مسلم لیگ (ن) کا ہدف کیا ہے؟


مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے قومی اسمبلی میں ہونے والے ایک اجلاس کے دوران موجودہ حکومت کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملکی معیشت کو سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ انہوں نے یہ بات قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران کہی ہے جہاں اس ماہ کے آخر سے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

جیل سے رہائی کے بعد اگرچہ نواز شریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کے سوگ میں تھے لیکن اس سانحہ کو چار ماہ گزرنے کے باوجود انہوں نے براہ راست سیاسی گفتگو سے پرہیز کیا ہے۔ اس دوران وہ باقاعدگی سے اسلام آباد میں اپنے خلاف نیب عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی پیروی کرتے رہے ہیں لیکن میڈیا کے استفسار پر بھی صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتے رہے ہیں کہ وہ سیاسی بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں یا یہ کہ اگر انہوں نے کوئی بات کی تو بھی میڈیا اسے شائع یا نشر کرنے کے قابل نہیں ہو گا۔ نواز شریف کی خاموشی کے علاوہ ان کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی منہ کو تالا لگایا ہؤا ہے اور پراسرار طور پر ان کا ٹویٹر اکاؤنٹ خاموش ہے ۔حالانکہ ان سے جیل سے رہائی کے بعد ملک میں سیاسی تحریک کی قیادت کرنے کی امید کی جارہی تھی۔

اس وقت ملک میں سیاسی طور سے مشکل صورت حال موجود ہے۔ اپوزیشن کو اگرچہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بھاری نمائندگی حاصل ہے لیکن سیاسی امور میں اپوزیشن کی موجودگی محسوس نہیں کی جاسکتی۔ اس کی ایک وجہ میڈیا پر عائد سنگین پابندیاں اور سیلف سنسر شپ کا نیا ہتھکنڈا بھی ہو سکتا ہے لیکن اپوزیشن اگر اسمبلیوں میں مؤثر کردار ادا کرتی اور اس کے لیڈر اہم امور پر مباحث میں حصہ لینے کے علاوہ حکومت کی غلطیوں پر اسے ٹوکنے اور رہنمائی کرنے کا فرض ادا کرتے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ سیاسی منظر نامہ پر حاوی سناٹے میں کچھ ارتعاش محسوس نہ کیا جاتا۔ اسی قسم کی سیاسی سرگرمی کی وجہ سے ہی لوگوں کو حوصلہ ملتا ہے اور وہ یہ یقین کرنے لگتے ہیں کہ اپوزیشن ان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے کے علاوہ قومی امور کے بارے میں حقیقت حال کو سامنے لانے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن ایک طرف حکومت کے نمائندے روز مرہ بیان بازی اور سیاسی مخالفین کو چور ڈاکو قرار دے کر انہیں جیلوں میں بھرنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن اور خاص طور سے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

پیپلز پارٹی بھی اس حوالے کوئی مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن اسے ایک تو سندھ میں حکومت حاصل ہے، دوسرے وہ اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس کے لیڈروں کی طرف سے اسمبلی کے اندر اور باہر تیکھا لب و لہجہ اختیار کرنے کے آثار ملتے ہیں۔ لیکن نواز شریف کے علاوہ مسلم لیگ (ن) بھی سیاسی مایوسی کی اس تاریکی کو مزید گہرا کرنے کا سبب بنی ہے۔ نواز شریف کی سیاسی خاموشی کے بارے میں ملک کا میڈیا اور تجزیہ نگار بھی مباحث کرکے اور اندازے قائم کرنے کے بعد خاموش ہو چکے ہیں۔ لیکن نواز شریف ابھی تک اپنی خاموشی کا کوئی مناسب جواب دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ نہ انہوں نے اعلان کیاہے کہ وہ اب سیاست سے دست بردار ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور ان سے کسی قسم کی تحریک یا کردار ادا کرنے کی امید نہ کی جائے۔ اور نہ ہی وہ متبادل قومی لیڈر کے طور پر اپنی پارٹی کو متحرک کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس مقصد کے لئے کوشش کی جائے لیکن نواز شریف کی طرف سے پارٹی کو منظم و متحرک کرنے کی کوئی عملی کاوش بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس رویہ کو صرف اپنی اہلیہ کا سوگ یا سیاسی حکمت عملی قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ اسی لئے اس خاموشی سے سازش اور ڈیل تلاش کرنے کی کوششوں کا سراغ لگانے کاسلسلہ جاری رہتا ہے۔

مسلسل خاموش رہنے کے اس دور میں سیاسی حوالے نواز شریف نے جب بھی کوئی بات کی ہے اس میں یہی تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کی موجودہ حکومت خود اپنی ناکامیوں کی وجہ سے عوام میں اپنی مقبولیت سے ہاتھ دھو بیٹھے گی جس کے بعد بڑی اپوزیشن پارٹی کے طور پر ممکنہ طور پر مسلم لیگ (ن) آگے بڑھ کر اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرے گی۔ آج پارٹی کے پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس کے دوران ملکی معیشت اور حکومت کی ناکامی کے حوالے سے نواز شریف کا بیان بھی اسی ذہنیت کا مظہرہے۔ ایک تو اس بیان میں شکست خوردگی اور سیاسی نیم دلی کے تمام عناصر محسوس کئے جاسکتے ہیں ۔ اس کے باوجود اگر کوئی مبصر اس میں نواز شریف یا اپوزیشن کی طرف سے سیاسی تحریک کا کوئی پہلو تلاش کرنے کی کوشش کرتا تو پارلیمنٹ سے باہر نکلتے ہوئے نواز شریف کے پرائیویٹ محافظوں کی طرف سے ایک فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ بہیمانہ سلوک نے اس بیان کا ہی گلا گھونٹ دیا۔ نواز شریف کے بیان سے زیادہ ان کے محافظوں کے طرز عمل نے شریف خاندان اور مسلم لیگ (ن) کی بورژوا ذہنیت کا پردہ فاش کیا ہے ۔ اور میڈیا پر کنٹرول کے اس بھیانک دور میں فواد چوہدری جیسے وزیر اطلاعات کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملا ہے کہ حکومت ’آزادی اظہار‘ پر پورا یقین رکھتی ہے۔

میڈیا کی آزادی پر حکومت کے یقین کا اندازہ تو ملک میں خبروں کی ترسیل میں حائل مشکلوں اور صحافیوں کو برطرفی یا منہ بند رکھنے کی دھمکیوں کی صورت حال سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ ملک کے میڈیا کو یک طرفہ خبروں اور نعروں کی بنیاد پر استوار بیانیہ کا ڈھول پیٹنے پر لگا دیا گیا ہے۔ ملک کے سب بڑے اشاعتی اداروں اور میڈیا ہاؤسز کو سمجھا دیا گیا ہے کہ خبریں اور تبصرے ’قومی مفاد اور ضرورتوں‘ کے مطابق ہی اچھے لگتے ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور جو اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں فوج سے زیادہ حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کے نمائندے کے طور پر سامنے آئے ہیں، تو یہ واضح طور سے کہہ چکے ہیں کہ میڈیا چھے ماہ تک حکومت کی قصیدہ خوانی کا فریضہ ادا کرے تاکہ قوم ترقی کے سفر پر گامزن ہو سکے۔ قصیدے پڑھنے اور خوشامد کرنے سے اگر کوئی ملک ترقی کا راستہ اختیار کرسکتا ہے تو پاکستان اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک شمار ہوتا کیوں کہ اس ملک کی سیاست اور صحافت کاسہ لیسی کے لئے مبالغے اور جھوٹ کی ہر حد عبور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

حکومت نے حال ہی میں شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیر مین بنانے کی تجویز قبول کرلی ہے۔ اسے اپوزیشن اپنی بڑی کامیابی سمجھ رہی ہے لیکن شاہ محمود قریشی کی طرف سے اس اعلان کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت حزب مخالف کے سب لیڈروں نے جس خوشامدانہ لب و لہجہ میں حکومت اور وزیراعظم کی توصیف کی ہے، اس سے تو حکومت کی یہ پسپائی بھی اس کی کامیابی کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اب نواز شریف حکومت کی معاشی پالیسیوں پر مایوسی کا اظہار کرکے ’اپوزیشن لیڈر‘ ہونے کا فرض ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کیا وہ دیانتداری سے یہ اعلان کرسکتے ہیں کہ اس وقت ملک کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ معاشی مسائل طے کرنے کی ذمہ دار تحریک ا نصاف کی حکومت ہے؟

 کیا اس پارٹی کو اقتدار میں لانے اور اس کے بعد اسے ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے والے عناصر اس وقت جمہوریت، بنیادی شہری حقوق، ملک کے مالی مستقبل اور استحکام کے حوالے سے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایک طرف نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) یہ دعویٰ کرتے نہیں تھکتے کہ تحریک انصاف کو ایک سازش کے تحت جتوایا گیا ہے اور اس سال جولائی میں ہونے والے انتخابات میں ملکی تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی تھی۔ لیکن عملی طور سے اس دھاندلی پر بات کرنے اور اس دھاندلی کا سبب بنے والے عوامل اور اداروں کے کردار کو نمایاں کرنے کی بجائے نواز شریف تحریک انصاف کی معاشی ناتجربہ کاری کی نشاندہی کرنا کافی سمجھتے ہیں۔

نواز شریف نے جب جولائی کے انتخابات سے پہلے لندن سے اپنی صاحبزادی کے ہمراہ واپس آکر گرفتار ہونا قبول کیا تھا تو یہ سمجھا جارہا تھاان کی پارٹی ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے پر مبنی بیانیہ کو بنیاد بنا کر انتخاب میں حصہ لے گی تو مسلم لیگ (ن) کو تمام تر دباؤ کے باوجود شکست دینا ممکن نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے شہباز شریف کی قیادت میں پارٹی نے ترقیاتی کاموں اور اپنی خدمات کی روشنی میں ووٹ مانگنے کی کوشش کی اور یہ بھول گئے کہ دنیا کی کسی بھی جمہوریت میں بہترین کارکردگی دکھانے والی سیاسی پارٹی بھی دس برس حکومت میں رہنے کے بعد لوگوں کے دلوں سے اتر جاتی ہے اور اس کی متعدد سیاسی غلطیاں عوام کو کسی نئی پارٹی کو کام کرنے کا موقع دینے پر آمادہ کرتی ہیں۔ یہ حکمت عملی ناکام ہوئی اور مسلم لیگ (ن) کو مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا۔ اب یہ پارٹی اور اس کی قیادت مؤثر حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے سے بھی قاصر دکھائی دیتی ہے۔

نواز شریف نے سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل ہوجانے کے بعد جمہور ی راستے میں اداروں کی رکاوٹوں اور عدالتوں کو غیر جمہوری طاقتوں کا آلہ کار بننے کا طعنہ دیتے ہوئے ’ووٹ کو عزت دو ‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ملک کا جمہوری نظام جب تک غیر سیاسی قوتوں کی اثر و رسوخ سے پاک نہیں ہوگا، اس وقت تک ملک میں جمہوریت کے فروغ اور سیاسی حکومتوں کی کامیابی کا خواب دیکھنا فضول ہوگا۔ کیا نواز شریف اب اپنے ان سب بیانات کو بھول چکے ہیں۔ کیا یہ طے کرلیا گیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کے نام پر رچائے جانے والے ڈرامے میں مسلم لیگ (ن) اب بی ٹیم کا کردار ادا کرنے پر راضی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali