محلاتی سازشیں اور خوف کا سائرن


 

آج کل حالات کی سوئی اضطراب کے عالم میں ہے۔ اس کی حرکت کے ساتھ خوف کا سائرن بندھا ہوا ہے۔ عجیب ہیجان کی فضا ہے جس میں کچھ بھی واضح نہیں۔ ڈالر کی طرح وزراء اور سرکاری افسران کی پوزیشنوں کو بھی ہر وقت اتار چڑھاﺅ اور ردّ و بدل کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ہر روز ایک نئی افواہ طلوع ہوتی ہے اور شام تک مختلف تجزیوں ، اندیشوں اور خواہشوں کو مسمار کرتی ہوئی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتی ہے مگر اس کی گونج کئی دن سنائی دیتی رہتی ہے۔ فواد چوہدری کچھ دنوں کے لئے برطانیہ کیا گئے پیچھے ایک پورا ڈرامہ وجود میں آ گیا۔ اگرچہ سامنے اور اندر خانے کے معاملات ایک جیسے نہیں ہیں، پھر بھی ایک بات واضح ہے کہ یہ طوفان بن بلائے نہیں آیا بلکہ اسے برپا کرنے کے پیچھے ایک باقاعدہ سازش رچائی گئی ہے تبھی تو شیخ رشید جیسے سینئر سیاست دان اور بھاری محکمے کے وزیر کو دبے لفظوں میں میڈیا کو بتانا پڑا کہ عمران خان نے انہیں وزیر اطلاعات بننے کا کہا ہے جیسے حالات بہت ہی خراب ہوں اور انہیں بچانے کا واحد آپشن یہی ہو کہ وزیر اطلاعات کو تبدیل کر دیا جائے۔ ممکن ہے باتوں باتوں میں یہ بات ہوئی بھی ہو مگر سرگوشی کو میڈیا کی بریکنگ نیوز بنانا ضروری نہیں تھا کیونکہ اگر اس میں سچائی ہوتی تو پھر شیخ رشید بھی یو ٹرن نہ لیتے۔ ویسے اب تو یو ٹرن کا لفظ بھی اپنا مفہوم بدل چکا ہے یعنی اچھے معنوں میں لیا جانے لگا ہے۔ خان صاحب نے کچھ دن قبل ہی اس کی وضاحت کر دی تھی کہ کسی حکمت کے سبب پیچھے ہٹنے کو یوٹرن کہتے ہیں۔ جمہوریت میں عوام کی رائے کو مقدم رکھ کر کوئی فیصلہ کیا جائے یعنی اپنی مرضی مسلط نہ کی جائے تو اسے مثبت عمل کہا جاتا ہے۔

آخر کون لوگ چاہتے ہیں کہ فواد چوہدری وزیر اطلاعات نہ ہو۔ اس سلسلے میں سب سے پہلی خواہش تو (ن) لیگ کی ہو سکتی ہے کہ وہ ان کے بیانات سے شدید تنگ ہے مگر اب (ن) لیگ خواہش کر سکتی ہے، سازش نہیں۔ سازش تو اندر بلکہ درمیان بیٹھے لوگ کرتے ہیں۔ دشمن بھی ہمیشہ مخالف کے اپنوں کو استعمال کر کے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں یا کسی کو انتقام کا انشانہ بناتے ہیں۔ ڈراموں میں محلاتی سازشوں کو پنپتے دیکھا ہے۔ آج کل کے حالات دیکھ کر احساس ہوا کہ حکمرانی کا نظام بادشاہانہ ہو یا جمہوری، سازشیں اس کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔ یقینا وزیراعظم بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ایک خاص لابی انہیں اپنے حصار میں مقید رکھنا چاہتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اپنے طے شدہ معیار کے مطابق ڈھالنا چاہتی ہے۔ پہلے یہ سنتے تھے کہ دیگر جماعتوں یا طاقتوں کے لوگ حکومتِ وقت کے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں ایک دوسرے کے خلاف سب سے زیادہ اضطراب اور کھنچاﺅ کی صورت حال حکمران جماعت کے اپنے لوگ پیدا کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ مخالفت ختم نہیں کرتے بلکہ اسے دل میں کاشت کر لیتے ہیں اور پھر اسے خوب پروان چڑھاتے ہیں۔ یہاں بھی یہی کچھ ہوا۔

فواد چوہدری ایک ایسے وزیر ہیں جو ہروقت نہ صرف متحرک رہتے ہیں بلکہ اپنی جماعت کے بیانیے کو پوری طاقت سے فروغ دینے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کرتے ہیں۔ کہیں اصل معاملہ یہ تو نہیں کہ وہ بہت زیادہ نمایاں ہو گئے ہیں اور ہر طرف نظر آتے ہیں اس لئے کچھ لوگ ان سے خائف ہو گئے اور انہوں نے وزیراعظم کے سامنے ان کے خلاف ایک کہانی بُنی۔ وہ کہانی تو ختم ہو گئی مگر کچھ نئے کردار سامنے آ گئے مثلاً یوسف بیگ مرزا میڈیا کے ایڈوائزر بنا دئیے گئے ہیں اور ان کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر رکھا گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ میڈیا ایڈوائزر افتخار درانی اور سپیشل اسسٹنٹ ٹو میڈیا یوسف بیگ مرزا کی موجودگی میں فواد چوہدری کو کوئی پریشانی ہو سکتی ہے یا نہیں؟ میرے خیال میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اس کی وجہ یہ ہے کہ وزارت سے متعلقہ میڈیا ایڈوائزر اور سپیشل اسسٹنٹ کا کام صرف وزیر اعظم سے متعلق ہے جب کہ فواد چوہدری کو انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ، پی ٹی وی، ریڈیو اور وزارت سے متعلقہ کئی اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اسمبلی اور میڈیا پر اپوزیشن کا بھرپور مقابلہ بھی کرنا ہو تا ہے۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے جارحانہ انداز کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ انہوں نے پہلے ہی روز عمران خان کو کتنا ٹف ٹائم دیا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر اپوزیشن اسمبلی میں کسی سے خائف ہے تو وہ صرف وزیر اطلاعات ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فواد چوہدری اس وقت تحریک انصاف میں روشن خیالی کی علامت کے طور پر جانے جا رہے ہیں۔ روشن خیالی اور آپسی سانجھ کو بڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے، اگر وزرا اور ممبران اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف سرگرم رہے تو پی ٹی آئی حکومت کو نقصان پہنچانے کے لئے اپوزیشن کو کوئی کردار نہیں ادا کرنا پڑے گا۔ اس کے اپنے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیں گے کہ وزیراعظم کو انتخابات سے قبل کوئی مشکل فیصلہ کرنا پڑ جائے۔ اس وقت اگر تمام توانائیاں گرتی ہوئی معیشت اور پاکستان کی ساکھ کو بحال کرنے میں صرف کی جائیں نہ کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور محلاتی سازشیں تیار کرنے میں تو بہتر ہو گا۔ فواد چوہدری کے خلاف سوشل میڈیا پر ان کی جماعت سے متعلق کچھ ویب سائیٹس بھی متحرک ہیں جو بہت افسوسناک بات ہے۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ ان تمام عناصر کی حوصلہ شکنی کے لئے لائحہ عمل تیار کریں جو اپنے محکمے کی کارکردگی بڑھانے کی بجائے دوسرے وزیروں کے خلاف پروپیگنڈے کو ہوا دیتے ہیں۔

افتخار دُرانی صاحب اُلجھنے سُلجھانے اور معاملات سنوارنے والے انسان ہیں، مسائل پیدا کرنے والے نہیں۔ فطری طور پر خیر کے رستے پر چلنے اور اپنے کام سے کام رکھنے والے مطلب اپنے دائرہ کار میں رہنا پسند کرتے ہیں اسی طرح یوسف مرزا بیگ ایک عرصے سے ٹیلی ویژن سے وابستہ ہیں اور اپنے شعبے کے ایک منجھے ہوئے فرد ہیں ۔ حاصلِ بحث یہ ہے کہ قابل انسان کبھی دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے نہ ان کی کامیابی سے حسد کرتا ہے۔ اسے اپنے کام سے فرصت نہیں ہوتی۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).