انصاف اور صرف انصاف


تقریبًا ڈھائی ہزار سال قبل چین کا عظیم فلسفی اور مفکّر کنفیوشس اپنے پیروکاروں کے ساتھ ایک جنگلی علاقے سے گزرا، تو ایک خاتون اپنی جھونپڑی کے دروازے پر اکیلی بیھٹی ملی۔ کنفیوشس خاتون کو دیکھ کر اپنا گھوڑا اس کے پاس لے گیا اور پوچھا کہ تمھارے ساتھ اس گھر میں اور کون رہتا ہے؟

خاتون نے جواب دیا کہ میرا شوہر اور میرا بیٹا میرے ساتھ تھے لیکن اب دونوں اس دُنیا میں نہیں رہے۔
کیوں؟ کیا ہوا ان کو؟

خاتون کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہا اس علاقے کے چیتے بہت خونخوار ہیں چند سال پہلے وہ میرے شوہر کو چیڑ پھاڑ کر کھا گئے۔ اور ایک سال پہلے یہی حادثہ میرے اکلوتے بیٹے کے ساتھ بھی پیش آیا۔

کنفیوشس نے خاتون کی روداد سنی تو ایک گمھبیر اُداسی نے آن لیا۔ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا کہ جب اس علاقے کے چیتے اتنے خطرناک ہیں اور تم اکیلی بھی ہو تو اس جگہ کو چھوڑ کر تم کسی آباد اور محفوظ بستی کی طرف کیوں نہیں چلی جاتی، خاتون نے جواب دیا کہ میں یہاں رہنے کو اس لئے ترجیح دے رہی ہوں کہ اس علاقے کا حاکم بہت منصف مزاج ہے۔

کنفیوشس نے یہ بات سنی تو چونک پڑا اور پھر اپنے پیروکاروں کی طرف منہ کرکے کہا، پس ثابت ہوا کہ انسان ناسازگار حالات حتٰی کہ موت کے آس پاس بھی گزارنے کو ترجیح دیتا ہے۔ بشرطیکہ اسے وہاں ایک مکمل اور آسان انصاف حاصل ہو۔

اب کنفیوشس کی اسی بات کو ذہن میں رکھ کر ہم اپنے معاشرے اور سماجی زندگی کی طرف مڑتے ہیں۔ ہمارے وہ دوست اور عزیز رشتے دار جو پاکستان سے باہر یورپی ممالک اور دبئی وغیرہ میں محنت مزدوری کرتے ہیں، ہم ان کے منہ سے یہ بات سنتے ہیں اور بارہا سنتے ہیں کہ رہنے کے لئے پاکستان سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ لیکن کیا کریں ”مجبوری“ ہے۔

اب ہم مجبوری کے اس لفظ کا تعاقب کرتے ہیں تو آخری سرے پر نا انصافی ہی ہمارا منہ چڑا رہی ہوتی ہے یہی وہ آتش فشاں ہے جس سے ان ”مجبوریوں“ کے سارے لاوے پھوٹتے اور ہماری زندگی کو بھسم کردیتے ہیں۔

نا انصافی کے اس آتش فشاں کا لاوا پہلے ہماری اخلاقیات کی طرف بہہ کر آتا ہے جو سماجی زندگی کی بنیاد ہوتا ہے۔ جوں ہی یہ بنیاد (اخلاقیات) کمزور پڑتی ہیں۔ نا انصافی کو راستہ مل جاتا ہے اور پھر اس آگ کا الاؤ سماجی زندگی سے لے کر اداروں تک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، ایسے معاشروں میں نا انصافی نئے ناموں اور کاموں کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ مثلًا ہمارے معاشرے میں سیاست، سٹیٹس سیمبل، دولت اور منصب نا انصافی کے وہ نام بن گئے ہیں جنھیں ہم غیر شعوری طور پر قبول کیے ہوئے ہیں لیکن ہم اس کی کھوج لگانے کی کوشش کبھی نہیں کرتے وہ جو سپریم کورٹ نے پانامہ کیس پر فیصلہ دیتے ہوئے مشہور ناول گاڈفادر کے ابتدائی جملے کا حوالہ دیا کہ ہر دولت کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ہوتا ہے۔ تو ہمارے معاشرے میں یہ بات حقائق کے قریب تر ہے کیونکہ اخلاقی زوال کے شکار سماج اس طرح کی وارداتوں کو سازگار فضا مہیا کرتے ہیں

کچھ عرصہ پہلے ایک کانفرنس میں شریک تھا جس کا موضوع یہی تھا جو اس وقت زیر بحث ہے۔ کانفرنس کی کوآرڈی نیٹر نے مائیک میری طرف بڑھاتے ہوئے یہ سوال بھی رکھا کہ معاشرے میں نا انصافی کے خلاف تحّرک اور مزاحمت میں تیزی کیوں نہیں آرہی ہے؟ میں نے بات شروع کی تو میرا استدلال تھا کہ یہ مزاحمت اس لئے جان نہیں پکڑ رہی کہ معاشرہ نہ صرف انصاف کی عدم فراہمی کو قبول کیے ہوئے ہیں بلکہ ہر فرد انفرادی طور پر خود بھی نا انصافی کے اس عمل کا حصہ بنا ہوا ہے، ہم اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے مذہب، قانون اور اقدار کو بھی روندنے سے گریز نہیں کرتے یہی وہ اجتماعی نفسیات ہیں۔

جس نے معاشرے کو خود بھی نا انصافی کے اس بہاؤ میں شامل کیا۔ پھر مزاحمت اور تحریک کہاں سے آئے؟ ۔
میں سمجھتا ہوں کہ پہلے معاشرے اور ناآنصافی کو ایک دوسرے کے مقابل لانا ہو گا، جس کے لئے سب سے پہلے قانون کی عملداری یکساں لاگو کرنے اورا ثرورسوخ سے آزاد کرانے کے لئے عوامی سطح پر بھرپور اور مسلسل جدوجھدکرنا ہوگی، ساتھ ساتھ عوامی شعور کو اجاگر کرنے کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رکھنا ہوگا۔

کسی ایک واقعے کے پیچھے پڑنے کی بجائے تمام واقعات پر نظر رکھنی اور اسے اُٹھانا ہوگا (اس سلسلے میں میڈیا اور وکلاء حضرات کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہے )۔ سماجی سطح پر ہوئے استحصال جبر اور حقوق کی پامالی کے خلاف جدوجہد میں تمام طبقوں کی شرکت کو یقینی بنانا اور انہیں موبلائز کرنے کا عمل تیز کرنا ہوگا اس کے علاوہ معاشرے کو فکری طور پرایجوکیٹ کرنا ہوگا تاکہ دولت، منصب اور سٹیٹس سے مرعوب ہونے کی بجائے اس کی کھوج کی طرف مڑا جائے۔ اس عمل کے ذریعے کرپٹ اور بد دیانت لوگوں کو سماجی سطح پر کمزور اور تنہا کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے ( ان لوگوں کو سیاسی شیلٹر بھی کسی طور فراہم نہ کیا جائے ) جس سے معاشرہ دولت کی دوڑ اور بگاڑ کی بجائے محنت اور اعتدال کی راہوں پر جا نکلے گا۔

میں نے بات ختم کی اور مائیک ٹیبل پر رکھ کر نیچے اُتر آیا تو ہال دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ سٹیج سیکرٹری نے وہی مائیک ہاتھ میں لیا اور شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
انصاف کے حصول کے لئے ایک جینوئن اور سادہ سی جدوجہد کا سوال ہے بابا۔
وہ بھی کسی اورکے لئے نہیں بلکہ آپ ہی کے لئے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).