کچھ پل عبدالقادر جونیجو کے ساتھ


سندھ یونیورسٹی کی رہائشی سوسائٹی میں رہنے کا مجھے ایک فائدہ یہ ہوا ہے کہ یہاں سندھ کے پڑھے لکھے لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ یوں تو میں گذشتہ تیس سالوں سے جامشورو میں ہی رہ رہا ہوں۔ مگر حالیہ سالوں میں جب سے میں نے لکھنا شروع کیا ہے تو سندھی ادب کی کسی نہ کسی اہم شخصیت سے ملاقات ہو ہی جاتی ہے۔

کچھ اہم شخصیات جیسے کہ شوکت شورو صاحب، آغا رفیق صاحب، محمود مغل صاحب، اور بھی بہت سے سندھی ادب کے بڑے نام ہیں جن کا تعلق جامشورو سے ہے۔ مگر جامشورو کی یہ بھی خوش نصیبی ہے کہ دنیا بھر میں ادب میں نام کمانے والے لکھاری عبدالقادر جونیجو صاحب بھی یہاں ہی رہتے ہیں اور میری خوش نصیبی یہ کہ ایک تو قادر صاحب میرے پڑوسی ہیں اور دوسرا یہ کہ کبھی کبھار ان کی صحبت میں کچھ پل گذارنے کا موقعہ بھی مل جاتا ہے۔

آج کل ایک تو ان کی صحت ساتھ نہیں دے رہی دوسرا وہ اپنے ناول لکھنے میں مصروف ہیں۔ مگر پھر بھی مجھ پر قسمت کی دیوی مہرباں ہوجاتی ہے اور قادر صاحب سے ملاقات کا شرف مل ہی جاتا ہے۔

ایک بار کسی محفل میں قادر صاحب نے کہا تھا کہ: جب بھی آپ کوئی اچھی کتاب پڑھیں تو اس پر تبصرہ ضرور کریں۔ ایک تو اس سے آپ کی زباں بولنے والے لوگوں یہ پتا چلے گا کہ باہر کی دنیا میں کیا لکھا جارہا ہے۔ اور جس کی اس کتاب تک رسائی نہیں اس کو بھی پتا چل جائے گا۔ اسی ایک جملے کی وجہ سے میں نے کتابوں پر تصرہ کرنا شروع کیا۔ حالیہ کچھ عرصے میں قادر صاحب سے میری دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک ملاقات میں سندھی ادبی سنگت کے سیکرٹری جنرل احمد سولنگی صاحب بھی ہمارے ساتھ تھے۔

یوں تو جونیجو صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں اور پاکستاں میں جتنے بھے تھوڑے بہت لوگ لکھنے پڑھنے سے دلچسپی رکھتے ہیں ان کے نام سے واقف ہیں۔ قادر صاحب کو دو بار پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے۔ اور 90 کی دہائی تک وہ پاکستاں کے مقبول تریں ڈرامہ نویس تھے۔ قادر صاحب کی شخصیت اتنی دلفریب ہے کہ ان کے ساتھ کوئی ایک بار بیٹھ جائے تو پھر وقت کا احساس ہی نہیں رہتا۔

جیساکہ یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی اس لئے ہوسکتا ہے کہ آپ کو رسمی انٹرویو والا مزا نا آئے۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ قادر صاحب کے ادب اور خاص طور پر سندھی ادب کے حوالے سے کی گئی گفتگو قارئین تک ضرور پہنچے۔

قادر صاحب نے بتایا کہ فکشن میں اصل آرٹ اسٹوری ٹیلنگ ہوتی ہے۔ آپ اپنے خیالات کو لوگوں تک کس انداز میں پہنچا رہے ہیں اس پر غور کیا جاتا ہے۔ ناول یا افسانہ لکھتے وقت ایک لکھاری کو بخوبی معلوم ہونا چاہیے کہ کون سا جملہ کب کہاں اور کیسے اثر انداز ہوگا۔ دنیا بھر میں اصل کام اسٹوری ٹیلنگ پر ہی کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کو بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے ہم فکشن میں پیچھے ہیں۔

نوجواں لکھاریوں کو اس پر توجہ دینا چاہیے۔ بڑے عرصے سے سندھی ادب میں مضبوط شاعری تو پڑھنے کو مل رہی ہے مگر سندھی کہانی اور ناول کمزور ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ نوجواں لکھاریوں کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ کہانی کو کہاں سے شروع کیا جائے اور کہاں ختم کیا جائے۔ زباں اور ڈکشن میں فرق ہوتا ہے، زباں کا دائرہ وسیح ہوتا ہے۔ میرے پاس اپنا منفرد ڈکشن ہے۔ اور میں کوشش کرتا ہوں کہ اس ڈکشن میں لکھوں جو عام لوگوں کو سمجھ میں آئے۔

آج کل اپنے ناول رسٹک پر کام کر رہا ہوں جو انگریزی زباں میں ہے۔ یہ ناول میرے پہلے ناول دی ڈیڈ ریور کا دوسرا حصہ ہے۔ میری خواہش ہے کہ اس موضوع پر ٹرائلاجی لکھوں۔ میں نے اپنے ناولوں میں امریکی سلینگ استعمال کیا ہے۔ رسٹک 1920 سے لے کر 1955 تک کی سندھ کی صورت حال کو بیاں کرتا ہے۔ اور اس میں میں نے عام لوگوں کے سماجی اور اقتصادی حالات کا ذکر کیا ہے۔ اس ناول میں قارئیں کو تھرپارکر سے لے کر جیکب آباد تک پورے سندھ کا ذکر ملے گا۔ آج کی دنیا میں انگریزی میں لکھنا کوئی مشکل بات نہیں بس نوجوانوں کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ عالمی معیار کے پبلیشر تک کس طرح رسائی حاصل کرنی ہے۔

مجھے عام لوگوں سے مل کر بہت زیادہ مزہ آتا ہے۔ جب بھی گاؤں جانا ہوتا ہے تو گھنٹوں بوڑھے بزرگوں سے باتیں کرنے میں گزار دیتا ہوں۔ ان سے مجھے فوک وزڈم ملتا ہے۔ جس میں ایک الگ سا مزہ ہے۔

یوں ہماری باتوں کا رخ عالمی ادب کی طرف چلا گیا تو قادر صاحب نے بتایا کہ لاطینی امریکہ کے مشہور ناول نویس گبریئل گارشیا مارکیز کو اور صلاحیتوں کے ساتھ قدرت نے چھٹی حس بھی عطا کی تھی۔ ایک بار ان کے کسی دوست نے مارکیز سے کہا کہ اگلے روز وہ لاطینی امریکہ کے کسی شہر کی سیر کو نکلیں گے۔ اگلے دن ان کا دوست آیا تو مارکیز نے یہ کہہ کر ساتھ چلنے سے انکار کردیا کہ اس شہر کے ساتھ کچھ برا ہونے والا ہے۔ اس دوست نے مارکیز کی یہ بات ہنسی میں اڑا دی۔ مگر اگلے روز کی اخبار میں آیا کہ اس شہر میں طوفانی بارش ہوئی ہے جسکہ نتیجے میں کتنے ہی لوگ مارے گئے۔ گارشیا مارکیز اپنے آپ میں ایک عجیب لکھاری تھا۔ اس کو انٹرویو دینا پسند نہیں تھے۔ پریس والے ان کے پیچھے بھاگتے تھے کہ ان کا انٹرویو مل جائے۔ اور وہ کہتا تھا اس کے پاس ٹائم نہیں ہے۔

اس وقت دنیا میں لاطینی لکھاری اچھے ناول لکھ رہے ہیں۔ جب کہ فرانسیسی ناول نویس لیورینٹ بنٹ کے ناول H H H H نے پوری دنیا میں دھوم مچا رکھی ہے۔ یہ ناول ایک نازی افسر کے قتل پر لکھا گیا ہے۔ اور اس کو دوسری جنگ عظیم پر اب تک لکھے گئے چند بہترین ناولوں میں شمار کیا جارہا ہے۔

(کلیم بٹ سندھی زباں کے ناول نویس اور صحافی ہیں، ان کے چار ناول چھپ چکے ہیں ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).