جنگ گروپ نے سینکڑوں ملازمین کو بر طرف کر دیا


پاکستان میڈیا

جنگ گروپ کا موقف معلوم کرنے کے لیے بارہا رابطہ کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں میڈیا کا سب سے بڑا ادارہ سمجھے جانے والے جنگ گروپ نے مبینہ ’مالی بحران‘ کے باعث پشاور، کراچی اور لاہور سے شائع ہونے والے پانچ اخبارات اور دو ایڈیشنز کو بند کر کے تقریباً پانچ سو کے قریب ملازمین کو فارغ کردیا ہے۔

جنگ گروپ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بند ہونے والے اخبارات میں روزنامہ عوام، ڈیلی نیوز، روزنامہ انقلاب، پشاور اور فیصل آباد سے شائع ہونے والے جنگ کے دو ایڈیشنز اور دو ڈمّی اخبارات پاکستان ٹائمز اور وقت شامل ہیں۔

بند ہونے والے سات اخبارات میں سے چار لاہور سے شائع ہو رہے تھے جبکہ دو کراچی اور روزنامہ جنگ کا ایک ایک ایڈیشن پشاور اور فیصل آباد سے شائع ہو رہا تھا۔ ان بند ہونے والے روزناموں میں تین ایوننگر یا شام کے اخبارات شامل ہیں جو گزشتہ کئی برسوں سے کراچی اور لاہور سے شائع ہو رہے تھے۔

جنگ گروپ کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ اس بندش کے باعث مجموعی طور پر پشاور، لاہور، کراچی، فیصل آباد اور کوئٹہ سے تقریباً پانچ سو سے زیادہ ملازمین کو برطرف کیا گیا ہے جن میں صحافیوں کے علاوہ اخباری کارکن بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ سے حکومت کی طرف سے اخبارات کو اشتہارات بند کئے گئے ہیں جبکہ جائیداد کی خرید و فروخت یا ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بھی ڈالر کی قمیت میں بار بار اتار چڑھاؤ کی وجہ سے مندی کا شکار ہے جس کی وجہ سے دونوں جانب سے اشتہارات بند ہیں جس سے بیشتر روزنامے ‘مالی بحران’ کا شکار ہوگئے ہیں۔

اس ضمن میں جنگ گروپ کا موقف معلوم کرنے کے لیے ان کے انتظامیہ سے بارہا رابطے کی کوشش کی گئی اور ان کو پیغام بھی بھیجا گیا لیکن انہوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

پاکستانی میڈیا پر سختی

صحافتی تنظیمیں کا الزام ہے کہ حکومت نے میڈیا اداروں کو کمزور کرنے کےلیے اشتہارات بند کردیے ہیں۔ (فائل فوٹو)

ادھر پشاور میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ایک سینئر صحافی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ تقریباً چھ سال قبل پشاور سے روزنامہ جنگ کا ایڈیشن نکالنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے یہاں پریس لگایا گیا اور درجنوں ملازمین کو بھرتی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پشاور سے اخبار نکالنے کی تمام تیاریاں دو سال پہلے مکمل کرلی گئی تھی لیکن بعض وجوہات کی بناء پر اخبار باقاعدہ طور پر شروع نہیں کیا جاسکا لیکن اس دوران اخبار تجرباتی بنیاد پر نکلتا رہا اور ملازمین بھی کام کرتے رہے۔

ان کے مطابق پشاور میں حالیہ دنوں میں روزنامہ جنگ اور دی نیوز سے تقریباً 90 کے قریب ملازمین کو برطرف کیا گیا، جن میں رپورٹرز، سب ایڈیٹرز اور دیگر اخباری کارکن شامل ہیں۔ برطرف ہونے والے بیشتر ملازمین وہ تھے جن کی تنخواہیں نبستاً کم تھیں۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر فہیم صدیقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلی مرتبہ جنگ گروپ کی جانب سے ملازمین کو ان کی برطرفی کے خط ان کے گھروں کے پتوں پر بھیجے گئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘برطرفی کے لیٹرز میں ملازمین کو کہا گیا ہے کہ ادارے کو ان کی ضرورت نہیں رہی لہذا وہ کل سے دفتر آنے کی زحمت نہ کریں۔’

فہیم صدیقی کے مطابق یہ بھی پہلی مرتبہ معلوم ہوا ہے کہ اخباری مالکان ‘تھرڈ پارٹی معاہدے’ کے تحت اخبارات چلا رہے تھے یعنی ملازمین کو ملنے والی برطرفی کے لیٹر کسی میڈیا گروپ کی جانب سے نہیں بلکہ ایک کمپنی کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب اگر کوئی ملازم اپنی برطرفی عدالت میں چیلنج کرے گا تو انہیں اس اخبار کے مالک کو فریق نہیں بنانا پڑے گا بلکہ اس کمپنی کے خلاف کیس لڑے گا کیونکہ ان کو برطرفی کا لیٹر اس کمپنی کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔

تاہم فہیم صدیقی نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ عدالتیں بھی جانتی ہیں اور حکومت کو بھی علم ہے کہ ملازمین کس نے برطرف کیے ہیں۔

دریں اثناء ملک بھر میں صحافتی تنظیموں کی طرف سے مختلف شہروں میں جنگ گروپ سے نکالے جانے والے صحافیوں اور اخباری ملازمین کی جبری برطرفیوں کے خلاف احتجاج اور مظاہروں کا انعقاد کیا گیا۔

پشاور میں نمائندہ صحافتی تنظیموں، خیبر یونین آف جنرنلسٹس اور پشاور پریس کلب کی طرف سے مشترکہ طور پر پریس کلب کے سامنے اجتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں صحافیوں اور اخباری ملازمین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

خیبر یونین آف جرنلسٹس کے صدر سیف الااسلام سیفی نے بی بی سی کو بتایا کہ پشاور کے صحافیوں نے برطرف ملازمین کی بحالی کے لیے سلسلہ وار احتجاج کا پروگرام بنایا ہے جس کے تحت ملازمین کی بحالی کے لیے نہ صرف عدالت سے رجوع کیا جائے گا بلکہ ان دفاتر کے سامنے احتجاجی کیمپ لگائے جائیں گے جہاں سے ملازمین کو نکالا گیا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ تین مہینوں کے دوران ملک بھر کے اخبارات اور ٹی وی چینلز سے سینکڑوں صحافیوں اور اخباری کارکنوں کو جبری طور پر برطرف کیا گیا ہے۔ صحافتی تنظیمیں الزام لگاتی ہیں کہ موجودہ حکومت نے میڈیا اداروں کو کمزور کرنے کے لیے ان کے اشتہارات بند کر دیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp