سہل پسندی


سنتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب برصغیر پاک و ہند میں ایسا نظام تعلیم رائج تھا جس میں کردار سازی پہ بھرپور توجہ دی جاتی تھی جس میں اخلاق و اطوار کو نکھار کر آدمی کو انسان بنایا جاتا تھا اور تعلیم کا اصل مقصد انسان کی ایسی تربیت کرنا تھا جس کے بعد انسان حقیقی معنوں میں اشرف المخلوقات کے درجے پر فائز ہونے کا اہل بن سکے۔ نیابت کا منصب سنبھالنے کے قابل بن سکے۔ پھر انگریز بہادر نے تجارت کی غرض سے سرزمین برصغیر پر قدم رکھا اور اسے سونے کی چڑیا کہہ کر اپنے قبضے میں کر لیا۔

اس کے بعد انگریز کا نظام تعلیم رائج ہوا جو قطعی وہ نظام تعلیم نہ تھا جو کہ انگریز کے اپنے ملک میں رائج تھا۔ بلکہ اس نظام تعلیم کا مقصد صرف برصغیر کے مسلمانوں اور دیگر تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے عوام کی نظر میں ان کے ہاں پہلے سے رائج نظام تعلیم کو دقیانوسی اور پسماندہ ثابت کر کے ان کو اس سے متنفر کرنا اور احساس کمتری میں مبتلا کرنا تھا اور ایک اہم وجہ برطانوی ہند کے سرکاری دفاتر میں نچلے درجے کے ملازمین مہیا کرنا بھی تھا۔

یوں انگریز نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت برصغیر کی سرزمین کو ہی نہیں بلکہ یہاں کے عوام کے ذہنوں کو بھی تسخیر کر کے انہیں اپنا غلام بنایا اور خوب کُھل کھیلا۔ پھر آخر کار انگریز بہادر تو سرزمین برصغیر سے اپنا قبضہ چھوڑ کر کسی نہ کسی طرح رخصت ہو گیا لیکن یہاں کے لوگوں کے ذہنوں پر ہنوز قابض ہے اور یہ حصار ایسا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجائے کمزور پڑنے کے مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارا نظام تعلیم آج بھی بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ذہنی طور پر غلام اور سہل پسند قوموں کا ہوا کرتا ہے۔

ذہنی طور پر غلام قومیں ہمیشہ تقلید پسند ہوا کرتی ہیں اور اپنے اس فعل پر فخر بھی محسوس کرتی ہیں۔ ان میں جو شخص جتنا زیادہ حاکم قوم کے رنگ میں رنگا ہوا نظر آئے اتنا ہی وہ محکوم قوم کی نظروں میں معزز اور معتبر مانا جاتا ہے۔ ان کو اپنے تشخص، اپنی پہچان کے کھو جانے کا احساس تک نہیں ہوتا کیونکہ ان کی سوچ ان کے فہم کو اس حد تک مفلوج کر دیا گیا ہوتا ہے کہ یہ اچھے اور برے، صحیح اور غلط میں فرق کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔

ان کے صحیح اور غلط کا معیار بھی وہی بن جاتا ہے جو حاکم قوم کا ہوتا ہے۔ ان کی محدود سوچ یہ تک سمجھنے سے قاصر ہوتی ہے کہ چند بنیادی باتوں کے علاوہ کسی ایک کا صحیح سب کے لیے صحیح اور کسی کا غلط ہر ایک کے لیے غلط نہیں ہو سکتا۔ انہیں یہ شعور تک نہیں رہتا کہ دنیا میں اپنی بقا کے لیے اپنی اقدار، اپنے عقائد اور اپنا جداگانہ تشخص کس قدر اہمیت کا حامل ہے۔ یوں آخرکار فنا ایسی قوموں کا مقدر ٹھہرتی ہے کیونکہ اپنا تشخص یہ کھو چکی ہوتی ہیں اور حاکم قوم ان کو اپنے اندر سمونے کے لیے تیار نہیں ہوتی بلکہ کسی ناگوار اور ناپسندیدہ شے کی طرح انہیں دھتکارنے میں ایک پل بھی نہیں لگاتی۔

اپنے نئے راستے بنانا اور نئی منزلیں منتخب کرنا تو دور کی بات ایسی اقوام بنے بنائے راستوں پر بھی صرف اتنا ہی چلتی ہیں جتنا سہولت سے چلا جا سکے کیونکہ مشقت انہیں قبول نہیں ہوتی۔ ہمارا ملک جس کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کو اسلام کے مطابق چلانے کے لیے یہاں بیوروکریسی، مقننہ اور اقتدار میں عالم دین عہدے دار ہوتے۔ ملک کی تجارت مفتیان نے سنبھال رکھی ہوتی۔ صنعت و حرفت میں فقہا آگے ہوتے۔

دفاع ملک و مذہب میں مجاہدین اسلام ہراول دستوں میں دکھائی دیتے لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ عالمِ دین ہوں مفتی یا پھر مولوی وہ ممبر و محراب کو ہی چھوڑ کر زمین پر اترنے کے لیے تیار نہیں۔ پس جتنا مقبول عالم اس کے لیے اتنے ہی وسیع عطیات و وظائف موجود تو پھر اسے کیا پڑی ہے عملی میدان میں اترنے کی۔ ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کا معاملہ ہو یا کسی گستاخ رسول کو سنگسار کرنے یا نظر آتش کرنے کا معاملہ تب بھی یہ زیادہ سے زیادہ تقریریں کر کے عوام کو مشتعل کرتے یا دھرنے دیتے دکھائی دیں گے۔

وظیفوں پہ عیش کرنے والے سہل پسند دین کے ٹھیکے دار اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ اسلام عمل کا دین ہے اگر انہوں نے خود کو قانون سازی کرنے والوں میں شامل ہونے کا اہل ثابت کیا ہوتا تو کس کی مجال تھی کہ ختم نبوت یا دیگر دینی قوانین میں بیجا ترامیم کرتا؟ اگر فوج میں ہوتے تو کس کی مجال تھی کہ پاکستان یا اسلام کو میلی آنکھ سے دیکھتا، صنعت کار ہوتے تو کیسے نہ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ملتی۔

باعمل مسلمان بننا تو دور کی بات یہ تو اقبال کے کہے کے مطابق ”اپدیشک“ بھی نہیں کہ باتوں سے ہی من موہ لیں بلکہ یہ تو ممبر پر چڑھ کر بھی حوروں کے لالچ اور دوزخ کے ڈراوے کے علاوہ مسلمانوں کو کچھ نہیں دے سکتے۔ اپنی سہولت کے لیے مذہب کو محدود کر دیا گیا اور پھر یہی تنگ ذہنی اور بے عملی زندگی کے دیگر معاملات میں بھی حائل ہو کر مسلمان کو تمام شعبوں میں محدود کیے چلی جا رہی ہے۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).