قیام پاکستان کے وقت طالبان کیسے ہوا کرتے تھے؟


یہ پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے یا بعد کی بات ہے۔ ہمارے علاقے کی گلیوں، چوراہوں اور سڑکوں پر کچھ لوگ سبز اور سرخ رنگ کی بے ڈھنگی سی بوسیدہ وردیاں پہنے، کاندھوں پر لکڑی کی ڈمی رائفلیں سجائے فوجیوں کے انداز میں ”لفٹ رائٹ“ کہتے ہوئے گاؤں کے باہر ”بائی بھنڈ“ نامی ایک میدان میں جمع ہو کر پریڈیں کرتے اور اپنے اپنے لیڈروں کی پر جوش تقریریں سننے کے بعد گاندھی اور جناح مردہ باد اور زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے گھروں کو لوٹتے۔

جلوسوں کی رونق بڑھانے کے لئے ان کے منتظمین طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے۔ بچوں کو جلوسوں میں شامل کرنے کے لئے یہ لوگ ان میں مکئی کے بھنے ہوئے میٹھے دانے، دیسی گڑ کے بتاشے اور میٹھی گولیاں بانٹ کران سے جناح صاحب اور گاندھی جی کے حق میں نعرے لگواتے۔ سرخ پوشوں کی نسبت سبز پوشوں کی چیزیں زیادہ معیاری اور مزے دار ہوتی تھیں کیوں کہ سرخ پوش اس وقت بھی ایسے ہی مسکین اور غریب تھے جیسے آج کل ہیں۔ میرے والد صاحب جیسے کئی لوگ جب لام (جنگ عظیم دوم) سے لوٹے تھے تو اپنے ساتھ برٹش آرمی کے فوجی بوٹ اور وردی بھی ساتھ لائے تھے۔

یہ لوگ سارا سارا دن ان وردیوں کو کوئیلوں کی استریوں سے کلف لگا کر استری کرتے۔ بوٹوں کو چمکا چمکا کران میں اپنا منہ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور پریڈ کے دوران اس قدر زور سے پاؤں زمین پر مارتے کہ فضاء میں گرد و غبار کے بادل سے چھا جاتے۔ میرے سرخ پوش ماموں بتاتے تھے کہ عبدالغفار خان کو وہ اس لئے باچا خان کے نام سے پکارتے ہیں کہ ان کے ہاتھ گھٹنوں تک لمبے تھے۔

آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ پشتونوں میں یہ بات اب بھی مشہور ہے کہ جس شخص کے ہاتھ گھٹنوں تک پہنچتے ہوں وہ بادشاہ بنتا ہے۔ پشتو میں بادشاہ کو باچا کہتے ہیں۔ اسی مناسبت سے آج بھی غفار خان کو باچا خان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی دونوں جلوسوں کے شرکاء کی کسی ناپسندیدہ حرکت کی وجہ سے حالات نازک صورت حال اختیار کر لیتے لیکن باچا خان کے پیروکار ایسے موقعوں پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرا دیتے۔

ان دونوں جلوسوں کے علاوہ ایک اور جلوس ہمارے علاقے کے ایک سرکردہ مذہبی پیشوا ”حافیجی صاحب“ یعنی حافظ صاحب کی قیادت میں ایک ترانہ گاتا ہوا گلیوں میں سے برآمد ہوتا۔ حافیجی صاحب ایک زرق برق لشکارے مارتا ہوا چغہ پہنے ہوئے ہوتے۔ اس جلوس کے شرکاء عموماً دینی مدرسوں کے وہ طلباء ہوتے تھے جو دینی تعلیم کے علاوہ گاؤں کے گھروں میں اپنے اور حافیجی صاحب کے لئے کھانے کے اوقات میں کھانے کی چیزیں اکٹھی کرتے۔ اچھی اور مزے دار چیزیں حافیجی صاحب اپنے گھر بھیج دیتے جب کہ بچا کھچا مال طالب لے جاتے۔

یہ جن لوگوں کو آج کل آپ طالبان کے نام سے جانتے ہیں یہ دراصل وہی لوگ ہیں۔ مولویوں نے ان بچاروں کو جس دھندے پر لگایا تھا یہ اس کی وجہ سے کافی شرمندہ شرمندہ سے نظر آتے تھے۔ ان کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ چار پانچ کی ٹولیوں میں گھر گھر جا کر خیرات مانگتے۔ میرے خیال میں یہ لوگ میری طرح اس بے عزتی کو برداشت نہ کرنے کی وجہ سے باغی ہو کر دہشت گردی پر اتر آئے۔ آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں کہ میں بھی ایک دن ان کے ساتھ گیا تھا لیکن دوسرے ہی دن میں نے صاف انکار کر دیا تھا۔

بات کچھ اس طرح تھی کہ میرے ایک چچا جو بعد میں جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے تھے ہمارے گھر سے ملحق مسجد کے پیش امام تھے۔ میری والدہ نے مجھے کہا کہ میں بھی مسجد جا کر کچھ سپارے پڑھ کر انسان کا بچہ بن جاؤں۔ بادل نخواستہ میں دوسرے دن صبح صبح مسجد گیا جہاں ایک گروپ کے ساتھ مجھے بھی مٹی کا ایک کاسہ ہاتھ میں تھما دیا گیا۔ ہر گھر کے دروازے پر ہم یہ صدا بلند کرتے ”خیر راوڑئی خدائی مو اوبخہ“ اس کا مطلب ہے کہ اللہ کے نام پر جو کچھ آپ کے پاس ہے ہمیں دے دو۔

پرانے طالبوں کو تو سارے گھروں والے جانتے تھے لیکن مجھے ساتھ دیکھ کر ان کو تھوڑی حیرت اس لئے ہوئی کہ میرا تعلق مڈل کلاس کے طبقے سے تھوڑا سا نیچے تھا۔ ایک عورت مجھے پکڑ کر گھر کے اندر لے گئی۔ پیٹ بھر کر ناشتہ کرانے کے بعد اس نے مجھے تاکید کی کہ میں ان لوگوں کے ساتھ دوبارہ نظر نہ آؤں۔ اس خاتوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ جب بھی کھانے کا وقت ہو میں ان کے گھر جا کر کھا سکتا ہوں۔

بات حافیجی صاحب کے جلوس کی ہو رہی تھی اور میں کسی اور طرف نکل گیا۔ یہ حضرت جلوس کے آگے آگے ایک کان پر ہاتھ رکھ کر ترنم کے ساتھ اس وقت کے ایک انتہائی مقبول ترانے کے یہ بول سریلی آواز میں اٹھاتے۔ ”سبق دہ مدرسے وائی، دہ پارہ دہ پیسے وائی، پہ جنت کی بہ ئے زائے نہ وی، دوزخ کی بہ گسے وہی“ اس کا مطلب ہے کہ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ جنت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ عرصہ بعد لوگوں نے دیکھا کہ حافیجی صاحب کے بچے گاؤں سے سو میل دور پشاور یونیورسٹی سے پڑھ لکھ کر عدلیہ، انتظامیہ اور فوج میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہو گئے۔

سیاسی ماحول ہمارے گھر میں بھی گرم ہونے لگا اور ہمارے والد صاحب اور ماموں کے درمیان گرما گرم سیاسی بحث مباحثہ ہونے لگا. جب حالات بالکل ہی قابو سے باہر ہو گئے تو والد صاحب نے ایک دن چھلانگ لگا کر ہمارے دادا کی تلوار گھر کی چھت کی شہتیر سے کھینچ کر “اللہ اکبر” کا زور دار نعرہ لگاتے ہوئے ماموں کو مخاطب کیا۔ ” اوئے دھوتی پوش (گاندھی جی) کی ناجائز اولاد! اب ہمارا فیصلہ یہ تلوار کرے گی”۔ ایسے موقعوں پر ہمارے ماموں چھلاوے کی طرح جست لگا کر غائب ہو جاتے تھے۔

بعد میں جب میں ان کو بزدلی کا طعنہ دیتا تو وہ آنکھ مار کر میرے کان میں چپکے سے کہہ دیتے۔ ”یار ہم باچا خان کے پرامن پیرو کار ہیں، ورنہ انگریزوں کے اس بندر کو تو ہم ایک دن میں سیدھا کردیں“۔
یار زندہ صحبت باقی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).