کچھ اختر مینگل اور فواد چوہدری کے حق میں


صحافت ایک کڈھب پیشہ ہے۔ جن بلاؤں کو میر سنتے تھے، ان کو اس روزگار میں دیکھا۔ میر نے تو خیر چھوٹی بحر کے مصرعے میں روزگار کے لفظ کو سمندروں کی وسعت بخش دی ہے لیکن اگر کسی عامل صحافی سے پوچھیں تو وہ غریب یہی کہے گا کہ صحافت کا پیشہ نیم روزگار اور بے روزگاری کے معین وقفوں سے عبارت ہے۔ روزگار کی تہمت صحافت پر رکھنا مشکل ہے۔ اس پہ طرہ یہ کہ صحافی کبھی سابق نہیں ہوتا اور رزق کا ثبات محض یہ کہ کسی روز وقت سے پہلے منہ لٹکائے گھر واپس آ جائے تو اہل خانہ بغیر بتائے سمجھ لیتے ہیں کہ یک بینی و دو گوش نکال باہر کئے گئے۔ زور قلم، لفظ کی حرمت اور آزادی اظہار کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، آن کی آن میں شکم کی آگ کا گرسنہ بھیڑیا دروازے پر آن بیٹھا۔ موج بلا یہیں رک جاتی تو شاید شکستہ بجرے کی سلامتی کا کوئی پہلو نکل آتا۔ صحافی کو ایک اور روگ بھی لاحق ہے۔ کم بخت کا ہر لفظ اقتدار کی صف بندی پر رائے دیتا ہے۔ صحافی اقتدار کی کشاکش میں فریق نہیں، محض رائے رکھنے کا مجرم ہے۔ اور یہ جرم ایسا گمبھیر ہے کہ چراغ حسن حسرت یاد آ گئے۔ سوز دروں کی گھات کس خوبی سے بیان کی ہے۔

اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

صحافی حکومت پر تنقید کرے تو ملک دشمن ٹھہرے۔ حکومت کے کسی پہلو کی تحسین کا مرتکب ہو تو خوشامد کا الزام سہے۔ کیا کیجئے، ہمیں تو ہے مشکل سبھی طرح۔ اساتذہ نے اس مشکل کا ایک ہی حل بتایا ہے کہ الزام اور دشنام سے بے نیاز ہو کر وہی لکھو، وہی کہو جسے درست سمجھتے ہو۔ پورے سچ کو بیان کرنا تو خیرتعلی ہو گا، سچ کی مکمل تفہیم ہو بھی کس سے سکی ہے؟ کون ستارے چھو سکتا ہے، رہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے۔ پڑھنے والے کی ذہانت اور دیانت پر بھروسا کرنا چاہیے۔ اخبار کا قاری سیاق و سباق میں خوب سمجھتا ہے کہ حکومت بدلنے سے کس صحافی پر توازن فکر کی خوبیاں کھلتی ہیں۔ حکومت پر مشکل وقت آتے ہی کس کی نگاہ تیز بیں بدعنوانی اور نااہلی کے پردے چاک کرنے پر مامور ہو جاتی ہے۔

درویش بے نشاں طبعاً عقب نشین ہے۔ 1989 سے 1992 کے چار برس قلم کاری کے ابتدائی تجربات تھے۔ دور سے مشاہدہ کرتا تھا۔ میاں نواز شریف تب چشم ناز میں مہ و انجم کا درجہ رکھتے تھے۔ ایسا ایسا قصیدہ نواز شریف کا لکھا گیا کہ خاقانی گنجوی نے سن کر اپنا بستہ لپیٹ لیا ہوتا۔ چشم حیران ان دنوں تماشا کرتی ہے کہ لکھنے والوں کے اسمائے گرامی وہی ہیں، توصیف کا پیرائیہ اظہار بھی مانوس ہے، فرق یہ ہے کہ موضوع سخن بدل گیا ہے۔ اب نواز شریف میں شرافت رہی اور نہ وہ میڈ ان پاکستان ہیں۔ قائد اعظم ثانی بھی اب انہیں کوئی نہیں لکھتا، ان کی خاموشی میں تدبر کے نشان دریافت کرنے والے اب انہیں بے جھجھک ناقابل اشاعت القابات سے یاد کرتے ہیں۔ چرخ گردوں کی اس شپرہ چشمی سے خوف آتا ہے۔ عہد دوراں کے کسی منصب دار کی جائز تعریف کرتے ہوئے بھی مرغان باد نما سے تشابہ کا اندیشہ لاحق ہوتا ہے۔ مگر صاحبان ذی وقار، معاملہ کچھ ایسا آن پڑا ہے کہ آج وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی تعریف کرنا ہے۔ اچھی بات کی ہے تو شکریہ واجب ہے۔ حکومت وقت کا ناقد ہونے کا الزام تو دھل نہیں جائے گا۔ ضمیر البتہ مطمئن ہو گا کہ اختلاف رائے کو عصیبت میں تبدیل نہیں ہونے دیا۔ اس سے پہلے مگر اک حرف حق اہل بلوچستان کے تشکر کا باقی ہے۔

ہم میں سے بہت سوں کو یاد ہے کہ 2013 میں نومنتخب قومی اسمبلی کے اجلاس میں محمود خان اچکزئی نے ایک دبنگ تقریر میں مطالبہ کیا تھا کہ ارکان اسمبلی آئین کی بالادستی اور جمہوریت کے تسلسل سے اپنی وابستگی کا اعلان کریں۔ وطن سے محبت کی یہ پکار ہوا میں تحلیل ہو گئی۔ مخالفت کرنے والوں میں ظفراللہ خان جمالی اور اعجاز الحق شامل تھے۔ قابل تصدیق شواہد تو موجود نہیں ہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ اس تقریر کے بعد محمود خان اچکزئی جیسے مدبر رہنما کا نام استہزا کا استعارہ بن کر رہ گیا۔ ایسے ایسے گوش نم آلود صحافی نے محمود خان پر حرف طعن لکھا جو شاید عبدالصمد خان اچکزئی شہید کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ اب 2018ءکی اسمبلی میں سردار اختر مینگل نے خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کا مطالبہ کر کے محمود خان اچکزئی کی روایت تازہ کر دی ہے۔ سردار اختر مینگل حکومت کے اتحادی ہیں مگر انہوں نے حزب اختلاف کے رکن اسمبلی کے آئینی حق کے لئے آواز اٹھا کے جمہوریت کی لاج رکھی ہے۔ کہنے دیجئے کہ وفاق پاکستان کی چار اکائیوں میں سے بلوچستان نے پاکستان کے ضمیر کا پرچم اٹھا رکھا ہے۔ اہل پاکستان گواہ رہیں کہ بلوچستان کے بظاہر غریب صوبے نے پاکستان کو عبدالصمد اچکزئی، غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر، عبدالحئی بلوچ، محمود اچکزئی، حاصل بزنجو اور ڈاکٹر مالک جیسے جواہر عطا کئے۔ بلوچستان بہادری، خودداری اور وطن دوستی کا استعارہ بن کر سامنے آیا ہے۔ پاکستان سے محبت رکھنے والوں پر اہل بلوچستان سے یک جہتی کا قرض بڑھتا جا رہا ہے۔

فواد چوہدری فقیہ مصلحت بیں نہیں ہیں۔ قومی اسمبلی میں ڈاکٹر رامیش کمار کی قرارداد کا موضوع تو دراصل برادر بزرگ اور ان کے ہمسر صحافی گنجفہ کبیر کا شعبہ تخصص ہے۔ درویش بے نشاں اس بادہ آتش گیر پر رائے زنی کی تاب نہیں رکھتا۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایسی پتے کی باتیں کہیں کہ سننے والوں کے متزلزل اعتماد کو سہارا ملا۔ منجملہ دیگر آرا کے فواد چوہدری نے یہ بھی فرمایا کہ اس ملک کے ’پڑھے لکھے لوگ‘بہت سے موضوعات پر اس لئے خاموشی اختیار کرتے ہیں کہ انتہا پسند عناصر ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ اس سے درست بات کیا کہی جا سکتی تھی۔ فواد چوہدری جیسا جہاندیدہ سیاست دان یقیناً جانتا ہے کہ اشتعال کے آڑھتی اس مفروضہ اتحاد کی آڑ سے حملہ آور ہوتے ہیں جو کچھ حلقوں کی رائے میں ریاست اور قدامت پسند عناصر کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اگر ریاست ایک خاص نقطہ نظر کے حق میں واضح جھکاؤ ظاہر کرتی ہے تو مخالف رائے ناجائز دباؤ میں آ جاتی ہے۔ اس سے تمدنی مکالمے کے لئے مساوی جگہ باقی نہیں بچتی۔ فواد چوہدری نے میڈیا کے لئے سرکاری اشتہارات کے ضمن میں ایک خاص موقف اختیار کر رکھا ہے جس کے کیف و کم سے وہ خود آگاہ ہوں گے۔ گزارش صرف یہ ہے کہ اہل صحافت کو اپنی بات کہنے کے لئے صرف اتنی جگہ عنایت کر دی جائے جتنی فواد چوہدری نے سلیم صافی سے گفتگو میں استعمال کی ہے۔ فواد صاحب کے نشان زدہ ’پڑھے لکھے لوگ‘ صرف انتہا پسند عناصر کے واویلے کی زد میں نہیں بلکہ یورش باد واپسیں ’ان‘ پر چہار سو سے ہے۔ فواد چوہدری کم از کم ایک آدھ دریچہ تو کھول سکتے ہیں۔

بشکریہ روز نامہ جنگ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).