اٹھانے گرانے کا موسم


عدنان محسن نے اپنے ایک لازوال شعر میں کہا تھا
ہم ایسے لوگوں کی پہچان مجمع بازی ہے
ہم ایسے لوگوں کا نام و نسب تماشا ہے!

ایک لمحے کے لیے ٹھہریے، اب اس شعر کے پہلے مصرعے کو اور پھر دوسرے مصرعے کو ازسرِنو پڑھیے۔ دوبارہ پڑھ چکنے کے بعد موجودہ حکومت کے اوپر سے لے کر نیچے تک تمام ذمہ داران پر نظر دوڑائیے۔ نظر دوڑا لینے کے بعد اب آپ کو بھی ہماری طرح یہ شعر مکمل طور پر اس حکومت پر منطبق ہوتا ہوا محسوس ہو گا۔

قریب چار ماہ گزر چکنے کے بعد بھی نئی حکومت مجمع بازی سے بایر آ کے نہیں دے رہی۔ وجہ شاید یہی ہے کہ حکمران جماعت کے ”نسب“ میں ایک سو چھبیس دن کا دھرنا خود اسی جماعت کے ذمہ داران جلی حروف میں تحریر کرتے رہتے ہیں۔ ان ذمہ داران کا دعویٰ ہے کہ اس دھرنے کے نتیجے میں تحریکِ انصاف نے قوم اور بالخصوص نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا تھا۔ اب خدا جانے یہ سیاسی شعور کے حامل نوجوان کس منطقے پر پائے جاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر ایک طائرانہ سی نگاہ بھی آپ کے سامنے اس نسل کے سیاسی شعور اور تربیت کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیتی ہے۔

یہ نسل ہر دلیل کا جواب بے محابہ گالیوں سے دینے کا ہنر سیکھ چکی ہے۔ اور شاید یہ اسی کنٹینر کی دین ہے کہ جہاں سے دھرنے کے دنوں میں ہمیں اور آپ کو اپنے سیاسی مخالفین کے لیے اوئے توئے، ابے تبے، اور پھر اس سے بھی آگے جا کر ان الفاظ سے تخاطب سننے کو ملا کرتا تھا کہ جس کو احاطہِ تحریر میں لانا ہمارے لیے قطعی خوشگوار عمل نہ ہوگا۔

قطع نظر اس کے کہ ان ایک سو چھبیس دنوں میں کس نوعیت کے شعور کا تبرک نوجوان نسل میں بانٹا گیا لیکن ایک کام ضرور کیا جاتا رہا کہ روز ایک اعلان ہوتا تھا کہ کل ہم نئے رازوں سے پردہ اٹھائیں گے، کل ضرور تشریف لائیے۔ اور پھر اگلے روز اپنے اس اعلان کا بھرم رکھبے کے لیے کبھی کوئی بے بنیاد دعویٰ کر دیا جاتا، کبھی سول نافرمانی کے نام پر بجلی کے بل سرِعام جلا دیے جاتے، کبھی کسی لیڈر اور علاقے کے پہناوے کی تضحیک کر کے کچھ نہ کچھ نعرے بازی، کسی ہنسی مذاق، کسی ٹھٹھے کا کوئی نہ کوئی سامان برآمد کر لیا جاتا۔ اور اگلے روز کے لیے وہی اعلان دہرا دیا جاتا، کہ تماشا کرنے والے یونہی تو کیا کرتے ہیں، رومال سے کبوتر نہ بھی نکلے تو اعلان کرتے رہنے میں حرج ہی کیا تھا۔ سو یہ اعلانات لگاتار دہرائے جاتے رہے۔

وقت برے بھلے گزر گیا، انتخابات ہو گئے اور دھرنے والی جماعت کسی نہ کسی طرح حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ ادھر حکومت بنی اور ادھر اس باشعور نسل کے لیے رونق کا سامان ناپید ہوتا چلا گیا کہ ظاہر ہے کارِ حکومت بہرحال سنجیدگی کا تقاضا کرتا تھا۔ لیکن تماشبینوں کا کیا کیا جائے کہ جنہیں تماشے کی لت پڑ چکی تھی۔ ان کی بوریت محسوس کرتے ہوئے ایسے اقدامات کا ڈول ڈالا گیا کہ جن کے ذریعے رونق لگی رہے اور حکمران جماعت کی لائف لائن یعنی سوشل میڈیا پر جماعت کے حامی نوجوان اپنی توانائیوں کا بھرپور استعمال کرتے رہیں۔

اسی سلسلے کی ایک کڑی مختلف سرکاری عمارتوں تک عوام کی بلا روک ٹوک رسائی بھی تھا۔ اس مقصد کے لیے مختلف گورنر ہاؤسز کو ہر ویک اینڈ پر عوام کے لیے کھولا جانے لگا۔ چند ہفتے دھما چوکڑی مچی لیکن پھر یہ تماشا بھی ٹھنڈا پڑ گیا کہ آخر کب تک ایک ہی تماشے سے لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ اب کوئی نئی ترکیب سوچی گئی۔ تعمیر کے بجائے تخریب میں ویسے ہی ہم زیادہ لطف محسوس کرتے ہیں۔ کہیں کچھ بن رہا ہوتا تھا یا بن چکا ہوتا تھا تو ہم نعرے لگاتے تھے کہ یہ دکھاوا ہے اصل مقصد کمیشن بنانا ہے۔ اس لیے تعمیر کی طرف جانے کی بجائے ڈھانے کی طرف جانے کا سوچا گیا۔ کئی شہروں میں تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر ہزاروں لوگوں کو جو روٹی کے لالے پڑ چکے وہ اپنی جگہ ساتھ یہ سوال بھی سر اٹھاتا رہا کہ یہ عمل کس حد تک مبنی بر انصاف ہے اور کون کون اس مہم کی زد سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔

تخریب کے اسی کلیے سے دل لگی اور رونق کا سامان پیدا کرنے کے لیے اگلا قدم گورنر ہاؤس لاہور کی دیواریں گرا کر اس کے گرد ایک ”خوبصورت“ آہنی جنگلہ لگانے کا اعلان تھا۔ یہ سوال کسی نے نہیں کیا کہ کیا اب بھی ایسے مجاہد میسر ہوں گے جو اس آہنی جنگلے پر ثبت کسی مہر کی مدد سے یہ ثابت کر سکیں کہ اس جنگلے کی تیاری میں فلاں فاؤنڈری کا لوہا استعمال کر کے ایک مخصوص خاندان کو مالی منفعت سے نوازا گیا ہے۔ ابھی گورنر ہاؤس کی دیوار گرانے اور جنگلہ اٹھانے کا کام شروع نہیں ہوا تھا کہ عدالت کے ایک فیصلے کے بموجب اس منصوبے پر کام تاحکمِ ثانی روک دیا گیا ہے۔ لیکن اس دوران محترم وزیر اعظم صاحب نے ایک جگہ یہ ارشاد فرمایا کہ ہم اس دیوار کو اس لیے گرانا چاہتے ہیں تاکہ گورنر ہاؤس کے لان کا خوبصورت سبزہ سڑک سے گزرنے والوں کو نظر آ سکے۔

وزیراعظم صاحب لاہور ہی کی جم پل ہیں۔ لاہوری ہونے کے ناطے ہم ان سے یہ گمان نہیں کر سکتے کہ انہیں یہ علم نہ ہو کہ لاہور کی کن عمارتوں کے گرد لگے جنگلوں پر پہلے لوہے کی دبیز چادریں چڑھا دی گئیں اور بعد ازاں ان کو مستقل پختہ دیواروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ عمارتیں گورنر ہاؤس سے چند ہی فرلانگ کے فاصلے پر تو موجود ہیں۔ گورنمنٹ کالج کے اوول گراؤنڈ میں لگی گھاس چاہے گورنر ہاؤس میں لگی گھاس جتنی قیمتی نہ ہو لیکن جنابِ وزیراعظم سڑک سے گزرتے اس گراؤنڈ کا نظارہ مستقبل کے لیے امید ضرور بندھوا دیا کرتا تھا۔

اولڈ کیمپس کے دہائیوں پرانے جنگلے سے جب نظر آرٹس کالج کے طلباء کو کسی پراجیکٹ کے لیے عمارت کے گنبدوں کے اسکیچیز بناتے دیکھ کر لگا کرتا تھا کہ تعمیرِ وطن کے لیے ایسے ہاتھ ضرور میسر ہیں جو اس عمارت کو اونچا اٹھا سکتے ہیں، این سی اے کے سامنے سے گزرتے تھے تو ایک دفعہ اندر داخل ہو کر ان ہنر مند نوجوانوں کو دیکھنے کا اشتیاق ضرور پیدا ہوتا تھا جو جانے کب سے ہمارے ارد گرد کی بدصورت بے رنگیوں کو خوبصورت رنگ بخش رہے ہیں۔ یہ تعلیمی ادارے بنکرز کا منظر پیش کیوں کرنے لگ گئے؟ کن کو ہماری نسلوں کا کھلے ماحول میں تربیت پانا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا؟ ہم نے ان اداروں سمیت ملک بھر کے ہزاروں تعلیمی اداروں کو قلعوں میں تبدیل کر کے کن کے سامنے گھٹنے ٹیکے ہیں؟

مجمع بازی سے فرصت ہو تو ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اور اٹھانے کے بعد گرانے کا موسم لانا ہی چاہتے ہیں تو کیوں نہ نوجوان نسل کو اور تعلیم کو آزادانہ ماحول فراہم کر دیا جائے؟ باقی اگر یہ نہیں کر سکتے تو گورنر ہاؤس کے سبزے کے نظارے کا اہتمام بھی رہنے ہی دیجے کہ آپ کے پرستار دھرنے کے دنوں کے ساون کے اندھے ہیں انہیں یوں بھی ہر طرف ہرا ہی نظر آ رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).