ہم وطنوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا وقت


تقریبا ڈیڑھ مہینہ پہلے کی بات ہے جب ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں ایک عورت اپنے بچے کو اٹھائے روئے جا رہی تھی اور اپنے بھائی کو عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ اس عورت کی آواز، اسکی تڑپ  اور فریاد کسی باضمیر انسان کا دل دہلانے کے لئے کافی تھے۔

لاپتہ افراد کا نام پہلی بار تب سنا تھا جب لسبیلہ سے جاوید نصیر اور ان کے کزن صمد حب چوکی سے اغوا ہوئے اور کچھ دن بعد فراز نامی شخص و امیت علی موٹک بھی اغوا ہوئے جس کے بعد لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ چونکہ یہ چاروں خاندان ہمارے قریب ہی تھے تو نا چاہتے ہوئے بھی امی کا وہان جانا ہوا اور ضد کر کے میں بھی ساتھ چل پڑی مگر وہان تو بس یہی فریاد ہر طرف تھے کہ فلاں لاپتہ فلاں کی لاش بر آمد۔

اسکے بعد اس معاملے پر نا ہمارے گھر کوئی بحث ہوتا اور نا میں کسی سے انکے بارے کچھ سنتی مگر ایک مرتبہ پھر یہ معاملہ تب شدت اختیار کر گیا جب ایک شخص ماما قدیر چند خواتین اور کچھ بچوں کے ساتھ لانگ مارچ کرتے ہوئے پیدل ہی آر سی روڈ حب کی شاہراہ سے گزرنے والے تھے۔ ہر طرف ہل چل نظر آ رہی تھی اور سب ہی چھپ کے اس مارچ میں شریک ہونا یا کم از کم تماشائی بن کر انکو دیکھنا ضرور چاہتے تھے۔

چونکہ اس وقت سمجھ فہم مجھ میں نہیں تھی تو بس سنتی اور کانوں سے نکال دیتی ذہن میں نا کچھ بیٹھتا نا کوئی سوال اٹھتا بس جب بھی آنسو دکھائی دیتے تو آنسو نکلتے، اس سے زیادہ کچھ محسوس نا ہوتا۔ مگر اب چونکہ کچھ سمجھ فہم حاصل کر چکی ہوں، بول سکتی ہوں، اپنے ذہن میں سوالات جنم دے سکتی ہوں تو اس لاپتہ افراد کے لفظ کو تلاش کرنا شروع کیا ان کے اس گناہ کبیرہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کرنا شروع کیا جس کی وجہ سے انہیں نا زندہ رہنے کا حق دیا جاتا یے نا مردوں میں مردوں میں انکا شمار کروایا جاتا ہے، وہ صرف خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔

اس وقت لاپتہ افراد کیمپ میں چند نام موجود ہیں جنکے بارے میں ناکافی مگر چند معلومات کچھ ہی دنوں میں سوشل میڈیا کی مدد سے حاصل کر چکی ہوں انہیں پہچاننے کے ساتھ ساتھ ان کا ساتھ دینے کی بھی ضرورت ہے۔

نصرللہ بلوچ:
چئیرمین وائس فار بلوچ مسینگ پرسنز ہیں اور تقریبا دس سال سے لاپتہ افراد کی آواز بلند کر رہے ہیں۔

ماما قدیر بلوچ:
ماما قدیر جو لاپتہ افراد کے کیمپ کی علامت بن چکے ہیں دنیا کے مختلف ملکوں کے سیمینارز میں لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھا چکے ہیں اور کوئٹہ سے اسلام آباد پیدل مارچ کی قیادت بھی انہیں کے پاس تھی۔

سیما بلوچ:
لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن ہیں جو پچھلے 49 دن سے علامتی بھوک ہڑتال کر کے حتجاج کر رہی ہے ۔

انسہ بلوچ:
11 سال انسہ بلوچ جو پہلی جماعت کی طالبہ ہیں اپنے بھائی عامر بلوچ کی بازیابی کے لئے احتجاجی کیمپ میں شریک ہوئیں جنہوں نے اپنے معصومانہ لہجے اور قدرتاً تقریر کے ھنر کی وجہ سے خوف کا خاتمہ کرنے اور لوگوں کے انسانی و قومی جذبے کو اجاگر کرنے میں کردار ادا کیا۔

تیمہنا بلوچ:
12 سالہ تیمہنا بلوچ بھی پہلی جماعت کی طالبا ہیں اور اپنے بھائی کہ تلاش میں احتجاج کر رہی ہیں۔

مہرنگ بلوچ:
7 سالہ معصوم مہرنگ بلوچ بھی اپنے والد نصیر بلوچ کی بازیابی کے لئے اپنے 3 سالی بھائی سنجر کے ساتھ احتجاج میں بیٹھی ہیں اور ایوان میں بیٹھے بے حس وزیروں کو مخاطب کر کے بار بار انکے ضمیر کو جگانے کی کوشش کرتی ہیں مگر وزیروں کا مردہ ضمیر زندہ ہونے کا نام تو نہیں لیتا مگر مہرنگ کے الفاظ نے لوگون کو اپنی طرف مائل کرنے میں ضرور کردار ادا کیا۔

زرینہ بلوچ:
زرینہ بلوچ لاپتہ شبیر کی شریک حیات ہیں اور ان کی بازیابی کے لئے سیما کے ساتھ احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کے بلوچی کے نرم لہجے، الفاظ اور بہتے آنسووں نے لاپتہ افراد کی آواز کو بلند کرنے میں بھی بہت کردار ادا کیا۔

بی بی گل بلوچ:
بی بی گل بلوچ جو بی ایچ آر او کی چئیرپرسن ہیں اور ذاتی زندگی کی مشکلات چھوڈ کر اپنے کچھ مہینے کے ننے بچے کے ساتھ لاپتہ افراد کے اہل خانہ کا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں۔

طیبہ بلوچ:
طیبہ بلوچ جو یونیورسٹی کی طالبہ اور بی ایچ آر او کی راہنما ہیں جو اپنی قومی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس کیمپ میں روزانہ حاضر ہو کر لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے دل جوئی کرتی رہتی ہیں۔

جلیلہ حیدر:
ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایڈوکیٹ ہیں اور انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھاتی رہتی ہیں اور بلوچ ماں بہنوں کے اس تحریک کا شروع دن سے ساتھ دیتی آ رہی ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے نام اور چہرے ہیں جنہیں بیان کیا جانا چاہئے مگر اس مختصر تحریری میں بیان ہو نہین سکتے جیسے کہ مہر گل مری کے اہل خانہ جو مہر گل مری ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈاریکٹر ہیں اور 18 گریڈ کے عہدے پر فائز ہیں پھر بھی لاپتہ کئے گئے اسکے علاوہ رفیق بلوچ، الیاس بلوچ، غیاص الدین بلوچ،صدام بلوچ سمیت سینکڑوں لاپتہ افراد کے اہل خانہ اس کیمپ میں موجود اپنے لاپتہ کئے گئے لخت جگر کو ڈھونڈنے کی امید لئے احتجاج کر رہی ہیں۔

اس احتجاج میں بیٹھی عورتوں بچوں بوڑھوں کی کیا فریاد ہے اور وہ کونسا مطالبہ کر رہی ہیں جو اس حکومت، ریاست اور ریاستی دفاعی اداروں کے لئے مشکل ہے۔ ان کا صرف اتنا سا مطالبہ ہے کہ اگر کسی نے کوئی قصور کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ اگر کسی کا جرم ثابت ہو تو بے شک ریاستی آئین و قوانین کے مطابق جتنا جرمانہ کرنا چاہیں، جتنے سال کی سزا دینا چائیں، عمر قید دینا چاہیں یا پھر پھانسی جیسی سزا مگر اس ریاست کے آئین و قوانین کے تحت ان کے مقدمے کو عدالت میں پیش کر کے ان کے خلاف شواہد پیش کریں اور جو بے قصور ہوں انہیں کم از کم اس طرح کی اذیت ناک سزا نہ دیں۔

ہم لسبیلہ کے عوام ہوں یا بلوچستان کے عوام، با ضمیر و زندہ عوام ہیں اور کلیجے میں دل رکھتے ہیں تو اس طرح بے بس کیسے ہو سکتے ہیں کہ یہ آگ جو ہمسائے کے گھر لگی ہے، اسے بجھانے میں ہاتھ پاوں نا چلائیں تو جلاتے جلاتے یہ ہمارا گھر بھی جلا کر راکھ کر دے گی اور اس وقت ندامت، مجبور، بے بس ہو کر یہی راستہ اختیار کریں گے جو اس وقت یہ تحریک سے جڑے اہل خانہ اختیار کر چکے ہیں۔

لسبیلہ سمیت بلوچستان بھر کے عام عوام، سوشل ایکٹویسٹ، سیاسی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے لوگوں کو چاہئے کہ مل کر ہر علاقے میں اپنی اپنی بساط کے مطابق اس غیر قانونی عمل کی مخالفت کریں، اس کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے حلقے سے منتخب ہوئے وزیروں کو اس بابت سوال کریں انہیں آواز بلند کرنے کا کہیں اور جب ان کی طرف سے یہ جواب آئے کہ ہم مجبور ہیں ہم بے بس ہیں تو آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ بے بسی کا رونا رونے والے در اصل بے حس ہیں۔ اور دلیری کے ساتھ انہیں موقع پر ٹوک دیں کہ “بے بسی نا کہہ اپنی بے حسی کو”۔

یہ ہماری آپکی قومی، مذہبی، معاشرتی و سماجی اور انسانی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان ماون بہنوں کے حوصلے کو پست ہونے نا دیں۔ کوئٹہ پہنچ کر اس کیمپ میں بیٹی ماں بہنوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ اپنے اپنے علاقوں میں ان کے حق میں احتجاجی مظاہرے کریں، ریلیاں نکالیں یا سیمینارز کا انعقاد کر کے صوبائی وفاقی اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے نمائندوں کو طلب کریں اگر یہ تمام ہم آپ کرنے سے قاصر ہیں تو کم از کم ان ماں بہنوں کو سیاسی و مالی کمک کریں اور سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم پر کچھ لکھ کر انہیں سپورٹ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).