مولانا طارق جمیل کا بیان اور اس پہ بے جا تنقید


تبلیغی جماعت اور اس کے وابستگان پہ ایک بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ان میں جدید سیاسی شعور کی کمی ہے اور وہ صرف عبادات پہ زور دیتے ہیں جبکہ دنیاوی معاملات، سیاست، معیشیت اور سماج کے دیگر موضوعات پر بات نہیں کرتے اور خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ اب اگر اس فکر سے وابستہ داعی مولانا طارق جمیل نے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش مسائل پر بات شروع کی ہے اور ریاست کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے تو ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے نہ کہ ان پہ تنقید کے نشتر چلانے شروع کر دیں۔

اس وقت مملکت پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت مشرقی پاکستان کی آبادی 42 ملین جبکہ مغربی پاکستان کی 33.7 ملین کے لگ بھگ تھی۔ اس کے بعد 1971 میں پاکستان کا مشرقی حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا تو ریاست نے وہاں کے جید علماء اور مذہبی طبقات کی مدد سے آبادی کے عفریت کو کنٹرول کرنا شروع کیا۔ لیکن پاکستان میں اس کے برعکس مذہبی طبقات کی خدمات ہم موثر طور پر استعمال میں نہ لا سکے۔

نتیجہ یہ نکلا آج ہم آبادی میں بنگلہ دیش کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں لیکن وسائل نہ ہونے کی بناء پہ لوگوں کی بڑی تعداد بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔ اسوقت بنگلہ دیش کی آبادی 164.7 ملین جبکہ پاکستان کی آبادی 200 ملین سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے آبادی کنٹرول کرنے کے حوالے سے منعقدہ کانفرنس میں نہ صرف بھر پور شرکت کی بلکہ عوام الناس میں شعور اجاگر کرنے کا بھی کہا۔ یہ انتہائی خوش آئند بات ہے کہ ایک جید عالم دین جس کی اتنی عزت اور پذیرائی ہے بڑھتی آبادی پر قابو پانے کی حکومتی کوششوں کو کامیاب بنانے میں ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کی۔

ماضی میں ایک منظم سازش اور اپنوں کی عاقبت نا اندیشی کی بناء پر پاکستان کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونک دیا گیا۔ بڑے پیمانے پہ قتل عام ہوا اور بہت سی قیمتی جانیں اس آگ کا ایندھن بنیں۔ با اختیار طبقات کے ساتھ بہت سے علمائے کرام نے بھی اس پہ چشم پوشی کی اور بوجہ مصلحت خاموشی اختیار کی۔ ایسے میں مولانا طارق جمیل صاحب ہی میدان عمل میں بروئے کار آئے اور نفرتوں کی خلیج کم کرنے میں مدد دی اور ہمیشہ ایک امت بننے کا درس دیا۔

ہمیں مولانا صاحب کی سوچ اور فکر سے اختلاف تو ہو سکتا ہے لیکن ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اتنے بڑے عالم سے رائے کا حق نہیں چھین سکتے۔ بڑی مشکل سے کوئی ایسی شخصیت سامنے آئی جن کا معاشرے کے ہر طبقہ میں احترام ہے ان کا وقار برقرار رہنا چاہیے کہ وہ کس طرح بے لوث ہو کر دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ ریاست کو مضبوط بنانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ایسے علماء معاشرے کے ماتھے کا جھومر ہیں اس لیے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے انہیں متنازع بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).