حکومت اور مکڑی کا جالا


پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز نے پہلی بار یونیورسٹی کی ایلومینائی کی تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر خالد کی مشفقانہ دعوت پر میں بھی وہاں موجود تھا۔ ڈاکٹر امجد مگسی اور پروفیسر شبیر جیسے نابغوں کی صحبت میسر تھی۔ بین الاقوامی امور، بین الاقوامی امور پر عبور رکھنے والوں سے زیر بحث نہ رہے یہ ممکن نہیں ہوتا۔ فرانس میں ییلو ویسٹ موومنٹ اور اس کے یورپ پر اثرات اور امریکہ سے تعلقات زیر بحث آ رہے تھے۔

میں نے گزارشات پیش کی کہ دنیا میں یہ پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ اس سے عالمی معیشت کی سرگرمیوں میں کمی آئے گی اور اگر ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہ موجودہ حالات میں سرے سے ممکن ہی نہیں کہ پاکستان اس کے اثرات سے محفوظ یا لا تعلق رہ سکے۔ امریکہ جب ماحولیاتی تبدیلی کے معاہدے سے ٹرمپ کے برسر اقتدار آنے کے بعد جدا ہوا تو سطحی نظر رکھنے والوں کے لئے عموماً یہ معاملہ تھا کہ ٹرمپ اپنے مزاج میں ایک جولانی رکھتے ہیں اس لئے وہ اس قدم کو کر گزرے ہے۔

مگر معاملہ فہم جانتے تھے کہ یہ امریکہ کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے اس معاہدے تک ان ممالک کو لے آئے اور پھر اپنی سستی معیشت کی حکمت عملی کے نام پر اس سے جدا ہو جائے تا کہ یورپ اس معاملے پر منقسم ہو جائے پھر دنیا میں ہر جگہ اشرافیہ اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی خاطر اپنے معاملات کو درست کرنے کی بجائے معاشی بوجھ عوام پر منتقل کرنے کے حربے اختیار کرتی ہے۔ فرانس میں بھی ماحولیاتی تبدیلی کے معاہدے پر عملدرآمد کی جو قیمت فرانسیسی معیشت کو ادا کرنی تھی اس کی وصولیابی کا یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا کہ فیول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا۔

لا محالہ اس کا بوجھ عام طبقے پر ہی پڑنا تھا۔ اس میں کوئی دوسری رائے قائم نہیں کی جا سکتی کہ وہاں پر اپنی ذاتی ضروریات کے حوالے سے شعور اچھی طرح موجود ہے۔ نتیجتاً فرانس میں ایک قابل لحاظ طبقے نے سڑکوں پر احتجاج کی راہ لی اور نظام مملکت اس حد تک ابتر کر دیا کہ فرانس کے صدر مکرون کو اپنے ٹیکسز میں اضافے کے فیصلہ کو سر دست واپس لینا پڑا۔ لیکن اس سب کے دوران معاملات اتنے دگرگوں ہو گئے کہ سی این این جیسے نشریاتی ادارے کو یہ سوال اٹھانا پڑ گیا کہ کیا مغربی جمہوریتوں کو بحران کا سامنا ہے؟

یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اگر اس کا جواب مثبت ہوا تو دنیا میں غیر معمولی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔ اگر غور کرے تو تبدیلی کا آغاز برطانیہ کے بریگزٹ کے فیصلے سے شروع بھی ہو چکا ہے۔ برطانیہ نے جب بریگزٹ کا فیصلہ کیا تو اس وقت سے برطانوی سیاست میں ایک ارتعاش کی کیفیت موجود ہے۔ موجودہ وزیر اعظم تھریسا مے ابھی اقتدار سے بیدخل ہونے کے قریب تھی بہرحال اعتماد کا ووٹ تو لے گئی لیکن بریگزٹ پر رائے شماری کو تاخیر میں ڈالنا پڑا۔

برطانیہ کے سامنے بھی یہ دو سوال کھڑے ہیں کہ یورپ سے ٹریڈ ڈیل کیا ہو گی۔ اور آئر لینڈ کے حوالے سے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کیونکہ ٹریڈ ڈیل کے لئے 21 ماہ کی مدت کا تعین ہے کہ اس میں معاہدہ ہو جائے۔ تاریخ بڑھائی جا سکتی ہے لیکن ان دونوں معاملات کی معیشت پر غیر معمولی اثرات مرتب ہو گئے۔ اور معیشت کے اثرات فیصلہ کن نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اگر یورپ اور برطانیہ میں معاشی صورتحال میں فرق آتا ہے تو دنیا اس بات کا تذکرہ کر رہی ہے کہ اس سے معیشت کی رفتار میں لازمی طور پر ایک آہستگی آ جائے گی۔

اور اس سے پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال منفی اثرات قبول کیے بنا نہیں رہ سکتی۔ اس متوقع چیلنج کے در پیش ہونے کے ساتھ ساتھ علاقائی حالات بھی پاکستان کے لئے فوری چیلنج بنتے چلے جا رہے ہیں۔ بھارت میں اگلے برس عام انتخابات کا انعقاد ہو گا۔ بھارتی ریاستوں کے حالیہ انتخابی نتائج موجودہ حکمران جماعت بی جے پی کے لئے کوئی ایسے خوش کن نہیں ایسی صورتحال میں مودی سرکار دوبارہ صاحب اقتدار ہونے کی غرض سے کوئی نہ کوئی ایسا اقدام کر سکتی ہے کہ جس سے وہ اگلے عام انتخابات میں پاکستان دشمنی کے جذبات کو بھڑکا کر اپنے مقاصد حاصل کر سکے۔ جو پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دے۔ کیونکہ ہماری طرف سے صرف گگلیاں ہی کروائی جا رہی ہیں اور سنجیدگی کا وہ عنصر ناپید محسوس ہوتا ہے جو بھارت میں اتارچڑھاؤ کے پاکستان پر اثرات کا مطالعہ کرے اور منفی اثرات کے تدارک کا اہتمام کرے۔

علاقائی سطح پر بات صرف بھارت کی نہیں ہے بلکہ بنگلہ دیش میں بھی اس ماہ کے آخر میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے والا ہے اور اگر وہاں کی بھی انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ حکمران جماعت عوامی لیگ رج کر پاکستان مخالفت تذکرہ کر رہی ہے۔ وہاں آج بھی ذہن 16 دسمبر 1971 ؁ء تک ہی محدود ہے۔ جب رائے دہندگان کی توقعات پر پورا نہ اتر اجا رہا ہو تو اس صورت میں اپنی کارکردگی کی بجائے صرف دوسرے کی دشمنی پر سیاست کی جاتی ہے۔

پاکستان میں بھی اس وقت حکمران جماعت اسی طرز عمل کو اختیار کیے ہوئے ہے۔ لاہور میں محترم محمود شام نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔ وہاں پر پاکستان کے مستقبل کے حالات پر احباب سے گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ ان چیلنجز کا ذکر ہوا تو اسد عمر کی بی بی سی کے ہارڈ ٹاک میں کی گئی گفتگو زیر بحث آ گئی کہ آئی ایم ایف کے کہنے سے پہلے ہی بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کر ڈالی ہے۔ انہوں نے روپے کی قدر میں کمی کو اپنی حکومت کی حکمت عملی قرار دیا۔ حالانکہ اس سے مزید معاشی ابتری اور مہنگائی کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ اور نہ ہی سیاسی استحکام حاصل ہو گا۔ یہ سیاسی استحکام ہی تھا کہ جس دن نوازشریف کو حکومت سے علیحدہ کیا گیا تو زر مبادلہ کے ذخائر تقریباً 23 ارب ڈالر تھے۔

مگر اس کے بعد بدترین سیاسی عدم استحکام کے سبب سے اب 8 ارب ڈالر بھی پوری طرح نہیں رہ گئے ہیں۔ رقم ہو گی تو کسی معاشی چیلنج سے نپٹا جا سکے گا اور عوام پر بوجھ بھی نہیں پڑے گا۔ ویسے حکومت صرف قائم رہنے کے لئے سوچ بچار کر رہی ہے۔ نہ کے اس کا مقصد کسی عالمی یا علاقائی چیلنج سے نپٹنا ہے۔ کیونکہ اگر ان معاملات سے نپٹنا درکار ہوتا تو ایک کو جرمانہ کرنا اور خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کو گرفتار کرنے جیسے اقدامات سے باز رہا جاتا۔ کیونکہ ان اقدامات سے صرف سیاسی ابتری پھیلے گی۔ حکومت کاردگی کی عدم موجودگی کے باعث مخالفین پر چڑھ دوڑ کر حکومت مضبوط کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ ایسی مضبوطی بس مکڑی کے جالے جتنی مضبوطی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).