اقبال ایک وکیل! مگر کس کا؟


میٹرک میں اقبال کی نظمیں شکوہ اور جواب شکوہ پڑھیں تو وہ اشعار جن میں اقبال مسلمانوں کے کارنامے گنواتے ہیں دل کو بہت بھاتے تھے مثلاً بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے یا محمود و ایاز کے عین لڑائی میں ایک ہی صف میں کھڑے ہوجانے والا شعر یا پھر یورپ کے کلیساؤں میں اذانیں دینے اور تلواروں کی چھاؤں میں کلمہ پڑھنے کا بیان دل کو بہت لبھاتا تھا مگر اغیار کے کاشانوں پر خدا کی رحمتوں کے نزول کا ذکر پڑھتے ہوئے ڈر بھی جاتے تھے۔ اسی طرح ”جواب شکوہ“ میں جوہر قابل اور آدم کی تعمیر کے لیے اہل گل کی کمیابی، یا ڈھونڈنے والوں کو نئی دنیا کی عطا کا بیان اچھا لگتا تھا۔

خدا کا شکر ہے ہمارے اردو کے استاد نے درس کے دوران ”کئی“ کے ایک شاہی خاندان ہونے کا ذکرکر دیا تھا جو ہمارے لاشعور میں کہیں محفوظ ہوگیا ورنہ ہم بھی آج تک کئی کو ”اردو زدہ“ پنجابی یا ”پنجابی زدہ“ اردو کا کئی ہی سمجھ کر مزا لے رہے ہوتے۔ اسی طرح دینداری اور ملت بیضا کے غربا کے دم سے زندہ ہونے اور واعظ قوم کی پختہ خیالی اور اذان میں روح بلالی، فلسفے میں تلقین غزالی کے ناپید ہونے کا تذکرہ۔ وجہ ان اشعار کو پسند کرنے کی صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے سے دماغ کو یہ چیزیں آسانی سے سمجھ آجاتی تھیں اور جب تک انسان کو کسی چیز کی سمجھ نہ آئے نہ تو اس کو پڑھ کے مزا آتا ہے اور نہ ہی پڑھنے کو دل کرتا ہے۔

تقریباً دو سال پہلے کی بات ہے کہ لیپ ٹاپ پر بیک گراؤنڈ میں غزلیں چل رہی تھیں اور آٹوپلے کا آپشن آن تھا۔ قوالی ختم ہوئی اور بہت نرم و نازک ڈھول کی تھاپ اور کچھ سلو سا میوزک شروع ہوا تو دماغ کے نیوران آنکھوں سے ڈائیورٹ ہو کر کانوں کی طرف متوجہ ہوئے۔

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے گردوں پہ نظر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گرو سرکش و چالاک میرا
آسماں چیر گیا نالہ ء بے باک میرا

یہ نصرت فتح علی خاں تھے اور لاثانی جواب شکوہ کو اپنی لافانی آواز کا زیور پہنا کر ناقابل بیان حسن عطا فرما رہے تھے۔ جو کام ہو رہا تھا بیک گراؤنڈ میں چلا گیا اور ہمہ تن گوش نصرت کو سننے لگے۔

پیر گردوں نے کہا سن کے کہیں ہے کوئی
بولے سیارے سر عرش بریں ہے کوئی

چاند کہتا تھا نہیں اہل زمیں ہے کوئی
کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
مجھ کو جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

اللہ تعالی کی عظیم ترین مخلوقات کے انسان کے ادراک نہ کر سکنے کا بیان دل کو بہت لبھایا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے ہمیں انسان بنا کر لامحدود شرف عطا کیا ہے۔

تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا

تا سر عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

غافل آداب سے سکان زمیں کیسے ہیں
شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں!

فرشتوں کے اس تبصرے کو، کہ قرآن کے مطابق انہوں نے آدم کی تخلیق کے فیصلے پر حیران ہو کر اپنی خوبیاں بیان کی تھیں، بڑے مزے سے سنا۔ چشم تصور نے ان کو حیران پریشان دیکھا، انسان کی عرش تک پہنچ، خاک کی چٹکی کی پرواز، پستی کے مکینوں کی شوخی و گستاخی اور مروجہ آداب سے غفلت پر حیرت دیدنی تھی، میں جواب شکوہ کے سحر میں جھوم گیا اور ان ”ٹیچرز“ کی عقل و دانش کا نوحہ پڑھا جو اپنے ”غیرمعمولی لیکچرز“ میں بچوں کو بتاتے ہیں کہ اقبال کوئی بڑا شاعر نہیں تھا۔

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
تھا جو مسجود ملائک یہ وہی آدم ہے

عالم کیف ہے دانائے رموز کم ہے
ہا ں مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

فرشتے اپنا تبصرہ جاری رکھتے ہیں، انسان کی شوخی سے پریشان ہیں اور اس آدم کو یاد کرتے ہیں جس کو کبھی سجدہ کیا تھا۔ انسان کے زیادہ سے زیادہ کے حصول کی خاطر عقل و دانش کا دامن نہ سنبھالنے اور کمیابی کے راز اور عجز و انکساری کے جادو سے لاعلمی کو بیان کر کے خوش ہوتے ہیں۔ انسانوں کی قوت گویائی پر بات کرنے کا سلیقہ نہ ہونے کے باوجود ناز کرنے پر طنز کرتے ہیں جو اس تبصرے کو مزید سحر کن بناتا ہے۔

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ تیرا
اشک بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ تیرا

آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ تیرا
کس قدر شوخ زباں ہے دل دیوانہ تیرا

شکر شکوکے کو کیا حسن ادا سے تو نے
ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے

خدائے بزرگ و بر تر کی طرف سے قول فیصل آتا ہے، کہ کسی بھی چیز کو پیدا کرنے والا ہی اس کے اسرار و رموز کو جانتا ہے، انسان کے حسن گفتار کی تعریف ہوتی ہے جیسا کہ سورہ الرحمن میں بھی ہے کہ ”انسان کو پیدا کیا۔ اور اسے بیان کرنے کا علم سکھایا“ کہ انسان کو پیدا کرنا اور اسے بولنا سکھا نا گویا یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔

” ہم تو مائل بہ کرم ہیں۔ “

ویڈیو کو پھر شروع سے شروع کر دیا کہ اپنی برائیاں اور خامیاں کون سنتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن جواب شکوہ بس یہیں تک سنتا ہوں آگے سننے کی ہمت نہیں پڑتی۔

کچھ عرصہ قبل کسی نے انسٹاگرام پر ایک وڈیو شیئر کی ہوئی تھی، سحرکن میوزک جادوئی آواز
شب آفریدی، شمع آفریدم
خاک آفریدی

نیچے تبصروں میں لکھا ہوا تھا کہ شعر ”محمد اقبال“ کے ہیں اور ان کا انگلش اور ٹرکش میں ترجمہ دیا ہوا تھا۔ جسے پڑھ کے اپنے فارسی سے نابلد ہونے کا احساس گہرا ہوگیا اور پوری نظم کی تلاش کے لیے انٹر نیٹ کھنگالنا شروع کر دیا اور بالآخر نظم پیام مشرق میں ”محاورۂ ما بین خدا و انسان“ کے عنوان سے ملی جو کچھ یوں ہے۔

خدا
جھان را ز یک آب و گل آفریدم (میں نے اس جہان کو ایک ہی مٹی اور پانی سے بنایا)
تو ایران و تاتار و زنگ آفریدی (تو نے اس میں ایران، تاتار اور حبشہ بنا دیے )

من از خال پولاد ناب آفریدم (میں نے خاک سے خالص لوہا بنایا )
تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی (تو تونے تلوار، اور تیروتفنگ تخلیق کردیے )

تبر آفریدی نھال چمن را (تو نے باغ کے درختوں کو کاٹنے کے لیے کلہاڑا بنایا)
قفس ساختی طایر نغمہ زن را (چہچہاتے پرندوں کے لیے پنجرہ بنالیا)

انسان

تو شب آفریدی چراغ آفریدم (تونے رات بنائی تو میں نے چراغ بنالیا)
سفال آفریدی ایاغ آفریدم (تو نے خاک بنائی تو میں نے جام بنالیا)

بیابان و کہسار و راغ آفریدی (تو نے صحرا، پہاڑ اور وادیاں بنائیں )
خیابان و گلزار و باغ آفریدم (تو میں نے باغیچے، چراگاہیں اور پارکس بنا لیے )

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم ( میں وہ ہو جو پتھر سے آئنہ بناتا ہوں )
من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم (میں وہ ہوں جو زہر سے شیریں مشروب بناتا ہوں ) ”

یہ نظم پڑھ کر مجھے لگا کہ جیسے یہ بھی ایک شکوہ جواب شکوہ ہے مگر اس میں خدا کی طرف سے انسان کی تخریب کاری کا شکوہ ہے اور اقبال اس کے جواب میں انسان کے تعمیری کاموں کا حوالہ دے کر اس کا مقدمہ لڑ رہا ہے۔ لیکن میں شش وپنج میں ہوں کہ اقبال تھا تو وکیل لیکن کس؟ مسلمان کا یا انسان کا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).