حیدرآباد کا میراں اسکول، وزیر تعلیم کی بیٹی اور میرا بچپن


میرے کانوں تک جب یہ خبر پہنچی کہ سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ نے اپنی بیٹی کو حیدرآباد کے سرکاری میراں اسکول میں داخلہ دلوایا ہے تو میرے ذہن کے دریچوں میں میرے بچپن کے وہ دن لوٹ آئے، جب میں اسی اسکول کی طالبہ تھی۔ میراں اسکول مجھ سمیت حیدرآباد کی کئی لڑکیوں کا اسکول رہا ہے۔  ایک ایسا اسکول جس کا معیار تعلیم اس شہر کی پہچان رہا ہے۔

مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسکول سے رخصت ہونے کے بعد کبھی موقع ہی نہیں ملا کہ اس اسکول کو پھر دیکھا جائے ایک ایسا اسکول جو کہ برصغیر کی تقسیم سے قبل قائم کیا گیا تھا اور یہ اس اسکول کی ایک خاص بات ہے کہ آج بھی یہ اسی طرح شعبہ تعلیم میں اپنے حصے کا کام کر رہا ہے۔

اس بار کسی وزیر تعلیم کی بیٹی کی سرکاری اسکول میں داخلہ کی خبر نے مجھے اپنے اسکول کی جانب جانے پر مجبور کر دیا، شاید یہ اس اسکول سے قائم ہونے والے رشتے کا اثر تھا کہ میں خود کو روک نہ پائی اور میراں اسکول کی جانب نکل پڑی۔ جہاں میری ملاقات اسکول کی پرنسپل سے ہوئی، جوکہ اس اسکول کے انتظامی معاملات کافی بہتر انداز سے سنبھال رہی ہیں۔

میراں اسکول حیدرآباد شہر کا ایک بڑا اسکول ہے جہاں آج بھی لاتعداد بچیاں تعلیم کی زیور سے فیضیاب ہو رہی ہیں۔  یہ اسکول صرف حیدرآباد کا ہی نہیں بلکہ پورے سندھ کا ایک بہت بڑا اور معیاری اسکول ہے۔

ویسے تو حیدرآباد میں اسکول تو بہت ہیں پر یہ اسکول اپنی ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔  اس اسکول کی بنیاد ڈالنے والے شاعر، مصنف، فلسفی، سادھو ٹی ایل واسوانی تھے، جو حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔  سادھو ٹی ایل واسوانی سندھ کے ایک بہت بڑے صوفی، اسکالر، تعلیم دان اور شاعر تھے۔  ان اصل نام تھانور داس لیلام رام واسوانی تھا۔ وہ 25 نومبر 1879 میں حیدرآباد کے واسوانی گھرانے میں پیدا ہوئے۔  سادھو صاحب اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے نوجوانوں کے لئے فلاحی کام کرنے لگے جن میں وہ صحت اور تعلیم پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔

 سادھو صاحب نے حیدرآباد میں بھی کافی فلاحی اور تعلیمی ادارے قائم کیے جس کو ساری دنیا میں میراں موومنٹ ان ایجوکیشن کہا گیا جس کا بنیادی مقصد جدید سائنسی تعلیم و تربیت سے ناتا جوڑنا تھا۔ ہیر آباد حیدرآباد میں قائم کیا گیا، سینٹ میران اسکول اس کی زندہ مثال ہے، جہاں بچوں کی سائنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار کی بناوٹ اور دل میں خلوص و قربانی کا جذبہ بیدار کیا جاتا تھا۔ اس تحریک نے کتنے ہی تعلیمی، سماجی اور فلاح و بہبود کے اداروں کو جنم دیا۔

 سادھو صاحب خواتین کی تعلیم میں بہت دلچسپی رکھتے تھے، ان کی فلاح و بہبود کے کام انسانیت کے لئے غنیمت تھے۔  انہوں نے میراں اسکول 1930 میں میرا بائی کے نام سے منسوب کرکے تعمیر کروایا جو ایک شاعرہ تھیں۔  جن کے بھجن بہت مشہور تھے۔  وہ اس وقت خواتین کی تعلیم کے لئے سوچتے تھے تاکہ سندھ میں زیادہ سے زیادہ خواتین تعلیم یافتہ ہوں۔  اس لئے انہوں نے میرا آشرم بنوایا جس میں موسیقی کے ذریعے بچیوں کو تعلیم دی جاتی تھی، جہاں بھجن اور صوفیانہ کلام شامل ہوتے تھے۔

میراں بائی کی سریلی آواز اور سندر گیت سے ہر کوئی واقف تھا، ان کی شاعری میں دل کا درد شامل تھا۔ میرابائی 1504 میں جودھ پور کے کڑکی گاؤں میں پیدا ہوئیں۔

ایک روایت کے مطابق ایک دن محل کے آگے ایک بارات گزری، سب لوگ بارات دیکھنے لگے اور مہارانی کرشن کی مورتی کی پوجا کے لئے مندر گئیں اور ان کے ساتھ چھوٹی رانی بھی گئیں۔  اس وقت چھوٹی رانی نے پوچھا کہ ماں!  میرا پتی کون ہے؟ مہارانی نے ہنسی مذاق میں مورتی کی طرف اشارہ کیا کہ تمہارا پتی شری کرشن ہیں اور راجکماری اسی دن سے کرشن سے والہانہ محبت کرنے لگیں اور کرشن کو من کے مندر کا دیوتا بنادیا۔ ان کی ہر رگ میں کرشن سما گیا۔

مگر یہ سلسلہ آج تک بھی جاری ہے۔  میرا اسکول اس وقت سندھ میں موجود عامل برادری کی جانب سے تعمیر کیا گیا تھا۔ آج تک اس اسکول نے کئی ذہنوں کی آبیاری کی ہے۔  جس کی وجہ سے سندھ میں عورتوں کی تعلیم میں اس اسکول کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

سابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان حیدرآباد اور پروڈیوسر نصیر مرزا کا کہنا ہے کہ ”تقسیم سے قبل ہندو عامل برادری نہ صرف تعلیم کے معاملے میں سنجیدہ تھی بلکہ وہ فلاح و بہبود کے کام میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ اس زمانے میں ایک مشن کے تحت عامل برادری میں حیدرآباد میں تعلیمی ادارے بنوائے۔  میراں اسکول بھی اسی مشن کا ایک حصہ تھا۔ جہاں پر لڑکیوں کو موسیقی اور سنگیت بھی سکھایا جاتا تھا۔ یہاں میراں بائی کے بھجن گائے جاتے تھے۔  تاکہ اس زمانے کے طالبات کی دلچسپی بڑھے اور وہ بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کر سکیں۔ “

تقسیم کے زمانے سے قبل میراں اسکول میں نہ صرف بچوں کو سائنسی تعلیم دی جاتی تھی بلکہ مذہبی اور روحانی تربیت بھی کی جاتی تھی۔ وہی سلسلہ آج تک جاری ہے۔  اس طرح بچوں کی اخلاقی تربیت میں بھی اسکول اور اسکول کے اساتذہ کا اہم کردار ہے۔  اسکول کے اساتذہ بچوں کے ساتھ رحمدلی اور دیانت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔  ان کو دل سے پڑھاتے اور ان کا خیال رکھتے ہیں۔

یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو دیگر سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے کے لئے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس ضمن میں اہم کردار اساتذہ ہی نبھاتے ہیں۔  یہاں نعت مقابلہ، تقریری مقابلہ اور ہر دن پر ایک مخصوص فنکشن کیا جاتا ہے تاکہ بچوں کی چھپی صلاحیتں اجاگر ہوں۔

اسکول میں ایک خوبصورت اور بہترین ہال ہے جہاں یہ تمام تر پروگرام سر انجام دیے اسمبلی کے لئے باہر ایک بہترین بہت بڑا گراؤنڈ ہے جہاں تمام بچیاں قطاریں بناکر کھڑی رہتیں ہیں اور پورا ہجوم اس گراؤند میں بہ آسانی سما جاتا ہے۔  اس کے علاوہ یہاں دو بڑے باغ ہیں اور کھیل کا ایک میدان بھی ہے، جہاں بچوں کو کھیل کود کے پروگرا م بھی کرائے جاتے ہیں اور ہر کلاس کے ساتھ ایک مخصوص لائبریری بنائی ہوئی ہے جہاں ایک سے ایک بہترین کتاب موجود ہے۔

نصاب کے علاوہ اور بھی بہت سے موضوعات پر کتابیں اس لائبریری کی زینت بنی رہتی ہیں۔  اسکول کی عمارت میں ایک خوبصورت ڈرائنگ روم ہال بھی ہے۔  اس ڈرائنگ ہال میں بچوں کو ان کی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا بھرپور موقع ملتا ہے۔  اس میں بہت خوبصورت فن پارے اور ہاتھ سے بنائی چیزوں کے شاہکار موجود ہیں۔  چھٹی کلاس سے آٹھویں کلاس تک بچوں کا ا یک پیریڈ ڈرائنگ کا بھی ہوتا ہے جہاں بچے ڈرائنگ سیکھتے ہیں اور مختلف رنگوں سے بہل کر تصوریں میں رنگ بھرتے ہیں اور نونہال فن پارے بناتے ہیں۔  اس کے علاوہ یہاں ہوم اکنامکس کا بھی ایک بہت بڑا ہال ہے۔  جہاں بچیوں کو سلائی کڑھائی اور ہنر سکھایا جاتا ہے۔  اس ہال میں وہ تمام سہولیات موجود ہیں جو کسی ہنر سیکھنے کے لئے کام آتی ہیں جیسا کہ مشین، سلائی کڑھائی اور گھریلوں مصنوعات میں بنائی جانے والی اشیاء وغیرہ۔

یہاں پرائمری سیکشن الگ اور سکینڈری سیکشن الگ ہے۔  پرائمری سیکشن میں بچوں کے لئے دیواروں پر خوبصورت نظمیں اور فن پارے موجود ہیں اور ان کا دل بہلانے کے لئے کچھ دیواروں پر کارٹون بھی بنائے گئے ہیں۔  پرائمری سیکشن کے اندر دیواریں تمام بہترین اور خوبصورت بلڈنگ اور کلاسیں بنائی ہوئی ہیں اور سیکنڈری سیکشن میں بھی الگ الگ سیکشن بنائے ہوئے ہیں۔  اس اسکول کی بہترین بات یہ ہے کہ یہاں اردو، سندھی اور انگریزی میڈیم موجود ہیں جب بچہ داخلہ لینے آتا ہے تو اس کے معیار اور قابلیت کو دیکھ کر اس کا داخلہ اسی سیکشن میں کرادیا جاتا ہے۔

یہاں سائنس لیبارٹری کے علاوہ کمپیوٹر لیب بھی موجود ہیں جہاں بچوں کو ایک مقرر ہ وقت کے لئے بٹھایا جاتا ہے۔

سندھ میں اکثر ہمیں سرکاری سطح اسکولوں کی حالت بہت خستہ نظر آتی ہے، بہت سے اسکول ایسے ہیں جہاں استاد تو ہیں مگر فرنیچر نہیں ہے یا سب چیزیں میسر ہیں تو اساتذہ غیر حاضر ملتے ہیں لیکن میراں اسکول کو دیکھ کر اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ایک سرکاری ادارہ ہے۔  یہاں کے اساتذہ، یہاں کا معیار اور نظم ضبط کو دیکھ کر حیرت سی ہوتی ہے۔  اگر دیگر ادارے بھی ایسے ہی معیار کے ساتھ تعلیم کو فروغ دیں تو سندھ میں تعلیمی فقدان سے نمٹا جا سکتا ہے۔

سندھ کے وزیر تعلیم سردار شاہ نے اپنی بیٹی کیف الوریٰ، بھتیجی اور ایک ملازمہ کا داخلہ بھی اس اسکول سے کروایا ہے۔  وہ اگر چاہتے تو حیدرآباد کے کسی بھی مہنگے ترین اسکول میں ان کا داخلہ کر اسکتے تھے لیکن انہوں نے اسی اسکول کا انتخاب کیا کیونکہ یہ اسکول ان ہزاروں نجی اسکولوں سے بہتر ہے جن کی تعلیم صرف کاروبار سے شروع ہوکر کاروبار پر ختم ہوتی ہے۔  ہمارے ہاں اب تعلیم کا معیار یہ ہے کہ دیگر زبانیں تو چھوڑیں بچے اپنی مادری زبان تک ٹھیک طرح بول نہیں پاتے، نہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی لکھ سکتے ہیں۔

اسکول کی عالیشان عمارات، بہترین یونیفارم، بہترین کتابوں سے تعلیم نہیں حاصل کی جاتی بلکہ تعلیم اساتذہ اور طالب علموں کے بیچ مضبوط رشتے کا نام ہے۔

اس روز میں نے میراں اسکول کا ایک ایک کونہ گھوم کر دیکھا، میں ان بچیوں میں نے اپنے بچپن کو تلاش کیا، جوکہ ایک ایسی یادگار عمارت کا حصہ بن چکی ہیں جس کا مقصد سندھ میں تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

صدف شیخ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صدف شیخ

صدف شیخ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہیں سندھی اور اردو رسائل و اخبارات میں کالمز لکھنا پسند ہے۔

sadaf-shaikh has 11 posts and counting.See all posts by sadaf-shaikh