سقوط ڈھاکہ اور پشاور اسکول کا سانحہ


سقوط ڈھاکہ کا سانحہ سولہ دسمبر کے ہی دن رونما ہوا اور پھر یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ چند سال پہلے اسی دن قوم کے سو سے زیادہ نونہالوں کو پشاور کے ایک اسکول میں خون آشام درندوں نے اپنی بربریت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس سانحے پر پوری دنیا ہل کر رہ گئی۔ واقعہ کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کرلی جو ہمارے ہی اداروں کی سرپرستی میں پروان چڑھے اور ہمارے ہی مدرسوں میں تیار کیے گئے لیکن ان درندوں نے اسی قوم کو خون میں نہلادیا۔

دوسری طرف بے حس حکمرانوں نے اس عظیم قومی سانحہ پر چند نمائشی اقدامات سے آگے کچھ نہیں کیا اور شہید معصوم بچوں کے رورتے تڑپتے والدین کو وہی پرانی ”شہادت“ کی لولی پاپ تھمادی گئی۔ دونوں سانحات کے ذمہ دار آج بھی انصاف کے کٹہرے سے دور ہیں اور قوم اس حقیقت سے بے خبر اور لاعلم کہ ایسا کیوں ہوا کس نے کیا اور اسکاآئندہ اس کا تدارک کیسے ممکن ہے۔

کچھ عرصہ قبل طالبان کے ایک سرکردہ رہنما احسان اللہ احسان کو سرکاری سطح پر ٹی وی پر پیش کیا گیا۔ یہ وہی احسان اللہ احسان ہے جس نے پشاور اسکول پر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی لیکن اب ”حکومتی مہمانوازی“ کے لطف اٹھا رہا ہے۔ اس درندہ صفت انسان کو ٹی وی چینلز پر ا یک اعلی سرکاری افسر نے معصوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی اور اس کے صفائی میں دلائل بھی پیش کیے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ قوم کے ساتھ اس قسم کے بیہودہ مذاق کیوں کیے جاتے ہیں۔

کیا یہ لوگ انسانی جذبات اور احساسات سے بالکل عاری ہیں۔ کیا اس عمل سے معصوم شہیدوں کے والدین کے زخموں پر مزید نمک پاشی نہیں ہوئی ہوگئی۔ لگ بھگ انہی دنوں تحریک طالبان کے حمایتی جماعت اسلامی کے ایک سابق امیر جناب منور حسن خان نے تو کمال ہی کردیا انہوں نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں طالبان کو ”شہید“ قرار دیا لیکن پاکستانی سپاہی کی شہادت پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔

سابقہ مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے خون آشام لشکر البدر اور الشمس نے ”حب پاکستان“ کی آڑ میں اپنے مخالفین پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی اور بنگالیوں پر وہ مظالم ڈھائے کی انسانیت لرز کر رہ گئی۔ جماعت اسلامی کے بانی سیدی مودودی کے صاحبزادے فاروق مودودی اپنے ایک انٹرویو میں دعوی کیا کہ اسلامی جمیعت طلبا کے ایک رہنما بیک وقت پندرہ پندرہ بنگالیوں کو لائن سے کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دیا کرتے تھے۔

ایسے ہی مظالم اور رویوں نے بنگالیوں میں جو پہلے ہی ہمارے ہاتھوں سماجی اور معاشی نا انصافیوں کا شکار تھے ان کے دلوں میں ”شالا بہاری اور پونزابیوں“ کے خلاف مزید نفرت کا زہر بھر دیا۔ کیسا اندھیر ہے کہ شاید دنیا میں یہ پہلا واقعہ ہو کہ جب اکثریت ”غدار“ قرار دی گئی۔ ووٹ کے ذریعے ثابت ہونے والی بنگالیوں کی اکثریت کو جھٹلایا گیا۔ ان کی حق تلفی کی گئی بنگالیوں کی نسل کشی کی گئی ان کی خواتین کی بڑے پیمانے پر بے حرمتی کی گئی جس کا اظہار بدنام زمانہ جرنل نیازی نے جن الفاظ میں کیا وہ ناقابل بیان ہیں۔

ان سے پہلے ایک اور سورما ٹکا خان فرما چکے تھے کہ ”ہمیں بنگالی نہیں زمین چائیے“ ان مظالم اور فرعونی رویوں کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آیا۔ ہماری ان غلطیوں کا بھارت نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بنگالیوں کی محبت کی آڑ میں اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں اتاردیں اور وطن عزیز کو دو لخت کردیا اور دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کردیا گیا۔ حبیب جالب نے اس موقع اپنے احساسات کا اظہار کچھ یوں کیا۔

محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہاہے
یقیں مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

سقوط ڈھاکہ ہو کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول ایک ہی نظریے کے لوگ ان کے پیچھے نظر آتے ہیں اور اسی فکر کے حامل افراد نے وطن عزیز میں پچھلی کئی دہائیوں سے دہشت اور بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ غیر مسلم پاکستانی (میں انہیں اقلیت نہیں مانتا) ہوں۔ کوئٹہ کی شیعہ برادری ہو یا ایک عام نہتا پاکستانی ان درندوں کے سفاکی سے نہیں بچا۔ ہر طبقے اور ہر سطح کے لوگ ان کی دہشت کا نشانہ بنے اور اندازے کے مطابق ابتک ایک لاکھ کے قریب بے گناہ معصوم شہری اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کون جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہیگا اور کب ان بھیڑیوں کی سرپرستی ختم ہوگی اور کب ان کا قلع قمع کیا جائے گا۔

سقوط ڈھاکہ کو اب لگ بھگ اڑتالیس برس بیت گئے لیکن ہنوز قوم حقائق سے بے خبر ہے۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو شائع نہیں کیا گیا۔ بھلا ہو کہ چند غیر ملکی اخبارات نے اسے شائع کر دیا تو اس وقت کی حکومت نے اپنی خفت مٹانے کو اس رپورٹ کے چیدہ چیدہ حصے مقامی اخبارات میں شائع تو کیے لیکن اس کا کیا فائدہ ہوا۔ کیا حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں جن افراد کو مشرقی پاکستان کے سقوط کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جن کو مظالم اور لوٹ مار کا مجرم ٹھرا یا گیا ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا۔

کیا کبھی ہم نے ملک توڑنے والوں کے خلاف کوئی ایسا ٹراِہیونل یا کمیشن بنایا جو ان مجرموں کو قرار واقعی سزا دے سکتا۔ کیوں نہیں ہم نے نیورمبرگ کے طرز پر کوئی ایسی عدالت کی تشکیل نہیں کی جو اس سانحے کے ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دیتا۔ کسی ”قوم“ کی اس اس سے بڑی بدنصیبی اور کیا ہوگی کہ ملک ٹوٹ گیا اور ایک ایف آئی آر نہیں کٹی۔ کوئی ایک گرفتاری نہیں ہوئی، کسی کو آجتک مورد الزام نہیں ٹھرا یا گیا اور کسی کو ایک گھنٹے کی بھی سزا نہیں ہوئی۔

آپ حضرات بنگالیوں کو جتنی چاہے گالیاں دے لیں کم از کم اپنی تاریخ تو لکھ رہے ہیں اور اپنے ”مجرموں“ کو سزائیں بھی دے رہیں۔ البدر اور الشمس کے دستیاب افراد پر مقدمے چلاکر انہیں پھانسیوں پر لٹکا یا جارہا ہے۔ اب یہ الگ بحث کے کہ ان کے فیصلے صحیح ہیں یا غلط لیکن یہ ایک ننگی حقیقت ہے کہ البدر اور الشمس نامی تحریکوں نے سابقہ مشرقی پاکستان میں فوج کے ساتھ ملکر اپنے بدلے بھی چکائے۔ اس موضوع پر بے شمار کتابیں دستیاب ہیں جن میں تفصیلات موجود ہیں۔

میرا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ مکتی باہنی بہت معصوم تھی اور انہوں نے کچھ نہیں کیا جب جب اور جہاں جہاں ان کا بس چلا انہوں نے بھی بربریت کی انتہا کردی۔ نفرتوں کے کھیل میں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ انسان درندہ بن جاتا ہے اور اچھے برے کی تمیز جاتی رہتی ہے محض انتقام اور مفادات ہی ان کے سامنے باقی رہتے ہیں۔ تاریخ اس کی گواہ ہے کہ خون کے رشتے بیگانہ ہوجاتے ہیں اور انسان بھڑیا بن جاتا ہے۔

دنیا کا یہی دستور ہے کہ ایک قوم کا غدار دوسری قوم کا ہیرو ہوتا ہے۔ راشد منہاس ہمارا ہیرو ہے اور بنگالی فلائٹ لیفٹیننٹ مطیع الرحمان ہمارا غدار لیکن ہمارا یہی غدار بنگالی قوم کا ہیرو اور ان کے نزدیک شہید ہے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد اس کی لاش پاکستان سے بنگلہ دیش لاکر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ بنگلہ دیش کے پرچم میں لپیٹ کر دوبارہ دفنائی گئی اور توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔

اسرائیل آج بھی ہولوکاسٹ کے بچے کھچے جرمن نازی افسروں کو دنیا کے کونے کھدروں سے ڑھونڈ کراسرائیل لاتے اور سزا دیتے ہیں ایک صحافی نے جب ایک اسرائیلی افسر سے سوال کیا کہ اب ان نازی افسران جن کی عمریں اس وقت اسی اور نوے سال سے بھی تجاوز کر چکی ہیں ان کو اب سزا دینے کا کیا فائدہ تو اس افسر نے جواب دیا اس سزا سے ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ غلط تھے اور انہوں نے ظلم کیے تھے بات ہے اصول اور پرنسپل کی جو ہم ثابت کررہے ہیں۔

لیکن شاید ہمارا حافظہ بہت کمزور ہے یا پھر ہم مسائل اور سانحات پر مصلحت کی چادر ڈال کر مطمئن ہو جاتے ہیں اور ایک لمبی نیند میں چلے جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں اور کسی نئے سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ تاریخ بہت ظالم ہوتی ہے وہ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ آنے والا مورخ ہماری اس کوتاہی اور چشم پوشی سے ضرور پردہ اٹھائیگا۔ سچ کو وقتی طور پر تو شاید دفن دیا جائے لیکن سچ تاریخ کے صفحات میں زندہ رہتی ہے جسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ زندہ قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں اور ایسی پالیسیاں وضع کرتی ہیں کہ ایسا پھر کبھی نہ ہونے پائے۔

ہمارا تو یہ حال ہے کہ آج بھی ہم خواب غفلت میں پڑے اپنے کسی سنہری ماضی میں گم ہیں۔

جالب نے اسی کیفیت کو کچھ یوں بیش کیا۔
سر ممبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں۔
علاج غم نہیں کرتے فقط تقریر کرتے ہیں۔
حسیں آنکھوں مدھر گیتوں کے سندر دیش کو کھوکر۔
میں حیراں ہوں وہ ذکر وادی کشمیر کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).