عربی زبان کی وسعت، ہمہ گیریت اور فہرست لغات


عربی زبان دنیا کی ان چھ زبانوں ( انگریزی، عربی، سپینی، چینی، فرانسیسی، روسی) میں سے ایک ہے جنہیں ان کی وسعت اور ہمہ گیریت کی بنا پر اقوام متحدہ نے تسلیم کیا ہے، سال کی مختلف دنوں میں ان کا دن منانے کا اہتمام کرتا ہے اور اسی سلسلے میں اور ہر سال 18 دسمبر کو یوم عربی مناتا ہے۔

عربی زبان کی حیران کن وسعت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اس میں ایک ایک چیز کے لئے درجنوں، سینکڑوں بلکہ ہزاروں نام پائے جاتے ہیں، جیسے :

پتھر کے 70 نام،
شہد کے لئے 80 نام،
سانپ کے لئے 200 نام،
شیر کے لئے 500 نام،
اونٹ کے لئے 1000 نام،
تلوار اور مصیبت کے لئے 4000 نام ہیں۔

اوائل اسلام کی فتوحات نے جہاں دنیا کا جغرافیہ بدل ڈالا تو دوسری طرف متعدد ممالک کی زبانیں بھی بدل ڈالیں، اس سے پہلے مصر میں قبطی زبان، شام میں رومی زبان، عراق و خراسان میں فارسی زبان، اور یورپین ممالک میں بربری زبانیں رائج تھیں، ان ممالک میں اسلام پہنچا تو کچھ عرصے ہی میں ان ممالک کی زبانیں اس طرح بدل گئیں کہ ملکی زبانوں کا نام ونشان نہ رہا۔

عربی زبان کی اسی ہمہ گیریت سے حیران ہوکر یورپ کے مشہور دانشور ڈاکٹر گستاؤلی بان نے لکھا ہے کہ

”یہ زبان ممالک اسلامی میں اس درجہ پھیل گئی کہ اس نے یہاں کی قدیم زبانوں یعنی سریانی، قبطی، یونانی، بربری وغیرہ کی جگہ لے لی۔ ایران میں بھی ایک مدت تک عربی زبان قائم رہی اور اگرچہ اس کے بعد زبان فارسی کی تجدید ہوئی لیکن اس وقت تک علماء کی تحریریں اسی زبان میں ہوتی تھیں۔ ایران کے تمام علوم و مذاہب کی کتابیں عربی ہی میں لکھی گئی ہیں۔ ایشیا کے اس خطہ میں عربی زبان کی وہی حالت ہے جو قرون وسطی میں لاطینی زبان کی حالت یورپ میں تھی۔ ترکوں نے بھی جنہوں نے عربوں کے ملک فتح کیے انہی کی طرز تحریر اختیار کر لی اور اس وقت تک ترکوں کے ملک میں کم استعداد لوگ بھی قرآن کو بخوبی سمجھ لیتے ہیں“۔

ظاہر ہے کہ ایسی وسیع اور ہمہ گیر زبان کی تفہیم و تشریح کے لئے وسیع پیمانے پر علم اللغت کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ لوگوں کو اس کے فہم میں آسانی ہو، کیونکہ زبانوں کی ترویج و تفہیم اور تحفظ و ارتقاء میں لغت نویسی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ چنانچہ علماء اسلام نے اس عنوان پر بھی بھرپور توجہ دی، انہی کی علمی عرق ریزی کا نتیجہ ہے کہ آج عربی زبان لغت نگاری کے ایک منفرد اور شاندار تاریخی ورثے سے مالا مال۔ یاد رہے کہ زمانہ جاہلیت لغت نویسی کے علمی سرمایے سے خالی نظر آتا ہے۔ عربی میں لغت نگاری کے آغاز کا سہرا مسلمانوں کے سر جاتا ہے۔

عربی زبان کے عالمی دن 18 دسمبر کی مناسبت سے ﺫوق عربیت سے آشنا حضرات کی خدمت میں لغت عربی کے موضوع پر چند قدیم کتابوں کی فہرست زمانی ترتیب کے ساتھ پیش کی جاتی ہے :

( 1 ) کتاب العین، خلیل بن احمد فراھیدی رحمہ اللہ (وفات 170 یا 175 ہ۔ بمطابق 887 ء) ۔
( 2 ) کتاب المفاخر، مفضل بن سلمہ (وفات 211 ہ، 846 ء)
( 3 ) الجمھرۃ، ابوبکر محمد بن حسن (وفات 321 ہ، 933 ء) ۔

( 4 ) البارع، دس ہزار صفحات پر مشتمل۔ ابو علی القالی، اسماعیل بن قاسم بغدادی (وفات 356 ہ، 977 ء) ۔
( 5 ) المحیط، 10 جلد۔ صاحب بن عباد وزیر۔ (وفات 385 ہ، 996 ء) ۔
( 6 ) تہذیب اللغۃ، 10 جلد۔ ابو منصور محمد بن احمد الازھری (وفات 370 ہ، 981 ء) ۔
( 7 ) مجمل، احمد بن فارس قزوینی (وفات 393 ہ، 1006 ء) ۔

( 8 ) تاج اللغۃ۔ (معروف بہ الصحاح) ۔ ابو نصر اسماعیل بن حماد الجوھری (وفات 395 ہ، 1008 ء) ۔
( 9 ) الجامع، ابو عبد اللہ محمد بن جعفر قیروانی (وفات 412 ہ۔ 1022 ء) ۔
( 10 ) اساس البلاغۃ، دو جلد۔ زمخشری۔ محمود بن عمر جار اللہ زمخشری (وفات 583 ہ، 1146 ء) ۔

( 11 ) الموعب، تمام بن غالب (وفات 436 ہ، 1047 ء) ۔
( 12 ) الایک والغصون، سو جلد۔ ابو العلا معری (وفات 1057 ء) ۔
( 13 ) المحکم والمحیط الاعظم، بارہ جلد۔ ابو الحسن علی بن اسماعیل (نابینا) ۔ (وفات 458 ہ، 1066 ء) ۔

( 14 ) المخصص، 20 جلد۔ ابن سیدہ (وفات 458 ہ، 1066 ء) ۔
( 15 ) المعرب، ابو منصور جوالیقی (وفات 537 ہ۔ 1145 ء
( 16 ) نزھۃ الانفس، محمد بن علی عراقی (وفات 558 ہ۔ 1166 ء) ۔
( 17 ) اقناع، ناصر الدین مطرﺫی (وفات 1214 ء)

( 18 ) لسان العرب، 20 جلد۔ جمال الدین بن محمد بن مکرم بن منظور الافریقی۔ (وفات 711 ہ، 1312 ء) ۔
( 19 ) القاموس، چار جلد۔ مجد الدین ابو طاہر محمد بن یعقوب فیروز آبادی (وفات 814 ہ، 1414 ء) ۔
( 20 ) تاج العروس، 24 جلد الزبیدی۔ سید محمد بن محمد واسطی معروف سید مرتضی زبیدی (وفات 1205 ہ، 1791 ء) ۔

حوالہ جات:

( 1 ) ۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ ج 14 ص 210
( 2 ) ۔ یورپ پر اسلام کے احسان ص 255۔
( 3 ) کشکول، مفتی اعظم محمد شفیع، ص 83، 276۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).