل مسیح میں اس شاہراہ کا نام ”اتر پتھا“ (شمالی سرحدوں کی جانب والی شاہراہ) رکھا گیا تھا۔

جنوبی ایشیا کو مشرق وسطی سے ملانے والی یہ شاہراہ ایشیا کی سب سے طویل شاہراہ مانی جاتی ہے۔ جو اس وقت بنگلادیش، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان کو آپس میں ملاتی ہے۔ کمال بات یہ ہے کہ یہ شاہراہ اس وقت بھی تمام ممالک میں اندر آمدورفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

2500 کلومیٹر لمبی اس شاہراہ کو بنگلادیش کی شہروں چٹاگانگ سے ڈھاکا تک NA۔ 1، ڈھاکا سے سراج گنج تک N۔ 4، N 405، سراج گنج سے ناؤر تک N۔ 507، بنگلادیش کے شہر ناؤر سے ہندوستان کے شہر راج شاہی تک N۔ 6، راج شاہی سے پورنے تک NH۔ 12، پورنے سے پٹنا تک NH۔ 27، پٹنا سے آگرہ تک NH۔ 19، آگرہ سے امرتسر پھر پاکستان کے شہر لاہور تک NH۔ 44، لاہور سے پشاور سے جاتے خیبر پاس تک NH۔ 5، اور آخر میں خیبر پاس کراس کرتے ہوئے افغانستان کے شہر جلال آباد سے کابل تک اسی شاہراہ کو AH۔ 1 کے نئے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ویسے اسی شاہراہ کے کنارے الھ آباد، کانپور، غازی آباد، دلی، لدھیانا، امرتسر، شاہدرہ، گجرانوالہ، گجرات، وزیرآباد، دینہ، کھاریاں اور راولپنڈی جیسے شہر بھی آباد ہیں۔ کوئی اس کے بھلے سینکڑوں نام بھی رکھ دے مگر جی ٹی روڈ تو جی ٹی روڈ ہی رہے گا۔

اس شاہراہ کے پہلے بھی کئی نام رکھے گئے ہوں گے مگر سلطان شیر شاہ سوری کے بعد پھر انگریز سرکار نے اس شاہراہ کو ”جرنیلی سڑک“ سے باقاعدہ عوامی شاہراہ بنا کر اس کا نام GRAND TRUNK ROAD (GT Road) رکھ دیا جو اس وقت بھی زندھ ہے۔

اک انگریز تاریخ دان ”رڈیارڈ کپلنگ“ نے جی ٹی روڈ کو تاریخ کا عظیم شاہکار قرار دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ”دنیا میں اکثر شہر دریاؤں کے کنارے آباد ہوئے ہیں مگر جی ٹی روڈ واحد شاہراہ ہے جس نے سب سے زیادہ شہر آباد کیے ۔ بر صغیر کی ترقی میں اس شاہراہ کا اہم کردار رہا ہے۔ “

اسی شاہراہ کے کنارے سناتن دھرم اور اسلامی تعمیرات کے کمال شاہکار بھی موجود ہیں۔ جن میں ہندو حکمرانوں کا بنایا ہوا مہابودی مندر، مسلم حکمرانوں کا تعمیر کردہ کوس مینار اور قلعہ روہتاس نمایاں ہیں۔

ہمیں سلطان شیر شاہ سوری کا اس لئے ضرور شکرگذار رہنا ہوگا کہ انہوں نے اس راہگزر کو ”جرنیلی سڑک“ میں تبدیل کر کے منزلیں، سرائے، قلعے اور ”بھیرا“ جیسے کچھ شہر آباد کیے ، یہ اور بات ہے کہ یہ محنت انہوں نے اپنی شہنشاہیت کو دوام بخشنے کے لئے کی تھی، مگر افسوس ان کے شکست خوردہ مغل بادشاہ ہمایوں نے شیر شاہ کے انتقال کے کوئی آٹھ سال بعد ہی ایران سے واپس آکر شیر شاہ سوری کے بیٹے اسلام شاہ سوری کو شکست دیدی۔ باقی جو کچھ ہوا وہ تاریخ کے کتابوں میں لکھا ہے۔

جی ٹی روڈ اس وقت بھی اک شاہی روڈ ہے، کافی لوگوں کو یہ بھی یقین ہے کہ پاکستان پر اصل میں راج کرنے والے اکثریتی شہر اور لوگ اسی جی ٹی روڈ کنارے آباد ہیں۔ پاکستان کی زیادہ تر انڈسٹری، ہنرمندی، تعلیمی ادارے، زرخیز زمینیں اور طاقتور ادارے بھی اسی روڈ کنارے موجود ہیں۔ اسی طرح سے افغانستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اہم اور طاقتور شہر اسی روڈ سے منسلک ہیں، پھر کیوں نہ جی ٹی روڈ کو اہم قرار دے کر تمام منسلک ممالک کے لئے کھول دیا جائے۔

اہم معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر چاروں ممالک صرف جی ٹی روڈ کو آپس میں تجارت کے لئے کھول دیں تو سب خوشحال ہوجائیں گے۔ سی پیک کی اہمیت سے انکار نہیں مگر جی ٹی روڈ کے آگے سی پیک کی کوئی حیثیت نہیں۔ جی ٹی روڈ ممالک اور عوام کو آپس میں جوڑنے کے ساتھ ہزاروں سالوں پر محیط تاریخی اور ثقافتی ورثے کو بھی پھر سے اجاگر کرنے اور محفوظ بنانے کے لئے کارگر ہوگی۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ جی ٹی روڈ خود ہی درمیاں کے فاصلوں سمیٹ کر رکھ دے۔ اس لئے سرکار کو چاہیے کہ سی پیک ضرور تعمیر کرے مگر ساتھ ساتھ جی ٹی روڈ کو بھی سی پیک کی طرز پر کھولنے کی طرف دھیان دے، اس سے جنوبی ایشیا کے ممالک کی تنظیم سارک بھی مضبوط ہوجائے گی، دوریاں کم ہوں گی اور یہ تمام غریب ممالک ترقی یافتہ بھی ہو جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).