جانا ہمارا گلگت اور رش بری کو چھو آنا


\"aliویسے تو ہم پہاڑوں کی آغوش میں ہی پلے بڑھے تھے لیکن ان پہاڑوں کا تعلق روزمرہ کی مشقت کے ساتھ تھا اور یوں ہمیں بچپن میں یہ کبھی بھی خاص اچھے نہیں لگے۔ جب شہروں کے باسی ہوئے یہ پہاڑ ہمیں بلانے لگے۔ بہت نظر انداز کرنے کی کوشش کی لیکن جب عمر عزیز کے چالیسویں پیڑے میں پہنچے تو ان کی پکار پر لبیک کہا اور پھر انہی کے ہو لئے۔ کچھ دوستوں نے آوارہ گرد کہا تو ہم نے اپنے شوق آوارگی کو سیاحت کا نام دے ڈالا۔

پہاڑوں کے باسیوں کا سارا دارومدار ان ہی پہاڑوں پر ہوتا ہے، ان ہی پہاڑوں پر ان کے مویشی چرتےہیں،وہ یہاں سے لکڑی لاتے ہیں، پتھر لاتے ہیں اور ان کے کھیتوں کا پانی یہی سے آتا ہے۔ ہم چونکہ کچھ سست طبع واقع ہوئے تھے۔ شہروں کی خاک چھاننے کے بعد جب معلوم ہوا کہ پہاڑ نہ صرف اپنے باسیوں بلکہ پورے کرہ عرض کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں جہاں سے پتھر، مٹی، پانی، بیج اور لکڑی ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ حیاتیاتی تنوع یا گوناگونی حیات کا دارومدار بھی ان ہی پہاڑوں پر ہے۔

افسر شاہی کو خیرباد کہہ کر قدرتی وسایل کے پایدار استعمال کےلیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کام کرتے رہے اور گلگت بلتستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے ایک منصوبے میں کام بھی کیا۔ اس دوران نہ صرف پہاڑوں بلکہ دنیا کے کچھ ملکوں میں آوارگی کا شرف بھی حاصل ہوا اور وہاں کے تجربات سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملا۔ گلگت میں روزگار کی کامیابی اور ذرائع آمدن کی عدم دستیابی کی وجہ سے اسلام آباد منتقل ہونا پڑھا اوراب مسکن یہی ہے۔

اسلام آباد کے مکینوں کے لیے مرگلہ کی پہاڑیاں صرف ایک خوب صورت نظارہ ہی نہیں بلکہ کوہ نوردی کا شوق رکھنے والوں کے لیے مکمل سامان آوارگی فراہم کرتی ہیں۔ یہاں چھوٹی بڑی ساٹھ سے زیادہ پگڈنڈیاں ہیں جو مختلف عمر، صلاحیت، ہمت اور شوق رکھنے والوں کے لیے سیاحت، تفریح اور ورزش کا ذریعہ ہیں۔ ہم نے بھی ابتدائی طور پر اپنے دفتر کے ساتھیوں کے ساتھ مرگلہ کے پہاڑوں پر گھومنے پھرنےسے اپنی آوارگی کاآغاز کیا جو چند منٹوں کی ایک تھکا دینے والی مختصر ورزشی سیر سے لے کر کبھی کبھار دن بھر کی پہاڑ کی سیر تک محیط رہتی ہے۔

اس پہاڑی سیر کے دوران بہت سارے اچھے دوست بھی بن گئے جن میں مختلف شہروں اور ملکوں کے رہنے والے لوگ شامل ہیں۔ جب دوست بڑھ گئے اور ان سے رابطے کے لیے ایک وسیلے کی ضرورت پیش آئی تو ہم نے سماجی رابطے کا ایک گروپ بنایا ہے اور اب ہفتہ وار تعطیلات کے دوران مشترکہ سیر و تفریح کے پروگرام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں ہفتہ وار پہاڑی گشت کے علاوہ کبھی کبھار گلیات، آزاد کشمیر، سوات، ناران، کاغان اور مری کے علاوہ گلگت بلتستان میں پہاڑوں میں سیر اب ایک معمول بن چکا ہے۔

دوستوں نے اس دفعہ فیصلہ کیا کہ گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیِ نگر میں واقع زیریں قراقرم کی رش جھیل، جس کو مقامی لوگ رش بری، کہتے ہیں کی سیر کی جائے اور اس لگے ہاتھوں پانچ ہزار دو سو(5200) میٹر اونچی رش چوٹی بھی سر کر لی جائے۔

تصاویر پر کلک کر کے گیلری کھولئے

جرمن حکومت کے امدادی تعاؤن کے ادارے سے وابستہ ہمارے دوست جارج کی غیر متزلزل کاوشوں سے آخرکار جون گیارہ سے اس مہم کا آغاز کیا گیا۔ جارج اور میرے علاوہ میرے شریک کار اور دوست ایاز آصف، سیالکوٹ سے حسن مبارک خواجہ، امریکہ میں مقیم پاکستانی امین سکھیرا، لندن میں مقیم عدنان پاشا صدیقی، وایٔس آف امریکہ پاکستان اور افغانستان کی بیورو چیف عائشہ تنظیم اور وال اسٹریٹ جرنل کے پاکستان میں نمائندہ سعید شاہ پر مشتمل آٹھ رکنی گروپ اس مہم کے لیئےتیار ہو گیا۔ مہم کے انتظامات کو گلگت کے پاس تینوں پہاڑی سلسلوں یعنی قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش کے سنگم میں واقع گاؤں بونجی کے سپوت نجیب احمد خان کے سپرد کیا جو اس طرح کے مہمات اور دیگر سیاحت و تفریح کے انتظام و انصرام میں مقبول ہیں۔

حتمی تاریخ طے ہونے کے بعد ہم نے ہوائی جہاز کی نشستیں بک کروا دیں اور مقررہ تاریخ کو سفر کا آغاز کیا۔ بد قسمتی سے موسم کے خراب ہونے کی وجہ سے اسلام آباد سے دن بھر کر جہاز نے مفت کی ایک سیر کروانے کے بعد دوبارہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر مسافروں کو اتاردیا اور ہمارے گروپ نے زمینی راستے سے اپنا سفر شروع کیا۔

 دریائے سندھ کے کنارے بشام میں رات گزارنے کے بعد اگلے دن دو بجے ہم گلگت پہنچے جہاں دنیور میں تازہ اور خستہ خوبانیوں کی ضیافت کے بعد ہم ساڑھے تین بجے غلمت نگر میں راکاپوشی ویو پوائنٹ پہنچ گئے جہاں مقامی سوپ ڈوڈو کے علاوہ کھانے اور بعد میں مین تازہ تازہ چیری سے ہماری تواضع کی گئی۔ ہمارے کچھ دوستوں نے تو ایسی تازہ چیری اور ڈوڈو کا سوپ زندگی میں پہلی مرتبہ چکھا تھا، وہ تو جیسے وجد میں آگئے۔

راکاپوشی دنیا کے خوبصورت ترین پہاڑوں میں سے ایک ہونے کے علاوہ اپنی 7788 میٹر (سات ہزار سات سو اٹھاسی میٹر) کی بلندی کے ساتھ دنیا کی ستایٔسویں بلند ترین، پاکستان میں بارویں بلند ترین اور زیریں قراقرم کی پہلی اونچی چوٹی بھی ہے۔ راکاپوشی شاہراہ قراقرم پر واقع اس ویو پوایٔنٹ سے اپنے سر سے لیکر دامن تک مکمل نظر آجانے والی اس بلندی کی چوٹی ہے جسے ہر کوئی اپنی گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر دیکھ سکتا ہے۔ وگرنہ اس بلندی کے کسی پہاڑ کو اس طرح دیکھنے کے لیے کئی دنوں کی نہیں تو کئی گھنٹوں کی پیدل مسافت ضرور طے کرنی پڑتی ہے اور یہ ہر من چلے کے کی بس کی بات نہیں۔

یہاں سیاحوں اور مسافروں کا ہر وقت جم غفیر رہتا ہے۔ موبائل کیمروں سے سیلفیاں لیتے نوجوان یہاں ہر وقت اور ہر طرف دکھائی دیتے ہیں۔ مقامی لوگ مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔ یہاں سے بھی راکاپوشی کے دامن تک ایک پگڈنڈی نکلتی ہے جو عمودی ہونے کی وجہ سے چڑھائی میں مشکل نظر آتی ہے۔

راکاپوشی ویو پوایٔنٹ میں کھانے اور تومورو کی چائے کے بعد ہم پریوں کے دیس ہنزہ روانہ ہوئےاور شام ڈھلے باز کے گھونسلے یعنی ایگلز نیسٹ میں پہنچے جہاں ہمیں اسی گھونسلے میں شب بسری کرنا تھی۔ ایگلز نیسٹ کریم آباد ہنزہ کے گاؤں دویکر کے ایک ایسے انچے مقام پر بنایا گیا ہوٹل ہے جہاں باز گھونسلہ بنایا کرتے تھے۔ ویسے ہنزہ کریم آباد بھی دنیا کا واحد مقام ہے جہاں پر چھ سے سات ہزار میٹر اونچی پانچ چوٹیاں بیک وقت آپ کو اپنی گاڑی کی سیٹ اور گھر، ہوٹل کی چھت یا سڑک سے نظر آجاتی ہیں ورنہ اس بلندی کی پانچ چوٹیوں کو ایک ساتھ دیکھنے کےلیے عام طور پر کئی دنوں کی مسافت درکار ہوتی ہے جو ایک بار پھر کہوں گا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

اس ہوٹل کے کمروں سے وادی ہنزہ اور نگر کے گاؤں، دریاؤں، نالوں کے علاوہ راکاپوشی، دیران کی چوٹی، التر کی چوٹیاں،لیڈی فنگر اور کچھ اونچائی سے سونے رنگی چوٹی یعنی گولڈن پیک بھی نظر آ جاتی ہے۔ چاندنی راتوں میں یہاں کا نظارہ انتہائی پر کیف ہوتا ہے۔ جب سفید چادر اوڑھے آسمان کو چومتے ہوئے پہاڑ چاند کی دودھیا روشنی میں چمکتے ہیں اور وادی کی گہرائی میں دریا چاند کی دودھیا روشنی میں نہا کر دودھ کی بہشتی نہر بن جاتا ہے۔ لگتا ہے سیب، خوبانی، ناشپاتی، چیری اور انواع اقسام کے پھلوں کے باغات کی یہ وادی سے ہی جنت کا تصور لیا گیا ہوگا۔

رات دیر تک چاند، تاروں، برف پوش پہاڑوں اور وادیوں کے پر کیف نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے بعد صبح مقامی طور پر گھر میں تیار کئےجام اور شہد کے ناشتے کے بعد ہم وادی نگر کے گاؤں ہوپر جانے کے لئےتیار تھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں سے آگے پہاڑوں میں ہمارے طویل سفر کا آغاز ہونا تھا۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments