ہمارا اخلاقی بحران


ایک نہایت دردناک وڈیوکلپ گردش میں ہے جس میں ا یک ہٹّا کٹّا نو جوان بندوق کے زور پہ ایک سیدھی سادی گھریلو خاتون کی نہایت فحش جملوں سے بے عزتی کر رہا ہے اور اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ اس کی ناف کے نیچے بندوق کا بٹ بھی مارتا ہے۔ فرعون بنا یہ بھیڑیا نما وحشی بظاہر انسان تھا مگر حیوانوں سے بد ترنظر آرہا تھا۔ ویڈیو اسی پر بند ہو گئی حالانکہ مغلّظات ا ور مار پیٹ کا سلسلہ ہنو ز جاری تھا۔ اللہ جانے آگے اس نے اس خاتون کا کیا حشر کیا ہو گا۔ لگتا نہیں کہ وہ چپ ہوا ہو گا۔ بھلا ہو اس شخص کا جس نے یہ ویڈیو آن لائین لگا دی۔ اور حکام کو اس سے خبر ہوئی۔

ابھی خبروں میں سنا ہے کہ یہ منحوس انسان دم دبا کر چین بھاگ گیا ہے۔ خیر چین کون سا دور ہے۔ اگر حکومت چاہے تو وہاں سے بھی پکڑ سکتی ہے۔ آخر پاک چین دوستی کس دن کام آئے گی۔
چاہیے ہے کہ جب بھی یہ منحوس شخص گرفتار ہو اس سے پہلے کہ اس کو اصل سزا دی جائے اس کو لا کراس خاتون کے قدموں پھینکا جائے اور سر عام معافی منگوائی جائے۔ اللہ کرے حکومت اس معاملے کو انجام تک پہنچائیے گی۔

آئے روز وطنِ عزیز سے محیّر العقول قابلِ شرم اورغیرا خلاقی واقعات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسا ن کا جی چاہتا ہے کہ عقل و خرد سے بیگانہ ہوجائے۔ یا آنکھ کان اور منہ بند کر لے۔ جنگلوں میں نکل جائے وحوش سے دوستی کر لے انسان اورا س کے شر سے بچنے کے لیے دنیا سے کلی طور پہ کنارہ کش ہو جائے۔ بلکہ مر ہی جائے۔ کیونکہ
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا

ایک ایسا ملک جہاں حب نبویؐ کے دعویدار وں کا کھوّے سے کھوّا چھِلتا ہے وہاں پر اخلاق کی زبوں حالی ناقابلِ یقین ہے۔ وہ ؐجس کے خُلقِ عظیم کی گواہی اللہ نے دی اُن ؐسے نسبت ہونا تو اعلی ترین اخلاق کا متقاضی ہے۔ چہ جائیکہ کہ اسفل السافلین کا نمونہ بنے جارہے ہوں۔

ہمارے معاشرے میں ویسے بھی عورت کو کم تر، دوسرے درجے کی شہری سمجھا جاتا ہے۔ ایک اکیلی عورت کا جینا نقل و حرکت اور اپنی حیثیت کو منوانا کارِ دار ہے۔ اگر وہ ا پنی صلاحیتوں کو منوانا چاہے تو ہر سطح پر اس کو دبایا جاتا ہے۔ چیلینجز کی عفریت منہ کھولے کھڑی ہوتی ہے۔ وہ جو کہتے ہیں ناں قدم قدم پراگنی پرِکشادینی پڑتی ہے۔ دوسروں کی بدکرداری کی قیمت ا سکو چکانی پڑتی ہے۔ ان کا حرجانہ ا س سے وصول کیا جاتا ہے۔ گویا وہ ایک ہرنی کی طرح مگرمچھوں سے بھرے پانی کے تالاب میں اترتی ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی کے لیے سب سے پہلا حملہ ہی اس کے کیریکٹر پر کیا جاتا ہے۔

نیز ہمارے معاشرے میں صرف عورت ہی کو اخلاقی سدھارکی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ مردوں کو غضِ بصر اور شرافت نہیں سکھائی جاتی۔ مردوں کی احساسِ برتری کا یہ عالم ہے کہ خواہ عقل و حیثیت میں خواتین سے کم تر بھی ہوں تب بھی مرد ہونے کا سریہ گردن میں لیے اکڑے پھرتے ہیں۔ یہ عین جہالت ہے۔ قوّام ہونا ایک ذمہ داری ہے۔ نہ کہ پوجے جانے کا سر ٹیفیکیٹ۔

اسی معاشرے میں بعض خواتین جو ہر ہر حد پار کر چکی ہیں اور اس قدر دبنگ ہیں کہ دھڑلے سے ہر کام کرتی ہیں اور کوئی ان کے سامنے دم نہیں مار سکتا۔ اس کے بعدبھی وہ میڈیا پر آکر آنسوؤں سے رو رو کر اپنے اپ کو بے بے قصور اور مظلوم گردانتی ہیں۔ اور یہی لوگ اس کے آگے بچھ بچھ جاتے ہیں۔ جبکہ ایک ایسی ہی لڑکی کو اس کے اپنوں ہی نے جینے کے حق سے محروم کردیا تھا۔ یہ دو انتہائییں ہیں۔ یعنی ہمارا معاشرہ ایک متوازن معاشرہ نہیں ہے۔

بہت دکھ ہوتا ہے جب اسلامی ناموں والے لوگ سؤر گدھے کتے کوّے حتی ٰ کہ مُردے بھی کھاجاتے ہیں۔ مردہ خواتین کی حرمت قبروں میں بھی محفوظ نہیں۔ ہر چند مؤخر الذکر کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے مگر میڈیا میں ان کا بہت چرچا ہو اتھا۔ ایک خاتون نے اپنے شوہر کو اپنی بیٹی سے بدچلنی کے شک پر قتل کر کے پتیلے میں چڑھا کر ہلدی وغیرہ ڈال کر پکا رکھا تھا کہ سالن کی طرح پھینک دے گی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ خس کم جہاں پاک۔ اس کی بتیسی دیدنی تھی کیونکہ وہ یہ تفصیل مسکرا مسکرا کر بتا رہی تھی۔ اسی معاشرے میں جائیداد کے جھگڑوں پر والدین کو قتل کرنے و الے بھی موجود ہیں۔ بچیاں اور بیٹیاں رحمی اور مقدس رشتوں سے بھی محفوظ نہیں۔ سیالکوٹ کے دو بے گناہ حفّاظ بھائی جنہیں دن دہاڑے بھرے مجمعے میں سفّاکانہ قتل کیا گیا۔ پشاور آرمی سکول کے بچوں کا بہیمانہ قتل۔ اففف
کیا کیا ہمیں یاد آیا

یہ وہ باتیں ہیں جن کو سنا بھی نہیں جاتا چہ جائیکہ کہ تفصیل بتائی جائے جو میڈیا دن رات بتاتا رہا۔ یہاں ذکر ضمنی طور پر کیا ہے لیکن طبیعت مکدر ہو گئی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ برائی کے ذکر سے برائی کے بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لوگوں میں اسں کی ترویج ہوتی ہے۔ اے کاش کسی اور طریقے سے اس کی نشان دہی ہو سکتی۔

ایسا نہیں کہ دنیا میں ا ور کہیں کچھ نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے اور بہت بھیانک و اقعات ہوتے ہیں۔ جو حیوانیت کو بھی مات کرتے ہیں۔ مگر فرق یہی ہے کہ وطنِ عزیز کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اللہ کے نام پر بنا اور یہاں مومنین رہتے ہیں۔ پھر اس میں ا ور دوسرے ممالک کے لوگوں کے اخلاق میں کچھ توفرق ہونا چاہیے نا؟

خداکرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو
آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).