میجر صاحب کی باباجی کے ساتھ نشست اور میاں صاحب کے لئے مشورہ


بابا جی، قوموں کے عروج و زوال کا سبب تو اقبال بتا گئے ( شمشیر و سناں اول طاؤس ورباب آخر) ہیں، لیکن سیاستدانوں کے زوال کا کیا سبب ہے۔

بابا جی نے فرمایا پتر ہمارے سیاست دان نہ تو شمشیر (اپنی صلاحیت) پر آگے آتے ہیں اور نہ ہی رباب کی وجہ سے زوال پذیر ہوتے ہیں۔ یہ سارے پیراشوٹ کے ذریعے اتارے جاتے ہیں اور پھر اٹھائے بھی جاتے ہیں۔

مطلب بابا جی؟

پتر میں نے بھٹو کو دیکھا ایک عام سا نوجوان تھا، اس نے ایوب خان کے گھٹنے پکڑے اور ڈیڈی کہا تو اسے قائد عوام بنایا گیا، میاں نواز شریف ایک تاجر تھا جنرل جیلانی اور ضیاء کی مہربانی سے سیاست میں داخل ہوا اور تین بار وزیراعظم بھی بن گیا اور اب سنا ہے پاکستان میں لیڈر کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ الطاف کو میں نے حیدرآباد کراچی کی سڑکوں پر ففٹی موٹر سائیکل چلاتے دیکھا، اس کی قابلیت اور رعب کسی کیبن والے سے سگریٹ پان مفت لینے تک محدود تھا، پھر اسی الطاف کو قائد کے القابات ملے اس ففٹی والے لونڈے کے اشاروں پر کراچی حیدرآباد سیکنڈوں میں بند ہونے لگے۔

بیٹا زرداری کو میں نے میرپور خاص میں سینیما کے سامنے لکڑی کے پھٹے پر کچی شراب پیتے دیکھا ہے، اس کے بابا کو یو بی ایل کا مینجر گرفتار کروا رہا تھا وہ دن بھی یاد ہے پھر اسی زرداری کو ایوان صدر کی زینت بنتے دیکھا اور ایک زرداری سب پہ بھاری کے نعرے بھی سنانے لگے۔

ہم نے ایک کرکٹر کو لاہور یونیورسٹی میں لڑکوں کے ہاتھوں پٹتے دیکھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ریاست مدینہ کا والی ہو گیا۔

لیکن بابا جی یہ تو ان کی محنت کا صلہ تھا۔

نہیں پتر پاکستان میں جتنی محنت نورانی میاں، نوابزادہ نصراللہ خان اور ہاشمی میاں نے کی ان کا دسواں حصہ بھی انہوں نے نہیں کی، انہوں نے جی حضوری کو ترجیح دی تو ککھ پتی سے لکھ پتی بن گئے۔

لیکن بابا جی پھر زوال کا سبب؟

بیٹا جب یہ سیاستدان اپنے پاؤں پر کھڑے ہوجاتے ہیں تو سمجھتے ہیں یہ ترقی سب ہماری وجہ سے وہ اپنے آقاؤں کو بھول جاتے ہیں اور ان پر بھونکنا شروع کر دیتے ہیں، پھر اسی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکتے دیکھا، اسی نواز شریف کو دو بار جیل اور جلاوطن ہوتے دیکھا، الطاف کی تصاویر میونسپلٹی کے ملازمین کے پاؤں تلے روندتے دیکھیں۔ زرداری اپنی دم بچانے کے چکر میں عنقریب سندھ کارڈ کھیلنے والا ہے۔ بابا آپ کا مطلب کہ ان کو ہیرو بھی، کنگ میکر کرتے ہیں اور زیرو بھی وہی کرتے ہیں۔

ہاں پتر ایسے ہی ہے۔

بابا جی کیا آپ بھی ان کی وجہ سے ”باباجی“ ہیں؟

نہیں پتر اگر میں ان کا لاڈلا ہوتا تو آج کینیڈین بابا کی طرح یورپ کے دوروں پر ہوتا، سمیع الحق کی طرح بابائے طالبان ہوتا، طارق جمیل کی طرح ہر تقریب کی زینت ہوتا یا الیاس قادری کی طرح باپو ہوتا۔ یا فضل الرحمان کی طرح اربوں کھا کر بھی نیب سے آزاد ہوتا۔

تو بابا جی آپ کیوں نہیں لاڈلے بنے؟

پتر مجھے ان کی شرائط پر کام کرنا قبول نہیں۔

باباجی پھر میری ہی سفارش کر دیں میں آپ کا خادم ہوں، اور نہیں تو ممنون حسین کی جگہ مجھے رکھ لیں، وہاں صرف پانچ سال منہ بند رکھنا ہے اور تو کوئی کام نہیں۔

پتر وہ ایک ڈاکو کو اسپیکر بنا سکتے ہیں، سول نافرمانی کے مرتکب کو صدر اور وزیراعظم بنا سکتے ہیں تو ان نے کے لئے کسی کو لانا مشکل نہیں ہے۔

لیکن اس کے لئے آپ نے کرنا وہ ہوگا جو آپ کو کہا جائے گا، بولیں گے آپ لیکن اسکرپٹ کسی اور کا ہوگا، لکھیں گے آپ لیکن کلام کسی اور ہوگا۔

بابا جی دوسرے لفظوں میں مطلب مجھے اپنی آزادی سے دستبردار ہونا پڑے گا؟

ہاں پتر۔

پھر رہنے دیں بابا جی، یہ جھونپڑی، آپ کا سایہ، دال روٹی میرے لئے ان سونے کے ٹوائلٹ سے سو گنا بہتر ہیں جہاں مجھے روبوٹ کی طرح رہنا پڑے گا۔

باباجی ایک اور سوال، میاں نواز شریف کو کیا مشورہ دیں گے؟

پتر، میاں نے آج تک کسی کا مشورہ مانا ہی نہیں تو دینے کا کیا فائدہ۔

اگر میاں چپ نہ اختیار کرتا اور الطاف کی طرح پھڑپھڑاتے تو کب کا اس کا پتا کٹ چکا ہوتا، اس کے لئے اچھا یہ ہے کہ چپ ہی اختیار کرے تحمل کا دامن تھامے رکھے، باقی وہ جو سوچ رہا ہے وہ تو نا ممکن ہے، لیکن چپ رہنے سے اتنا ضرور ہوگا کہ جان بچ جائے گی۔

لیکن بابا جی اگر عمران ناکام ہوتا ہے تو پھر تو میاں کو واپس لانے کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں۔

نہیں پتر جب رئیسانی اور قائم علی شاہ جیسے لوگ صوبہ چلاسکتے تھے، یحییٰ ملک اور فوج پر حاکمیت کرسکتا تھا، غلام محمد مفلوج ملک چلا سکتا تھا، تو کوئی نہ کوئی ان جیسا مل ہی جائے گا،

میاں کو آج نہ تو کل ضرور سرینڈر کرنا پڑے گا ورنہ شاید زرداری کو پانچ سال کے لئے اور ایکسٹنشن مل جائے، لیکن میاں صاحب کو جیل کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).