کیا زندگی نتائج اخذ کرنے کا نام ہے؟


دوستوں کی جانب سے مجھ سے ایک سوال کیا جاتا ہے کہ تم کیا ہو؟ مذہبی ہو یا غیر مذہبی؟ سیکولر ہو یا کمیونسٹ؟ روحانی انسان ہویا مادہ پرست؟ اس سوال کا جواب میں آج تک نہیں دے سکا۔ سوال کا جواب نہ دینے کی وجہ آج اس تحریر میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

انسانی جسم میں انسان کا دماغ بنیادی طور پر ایک ایسا آلہ یا ٹول ہے جس سے وہ سچائی کے سفر کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو اس سفر کو انجوائے کرتے ہیں۔ ایسے بھی انسان ہوتے ہیں دماغ کو ایک ایسے آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کا مقصد کسی خاص نتیجے یا نتائج تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انسانی دماغ کو نتائج اخذ کرنے والے ٹول کے طور پر استعمال کرنا چاہیے؟ یہ انسانیت کی بدقسمتی ہے یا خوش قسمتی کے زیادہ تر انسان دماغ کو نتائج اخذ کرنے والا ٹول سمجھتے ہیں۔ دماغ کو صرف نتائج اخذ کرنے کے ٹول یا ڈیوائس کے طور پر استعمال نہیں کرناچاہیے۔ دماغ و ذہن کی بہت اہمیت ہے۔ اس سے ہم انسان زندگی کو مسلسل دیکھ رہے ہیں۔ زندگی کی گہرائی اور وسعت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے دماغ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دماغ کا صرف یہ کام نہیں کہ وہ نتائج اخذ کرے، سوال پیدا کرے یا کسی چیز یا نظریے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتا رہے؟

ہر وقت کسی چیز، عقیدے یا نظریے پر سوال کرنے یا شک کرنے کا نام دماغ نہیں ہوتا۔ انسان کو دماغ کی فطرت کو خالص اور بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم اس طرح نہیں سوچ سکتے کہ کوئی خاص پوزیشن لئے بغیر، کوئی خاص عقیدہ رکھے بغیر، کوئی خاص نظریہ کو اپنانے بغیر بھی زندگی کے خوبصورت تجربات کو انجوائے کیا جاسکتا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ مجھے یا کسی اور کو مذہبی یا غیر مذہبی، سیکولر یاکمیونسٹ، مادہ پرست یا روحانی ہونا ضروری ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیوں کوئی خاص قسم کی پوزیشن لئے بغیر زندگی کو سمجھا یا جانا نہیں جاسکتا؟ زندگی کو حقیقی اور فطری کیفیت میں ہم سمجھ اور جان ہی اس وقت سکتے ہیں جب ہم کوئی پوزیشن نہیں لیتے۔ یہ طریقہ، وہ طریقہ، یہ سوچ، وہ سوچ، مذہبی نظریہ، غیر مذہبی نظریہ کیا اسی کا نام زندگی ہے؟ کیا مرتے دم تک انسان کے دماغ کی یہی سرگرمی رہنی چاہیے؟

اس طرح بھی تو سوچا جاسکتا ہے کہ انسان کوئی پوزیشن نہ لے، کسی خاص رخ کی طرف سفر نہ کرے، کسی خاص نظریے کی طرف نہ بھاگے، کسی خاص خیال میں مت پھنسے دماغ کے ذریعے زندگی کے ہر رخ، ہر راز اور تمام پہلووں کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کرے۔ اس طرح زندگی کے تمام تجربات، خیالات اور امکانات کو سمجھا جاسکتا ہے۔ زندگی بہت خوبصورت اور دلکش ہے اس لئے اسے ہر اینگل سے دیکھنے، سمجھنے اور انجوائے کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرا سوچیں کہ کیا خوبصورت خواہش ہے کہ انسان زندگی کوتمام اطراف سے شرارتی یا سلجھے معصوم بچے کی نگاہ سے دیکھے اور اسے انجوائے کرے۔

انسان زندگی کے تمام امکانات، زندگی کی تمام وسعتوں اور گہرائی کو اس وقت سمجھے اور جانے گا جب اس کا ذہن و دماغ flexible ہوگا۔ انسانی دماغ جب کسی خاص پوزیشن میں الجھا ہوا نہیں ہوتا، کسی یقین یا بے یقینی کی کیفیت میں نہیں ہوتا، کسی belief یا disbelief کا شکار نہیں ہوتا تو یقین جانئے زندگی کا ہر لمحہ خوشگوار اور فریش محسوس ہوتا ہے۔ یقین نہ آئے تو کچھ دن تجربہ کرکے دیکھ لیں؟

اگر انسان زندگی کو جاننا چاہتا ہے تو اسے زندگی کے تجربات اور احساسات کوانجوائے کرنا سیکھنا ہوگا۔ ہم انسان ہر روز سینکروں سرگرمیاں سرانجام دیتے ہیں، یہ سرگرمیاں کوئی خاص پوزیشن لئے بغیر، مذہبی یا غیر مذہبی ہوئے بغیر بھی لی جاسکتی ہیں۔ ہم رائے یا اپنا نقطہ نظر بھی دیتے ہیں تو اس سے پہلے ہمارا دماغ کوئی خاص پوزیشن لئے ہوئے ہوتا ہے۔ میں ایک مذہبی انسان ہوں اور کسی چیز کے حوالے سے رائے دے رہا ہوں تو کیا میری رائے فطری یا خالص ہوسکتی ہے؟ ہم جو رائے دیتے ہیں، جو نقطہ نظر بیان کرتے ہیں، کسی نظریے کے بارے میں یا اردگرد کی دنیا کے حوالے سے، اس سے پہلے ہم ایک خاص direction میں ہوتے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی نتائج اخذکئے ہوتے ہیں۔ یاد رکھیں نتائج اخذ کرنے کا نام زندگی نہیں موت ہے۔ کوئی بھی نتیجہ یقین کی کیفیت پیدا کرتا ہے، اس یقین سے پھر اس خاص نظریے کے بارے میں اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ یاد رکھیں وہ یقین یا اعتماد جس میں شفافیت نہیں وہ تباہی پیدا کرتا ہے۔ کیا وہ تباہی ہمیں اس دنیا میں نظر نہیں آرہی؟

یاد رکھیں صرف اعتماد کافی نہیں ہے۔ اعتماد قتل بھی کرسکتا ہے، دہشت بھی پھیلا سکتا ہے اور دہشت گردی بھی کرسکتا ہے؟ ہمارا مسئلہ یہ کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں۔ زندگی سے موت اور موت کے بعد کا تمام اھوال ہم جانتے ہیں؟ ہم تمام نتائج اخذ کرکے بیٹھے ہیں؟ کاش کبھی ہم یہ بھی کہتے کہ ہم کچھ نہیں جانتے، کاش ہم زندگی کے تمام تجربات کو تجسس، گہرائی اور clarity of vision کے ساتھ انجوائے کرنے کی کوشش کرتے۔ ہم وہ انسان ہیں جو سب جانتے ہیں لیکن یہاں نہیں ہیں۔

ہر روز یہی کہو کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ ہر روز زندگی کے تمام وہ پہلوو جو سامنے نظر آرہے ہیں، انہیں دیکھو، ان کا تجربہ کرو، ان کی گہرائی اور وسعت کو انجوائے کرو اور اس طرح زندگی میں سچائی کے سفر کو جاری رکھو۔ یاد رکھو اس طرح تازہ دم اور خوشگوار رہو گے۔ ہر روز ایسی پراسرار کیفیت اور دریافت سامنے آئے گی کہ انسان دنگ رہ جائے گا۔ ہر چیز میں زندگی ہے۔ ہر لمحے میں دلکشی ہے۔ مسئلہ یہ کہ ہم انسانوں نے پوزیشن لی ہوئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم پہلے ہی سے نتائج اخذ کرکے بیٹھے ہیں۔ پیدائش سے موت تک زندگی کو fix کرکے بیٹھے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).