افغان طالبان سے مذاکرات اور امید کی کرن


طالب پلاوی

پاکستان کی کوششوں سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں افغان طالبان اور امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں بھی شامل ہیں

افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان متحدہ عرب امارات میں جاری امن مذاکرات پہلی مرتبہ ایک ایسے ماحول میں ہو رہے ہیں جب ہر طرف ایک امید کی فضا بنی ہوئی ہے اور خطے کے تمام مالک اس عمل کو نتیجہ خیز ہونے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

ان مذاکرات کا ایک اہم فریق افغان حکومت اگرچہ اس عمل میں براہ راست شامل نہیں لیکن اس کے باوجود افغان حکومت کی طرف سے امن کی حالیہ کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا گیا ہے۔

پاکستان کی کوششوں سے شروع ہونے والے ان مذاکرات میں افغان طالبان اور امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ یہ مذاکرات گذشتہ روز شروع ہوئے جو آج بھی جاری رہیں گے۔

سوال یہ ہے کہ ان مذاکرات سے اتنی زیادہ امیدیں کیوں وابستہ کی گئی ہیں؟ کیا طالبان یا امریکہ اپنے اپنے سخت گیر موقف سے ہٹ گئے ہیں یا کوئی اور وجہ ہے؟

اس بارے میں مزید پڑھیے

عمران افغان عوام کی آزمائش کے خاتمے کے لیے دعاگو

افغان حکومت کا طالبان کو سیاسی جماعت تسلیم کرنے کا اعلان

امریکہ کی جانب سے افغانستان میں جنگ بندی کا خیرمقدم

افغانستان: طالبان کا جنگ بندی میں توسیع سے انکار

افغان امور پر گہری نطر رکھنے والے سینئیر تجزیہ نگار سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ ان مذاکرات میں پہلی مرتبہ افغان طالبان کی طرف سے سنجیدگی نظر آ رہی ہے اور ان کے تمام گروپوں کے نمائندے اس بات چیت کا حصہ ہیں۔

انھوں نے کہا ‘اس سے پہلے افغانستان میں قیام امن کے لیے جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں ان میں صرف طالبان کے قطر دفتر کے نمائندے شامل ہوتے رہے لیکن حالیہ بات چیت میں آخری وقت میں طالبان کے عسکری اور سیاسی ونگز کے چار اہم نمائندے شامل کیے گئے جن میں ملا امیر متقی، قاری یحییٰ، ملا محب اللہ حماس اور ملا عباس اخوند شامل ہیں۔’

زلمے خلیل زاد

امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے گذشتہ تقریباً ایک مہینے کے دوران طالبان کے نمائندوں سے تین مرتبہ ملاقاتیں کیں

سمیع یوسفزئی نے کہا ‘آپ ایسا سمجھ لیں کہ ان مذاکرات میں طالبان کی ملٹری اور سیاسی قیادت براہ راست شامل ہیں حالانکہ پہلے اس طرح نہیں ہوتا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہا کہ اگرچہ طالبان افغان حکومت سے مذاکرات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن اب ان کی طرف سے بعض ایسے اشارے مل رہے ہیں جس سے لگتا ہے کہ وہ افغان حکومت سے بات چیت کے لیے آمادہ ہو جائیں گے جو یقینی طور افغان امن کے لیے ایک بہت بڑا ‘بریک تھرو’ ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں افغان امور پر کام کرنے والے بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں آخری وقت میں حصہ بنائے گئے افغان طالبان کے چار اہم نمائندے پاکستان کے دباؤ پر بات چیت میں شامل کیے گئے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان نمائندوں کو افغان طالبان کے سربراہ ملا ہبت اللہ اور حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر سراج الدین حقانی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ مذاکرات میں طالبان کے قطر دفتر کے نمائندے بھی شامل ہیں جن میں عباس ستنگزئی قابل ذکر ہیں۔

ادھر افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو جاری اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات میں جاری مذاکرات کے پہلے روز امریکی فوج کا افغانستان سے انخلا، فوجی کارروائیوں کی بندش اور افغانستان میں قیام امن کے عمل پر بات چیت کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ مذاکراتی عمل کا حصہ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے نمائندوں سے بھی بات چیت کی گئی۔

عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ

وزیر اعظم عمران خان کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد مانگی تھی

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے بھی گذشتہ روز ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے ابو ظہبی میں افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کو ممکن بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور وہ افغان عوام کی آزمائش کے ختم ہونے کے لیے دعاگو ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں ‘ قیامِ امن کے لیے پاکستان سے جو بھی بن پڑے گا وہ کریں گے۔

بعض افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات میں ابتدائی طورپر تین نکات پر بات چیت ہوئی ہے جن میں افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا، قیدیوں کا تبادلہ اور مستقل جنگ بندی شامل ہیں۔

تاہم ابھی تک اس ضمن میں سرکاری طورپر کسی بھی ملک کی طرف سے باضابطہ طورپر کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔

افغان امور پر نظر رکھنے والے ایک اور سینئیر صحافی عنایت اللہ کاکڑ کا کہنا ہے کہ بظاہر لگتا ہے کہ اس مرتبہ مذاکرات میں شامل طالبان کے تمام حامی ممالک شاید دل سے چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے عمل کو فروغ ملے۔

انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی انتظامیہ کی بھی خواہش ہے کہ وہ پرامن طریقے سے افغانستان سے نکل جائے اور شاید اسی وجہ سے کامیابی کا امکان زیادہ نظر آتا ہے۔

خیال رہے کہ امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے گذشتہ تقریباً ایک مہینے کے دوران طالبان کے نمائندوں سے تین مرتبہ ملاقاتیں کیں ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ نے مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے دورے بھی کیے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp