ملک الموت سے خوفزدہ میراثی کی کہانی!


نوازلیگی لیڈر اور سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہاہے کہ ہنسنا کیسا؟ ہم تو کھل کر روبھی نہیں سکتے۔ موصوف العزیزیہ ریفرنس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیش ہوئے تو واپسی پر صحافیوں نے انہیں گھیر لیا اورایک صحافی نے سوال کیاکہ نوازشریف صاحب آپ کا ہنسنا بہت کم ہوگیا ہے، آپ کھل کر بات بھی نہیں کرتے۔ نوازشریف رکے اور جواب دیا کہ ہنسنا کیسا؟ ہم تو کھل کے رو بھی نہیں سکتے۔ یہ تاریخی جملہ کہنے کے بعد نوازشریف گاڑی میں بیٹھے لیکن پھر پلٹے اور صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا میں معافی چاہتا ہوں، مختصر سا جواب دیا ہے مگر دل سے دیا ہے۔

نوازشریف کا یہ افسردگی سے بھرا بیان اس حوالے سے یوں اہمیت کا حامل ہے کہ ایک وقت میں موصوف بحیثت وزیراعظم جلسوں میں دھاڑنے کے ساتھ ساتھ گرجتے اور برستے تھے اور کوئی ادارہ ان کی تقریروں میں محفوظ نہیں ہوتاتھا۔ ادھر ان کی سیاسی وارث بیٹی مریم نوازشریف کا نعرہ مستانہ جلتی پر تیل کا کام یوں کرتا تھا کہ ”روک سکو تو روک لو“ مطلب ہم اسی طرح اداروں کو چوک چوراہوں پر لکارتے رہیں گے اور ان میں ہمت ہے تو روک کر دکھادیں۔

یہاں صورتحال سنگین یوں ہوتی جارہی تھی کہ نوازشریف نے کبھی اس بات کی پرواہ نہیں کی تھی کہ یہ انہی اداروں کی پیدوار ہیں جن کوجلسوں میں للکاررہے ہیں اور وہ بھی اتنے سمجھدار ہٰیں کہ ایک گر بچاکررکھتے جوکہ ایسے وقتوں میں اپنے کرداروں کو اوقات میں لاتا ہے۔ لیکن وزیراعظم نوازشریف تھے کہ وہ اپنی ہی بات پر اڑے ہوئے تھے کہ وہ جوکررہے ہیں ان کا حق ہے اور کوئی ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے جرات نہ کرے۔ یوں کہانی سلجھنے کی بجائے الجھتی جارہی تھی لیکن وہ ٹھس سے مس نہیں ہورہے تھے۔

چوری اور سینہ زوری والی صورتحال کے اثرات دور تک محسوس کیے جارہے تھے۔ نواز شریف بحیثت وزیراعظم ایوان میں یوں آتے تھے کہ جیسے ہمارے جیسے پردیسی عید وں پر اپنے گاؤں جاتے ہیں اور چہرہ کروانے بعد واپس لوٹ آتے ہیں۔ مطلب کوئی ایسی کارروائی بھی موصوف نہیں ڈال رہے تھے جوکہ اس با ت کا ثبوت ہوتاکہ موصوف جمہوری اعظم ہیں۔ حدتو اسوقت ہوگئی جب ایوان بالا میں نہ آنے پر اپوزیشن کو موصوف کو بحیثت وزیراعظم متوجہ کرنے کے لئے باقاعدہ احتجاج کرنا پڑا۔

پھر کہیں جاکر اپوزیشن کوجمہوری وزیراعظم کی زیارت نصیب ہوسکی۔ پھر بات یوں کہیں دورکہیں نکل گئی کہ موصوف کو وزیراعظم ہاوس سے نکالا گیا اورپھر سیاسی جانشین بیٹٰی مریم سمیت اڈیالہ جیل کی یاترا ہوئی اور باہر آمد کے بعدایک بارپھر ان کے خیرخواہ اعلان کررہے ہیں کہ میاں صاحب کی دوبارہ اڈیالہ جانے کی لاٹری نکلنے والی ہے۔ ادھر ان کے سمدھی اور ان کے دور کے وزیرخزانہ اسحاق ڈار، بیٹے حسن اور حسین اشہتاری ہوکر لندن کی سڑکوں پر گشت کرتے نظرآتے ہیں لیکن اپنے لیگی لیڈر اوربزرگوار کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے بھی پاکستان کا رخ نہیں کررہے ہیں۔

یوں لگتاہے کہ ان کو میاں صاحب کے ساتھ روارکھے گئے سلوک اور نواز لیگی دور میں اداروں میں کی گئی اصلاحات ڈرا رہی ہیں۔ ادھرشہبازشریف اپنے بھائی اور لیڈر نوازشریف کو اڈیالہ جیل سے لے کر لاہور پہنچے ہی تھے کہ ان کے اپنے بارے میں بھی خوشخبریاں آنے لگیں تھیں کہ ان کو بھی نیب مہمان بنانے کے لئے انتظامات کو حتمی شکل

د ے رہاہے۔ چھوٹے میاں شہبازشریف بھی نوازشریف سے اقتدار انجوائے کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے بلکہ موصوف سعودیہ عرب سے جلاوطنی کے بعد دس سال سے مسلسل پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے طاقتور وزیراعلی رہے۔ اورانکی انگلی پر پنجاب کی سیاست نچاتی رہی اورموصوف کے من میں جو آیا کرتے رہے۔ پھر وہی ہواجوکہ اس طرح کے کاموں میں ہوتاہے اور آج کل نیب کے مہمان ہیں۔ اب ان کے بعد ادھر ان کے فرزند ارجمند حمزہ شہبازشریف کو بھی خوشخبری یوں دی گئی ہے کہ موصوف کو بیرون ملک جانے سے روک دیاگیاہے، باقی آپ سمجھ سکتے ہیں کہ حمزہ کا اگلا ٹھکانہ کون سا ہوگا؟

اور یقینا ان کا پروٹوکول بھی چاچو اور ابا جی کے شایان ہوگا۔ اب تو حالات تو یہاں تک جاچکے ہیں کہ نواز لیگی ارکان اسمبلی ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں جنرل مشرف دور کو موجود ہ حکومت سے بہتر قراردے رہے ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ جنرل مشرف دور میں خواتین کوتو این آراؤ تھا مطلب ان کو جیل نہیں بھیجاگیا تھا لیکن اس دور حکومت میں تو وہ بھی جیل بھیجی جارہی ہیں۔ ان کی اس آہ زاری کے باوجود بھی نیب لاہو رنے سابق وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو پیراگون سٹی کرپشن کیس میں مبینہ طورپر مالی فوائد حاصل کرنے کے الزام میں لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت خارج ہونے پر گرفتارکرلیاہے۔

خواجہ صاحب کافی دنوں سے نیب کے ساتھ عدالتی ضمانت پر گپ شپ کررہے تھے اور کوشش مٰیں تھے کہ وہ ان کو پکڑائی نہ دیں لیکن جونہی ہائی کورٹ سے ضمانت خارج ہوئی، نیب لاہور نے ان کو اچک لیالیکن اس کے باوجود خواجہ سعد رفیق نے گرفتاری کے موقع پر ایک تقریر داغ دی تاکہ سندرہے۔ ان گرفتاریوں پرصدر نوازلیگ شہبازشریف کا تکرارہے کہ نیب اور نیازی کا غیر مقدس الائنس ہے لیکن نیب گرفتاریوں سے پیچھے نہٰیں ہٹ رہاہے اور اب نوازلیگی خاتون لیڈر و سابق وزیراطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب کٰے اثاثوں کی بھی چھان بین شروع کردی گئی ہے، مطلب ان کے لئے بھی آنے والے دنوں میں سب اچھا کی صورتحال نظرنہیں آرہی ہے، اب یہ ہوسکتاہے کہ وہ اپنی خالہ اور اماں کی موجودگی میں پہلے کی طرح انڈوں کی نظراتروائیں تو شاید تلخ حالات کا سامناکرنے سے محفوظ رہیں لیکن دوسری طرف نا امیدی یوں ہے کہ اب تو صدقوں میں دیے جانیوالے کالے بکرے بھی ان کی لیڈرشپ بالخصوص ان کی دوست مریم نوازشریف کو اڈیالہ جیل جانے سے بچانے کے لئے کارگر ثابت نہیں ہوئے ہیں تو ان کا انڈوں کا صدقہ کیاکرے گا؟

اب یوں لگ رہاہے نواز لیگی لیڈر نوازشریف اور مریم نوازشریف کی اڈیالہ جیل جانے کے بعد صورتحال یوں بن چکی ہے کہ نوازلیگی دوسرے درجے کی قیادت ایک کے بعد ایک جیل جائے گی۔ ذرا غورتو کریں، نوازشریف اور مریم نوازشریف کے بعد شہبازشریف کو نیب نے اچک لیا، اب حمزہ کو دھر لیاگیاہے کہ آپ بیرون ملک نہیں جاسکتے ہیں۔ ادھر خواجہ برادران خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان کو لاہور ہائی کورٹ سے نیب نے سنبھال لیاہے۔ ساتھ ہی مریم اورنگزیب کی لاٹری نکلنے کی اطلاع کردی گئی ہے۔

مطلب ڈوری ہے کہ ٹوٹ ہی نہیں رہی ہے۔ اس صورتحال میں راقم الحروف کو ایک میراثی کی کہانی رہ رہ کر یاد آ رہی ہے۔ میراثی کی ماں جو ایک سوسال سے زائد عمر کی ہوچکی تھی وفات پا گئی، میراثی نے رو رو کر اپنے آپ کو ہلکان کر لیا، تمام ہمسایوں نے اسے صبرکی تلقین کی اور کہا کہ بڑھیا تو کب کی اپنی عمر طبعی کو پہنچ چکی تھی تم خداکا شکر ادا کرو۔ میراثی بولا میں ماں کو نہیں رو رہا بلکہ میں تو اس بات پر واویلا مچا رہا ہوں کہ ملک الموت نے اب میرا گھر دیکھ لیاہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).