روبوٹ 2.0: پرندوں پر توجہ واہ واہ


میں نے آج تک کبھی کسی مووی پرنہیں لکھا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں اس موضوع پر لکھ ہی نہیں سکتا۔ لیکن کیا ہوا کہ پچھلے دنوں ایک سول سوسائٹی تنظیم کے توسط سے یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی۔ باقاعدہ گفتگو کے بعد غیر رسمی گفتگو میں کچھ نوجوانوں نے بالی ووڈ فلم روبوٹ 2.0 پربات چیت کی، میں نے یہ مووی دیکھی نہیں تھی لیکن ان کی گفتگو سے میری دلچسپی بڑھی، وہ بار بار ایک لفظ بھکشی بول رہے تھے۔ میں نے اپنی قابلیت کا پردہ چاک نہ ہونے دیا اور مووی دیکھنے کا ارادہ کر لیا کہ اس لفظ کو ہی سمجھ سکوں۔

اور پھر یہ مووی دیکھی۔ کرن جوہر کی یہ مووی مجھے اپنے بچپن میں لے گئی، جب ہم اپنے سکول میں موجود سکھ چین کے درخت پر چوئی چلانگڑ کھیلا کرتے تھے، چوئی چلانگڑ کو مہذب لفظوں میں کیا کہتے ہیں مجھے نہیں پتہ۔

اس کھیل میں چھاپنے والے نے درخت پر چڑھے ہوئے دوسرے کھلاڑیوں کے پاوں کو پاوں لگاناہوتا ہے، اور کھلاڑی درخت پر سب سے اونچی شاخوں پر چلے جاتے ہیں اس کھیل میں ہمیشہ ہمارے ساتھ ایک جانور بھی کھیل کا حصہ ہوتا تھا، ہمارے ساتھ گلہریاں بھی اسی طرح درخت کی شاخوں پر اچھلتی ہوئی بھاگتی رہتیں، اور ہم گلہری سے سیکھتے کہ نازک شاخ پر پاوں رکھ کر اور اوپر کس طرح جایا جا سکتا ہے۔ پھر گلہریاں غائب ہونا شروع ہو گئیں۔ اور ہم روزگار کی کوششوں میں۔

روبوٹ 2.0 کودیکھنے سے پہلے ایک دن اپنے گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ لگی بوگن بیل پر دو گلہریاں دیکھیں، تو بچپن یاد آ گیا۔ بڑی کوشش کی کہ اپنے فون پر گلہری کی فوٹو لے سکوں لیکن کامیاب نہ ہوا۔

موبائل اور پرندے ہی روبوٹ کا موضوع ہیں، بہت زیادہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے بنائی گئی یہ مووی ٹیکنالوجی ہی کی لائی ہوئی ایک تباہی کو فوکس کر رہی ہے۔

مووی کے آغاز سے درمیان تک وہ موبائل ٹوٹتے ہیں کہ بندے کو اپنا موبائل اندر کی جیب میں ڈالنا پڑتا ہے، موبائل صرف اچھلتے کودتے ہی نہیں بلکہ کچھ لوگوں کے حلق اور پیٹ تک میں بھی جاتے ہیں یہاں تک کچھ سمجھ نہیں آتی کہ فلم بنانے والے بھائی کسی جذباتی عدم توازن کاشکارہیں یا کسی حسینہ نے ان کا فون اٹینڈ نہیں کیا جس کی وجہ سے نہ صرف ڈائریکٹر بلکہ خود فون بھی اتناغضب ناک ہوچکا ہے، بڑی تشویشن ناک صوتِ حال بن چکی تھی جب ساتھ بیٹھے ایک دوستنے کہا کہ موویز دیکھنے کا تجربہ بتاتاہے ہے کہ ان موبائل فونز کے اتنا غضب ناک ہونے کے پیچھے اس خود کشی کا کوئی تعلق ہے جو مووی کے پہلے سین میں دکھائی گئی۔

اور جب اصل موضوع سامنے آیا تو پھر مووی ختم ہونے تک کمر میں ایک بار بھی خم نہیں آیا۔
اکشے کمار جو اس مووی میں موبائل فونز کی مچائی ہوئی تباہی کا ذمہ دار ہے، ایک پرندے کی دی ہوئی زندگی سے اپنی کہانی شروع کرتا ہے اور دیکھنے والے کو پھر باقی ساری مووی میں اپنا مداح بناتا ہے۔

وہ بتاتا ہے کہ بھکشی یعنی پرندے اس وقت بہت خطرے میں ہیں جگہ جگہ لگے موبائل کمپنیوں کے ٹاور ایسی ہائی ریڈی ایشن ویوز چھوڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے پرندے تلف ہورہے ہیں اور آہستہ آہستہ بہت سارے پرندے ختم ہوچکے ہیں مجھے گلہری کی یادآئی، اکشے اس سلسے میں افسروں، وزیروں اور موبائل کمپنیوں کے مالکان کو ملتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ لوگ موبائل استعمال کرنا چھوڑ دیں بلکہ ملکی قوانین کے مطابق کمپنیاں اپنے ٹاور کے ذریعے چھوڑی جانے والی ریڈی ایشن ویوز کو کنٹرول کریں۔ اگر وہ قوانین کے مطابق عمل درآمد کرتی ہیں تو پھر پرندوں کوکوئی خطرہ نہیں۔ لیکن چونکہ کمپنیاں کم خرچ میں زیادہ صارفین کو سروس دینے کے لیے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ٹاور میں زیادہ ریڈی ایشن ویوز چھوڑتی ہیں جس سے پرندے فنا ہو جاتے ہیں۔

لیکن کوئی بھی اکشے کی بات نہیں سنتا، اور آخر کار پرندوں کی زندگی کی جنگ لڑتا اکشے خودکشی کر لیتا ہے، اس کے بعد اس کو ایک غیر ماورائی کردار میں پیش کیا گیا ہے وہ ایک عفریت بن جاتا ہے جو موبائل ٹیکنالوجی کے خلاف ہے، اور وہ جہاں موبائل فون کا کاروبار ہوتا ہے وہاں بھی تباہی پھیلاتا ہے اور اس کاروبارسے جڑے افراد کو بھی مارتا ہے، اس شعبے سے متعلق وزیر کی تو اتنی ہیبت ناک موت دکھائی گئی ہے کہ دل اچھل کر باہر آجاتا ہے جب ایک موبائل اس وزیر کے پیٹ سے اچھل کرباہر آتا ہے۔

بنیادی طور ہر یہ مووی پرندوں کی حیات سے متعلق ہے اور کس طرح سے انسان ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال سے اپنے ارد گرد فطرت کو چھوڑتا جا رہا ہے، اس مووی کا پیغام موبائل ٹیکنالوجی خلاف نہیں بلکہ فطرت کو کسی حد تک ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ باہم ملانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).