محسن داوڑ اور علی وزیر کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی منظوری


علی وزیر اور محسن

پاکستان کی وفاقی کابینہ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے دو ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کی منظوری دے دی ہے۔

دوسری طرف پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی نے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر ایک تحریک استحقاق جمع کروائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جس مقدمے کو بنیاد بنا کر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے اس مقدمے میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے۔

محسن داوڑ اور علی وزیر کا کہنا ہے کہ اگر ایف آئی آر میں نام ہونے کو بنیاد بنا کر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے تو پھر وزیر اعظم عمران خان کا نام بھی ای سی ایل میں شامل کیا جائے کیونکہ ان کے خلاف بھی متعدد مقدمات درج ہیں۔

محسن داوڑ اور علی وزیر کے نام ای سی ایل میں ڈالے جانے کے بارے میں وزارت داخلہ کے خصوصی سیکرٹری ڈاکٹر عامر نے انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا۔

وزارت داخلہ کے خصوصی سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی کو یہ نہیں بتایا کہ کابینہ کے کون سے اجلاس میں ان دونوں ارکان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دی تھی۔

داخلہ امور کے وزیر مملکت شہر یار آفریدی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ جب ریاست کے اداروں کو چیلنج کیا جائے گا تو حکومت کوئی بھی اقدام اُٹھانے سے دریغ نہیں کرے گی۔

اسی بارے میں

محسن داوڑ اور علی وزیر ایف آئی اے کی تحویل میں

’پارلیمان کے اندر بھی وہی کہوں گا جو باہر کہتا تھا‘

’پی ٹی ایم ہماری روح ہے، اس کے بغیر انسان نہیں جی سکتا‘

’پشتون تحریک کو دشمن قوتیں استعمال کر رہی ہیں‘

نامہ نگار شہزاد نملک کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اجلاس سینیٹر مصطفی کھوکھر کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں مذکورہ دونوں ارکان اسمبلی کو شرکت کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔

محسن داوڑ نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ای سی ایل میں ان کا نام 29 نومبر کو ڈالا گیا تھا جس کی وجہ سے انہیں اور دوسرے رکن قومی اسمبلی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے حامیوں کو دوہا جانے والی پرواز سے آف لوڈ کیا گیا جس پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کا کہنا تھا کہ ان دونوں ارکان کے نام ای سی ایل میں ہونے کے باوجود صرف عدالت کے حکم کے مطابق دونوں افراد کو باہر جانے سےروکا گیا۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر انوسٹیگیشن مظہر کاکا خیل نے کمیٹی کو بتایا کہ جتنی دیر میں ای سی ایل متحرک ہوتی ہے اتنی دیر میں ملزمان نکل جاتے ہیں اس لیے لوگوں کے نام پی آئی این ایل میں ڈالتے ہیں جو کہ فوری طور پر متحرک ہوجاتا ہے۔

شہریار آفریدی نے انسانی حقوق کمیٹی میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ بارہا محسن داوڑ اور علی وزیر کے پاس گئے کہ ماضی میں جو بھی غلط فہمیاں تھیں ان کو ختم کرنا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ان دونوں ارکان کے نام پہلے ای سی ایل میں شامل نہیں تھے اور اس ضمن میں اُنھوں نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی سمیت تمام متعلقہ اداروں سے پوچھا تھا لیکن کسی نے بھی ان کا نام ای سی ایل میں نہیں ڈلوایا۔

پی ٹی ایم رہنماؤں کے خلاف کارروائی کیوں؟

شہریار آفریدی نے کہا کہ ایک جگہ پر نفرت انگیز تقاریر کی گئیں تھیں جس کی بنا پر ان دونوں افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔

اُنھوں نے کہا کہ جب وہ ایس پی طاہر داوڑ شہید کی لاش لینے کے لیے گئے تو افغان قبائل نے لاش دینے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ یہ لاش محسن داوڑ کے حوالے ہی کریں گے۔

شہر یار آفریدی کا کہنا تھا کہ افغان جرگے کے افراد نے کہا کہ وہ منسٹر سے نہیں بلکہ پی ٹی ایم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔

داخلہ امور کے وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اختیارات تھے کہ وہ محسن داوڑ کو روک لیتے لیکن اُنھوں نے ایسا نہیں کیا۔

محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس نے طاہر داوڑ کے قتل کے بارے میں ایک فیصد بھی تحقیق نہیں کی۔ اُنھوں نے کہا کہ پولیس کو شاید پتہ تھا کہ کس نے اغوا کیا اس وجہ سے انہوں نے تفتیش شروع تک نہیں کی۔

پشتوں تحفظ موومنٹ کے ایک اور رکن علی وزیر نے کہا کہ انتخابات سے پہلے اُنھیں ایک کرنل کا فون آیا اور کہا کہ عمران خان اُن سے بات کرنا چاہتے ہیں جس پر اُنھوں نے فوجی افسر سے کہا کہ وہ ان سے بات نہیں کرنا چاہتے ہاں اگر عمران خان ٹیلی فون کریں تو وہ ان سے بات کریں گے۔

علی وزیر نے دعوی کیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اُنھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دینے کا کہا جس پر انھوں نے ٹکٹ لینے سے انکار کردیا۔

واضح رہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت کی طرز سیاست سے نالاں ہے اور فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اس جماعت کی قیادت پر اپنی ناراضگی کا اظہار متعدد بار کیا ہے۔

حال ہی میں صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم ہونے والے علاقوں جنوبی وزیر ستان اور شمالی وزیرستان میں اس جماعت کا ایک قابل ذکر ووٹ بینک موجود ہے۔ مبصرین کے مطابق اس جماعت کی حمایت میں صوبہ بلوچستان میں بھی اضافہ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

پاکستان کی سکیورٹی فورسز شمالی اور جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خاتمے کے لیے راہ نجات اور ضرب عضب کے نام سے آپریشن بھی کیے گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp