پیپلز پارٹی پر بڑھتا ہوا ریاستی دباؤ


تاریخ، پولیٹیکل سائینس سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ فرانس میں 18 ویں صدی یعنی روشن خیالی کی صدی میں Montesquieu نے ریاست میں اختیارات کی تقسیم کے حوالہ سے گرجا گھروں کے کردار اور آرمی کے رول کے متعلق لکھا۔ معاشرے میں گرجا گھر اور آرمی کا یقیناً اہم کردار ہے لیکن ریاستی معاملات میں یہ کردار واضح طورپر الگ ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہم 71 سالوں سے مذہبی افلاطونوں کی جعلی اور خودساختہ توضیحات کے بدترین شکنجہ اور ملکی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے زیر اثر ہیں۔

بلاشبہ مذہبی ہونا قابل فخر ہے اور مذہب ایک بہت بڑی حقیقت ہے لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ حقیقی جمہوری نظام کبھی بھی ریاست اور مذہب کی آمیزش اور مداخلت ایک دوسرے میں قبول نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ فوج ملکی دفاع کی بہترین ضامن ہے لیکن اس کے ساتھ جب آپ فوج کو سیاسی کردار دیتے ہیں تو یہ آمریت کہلاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فوج، ریاست اور سیاست کی علیحدگی بھی نہایت اہم ہے۔

صحافتی آزادیوں کے ضمن میں ریاستی دباؤ اور ساتھ ہی ساتھ خود ساختہ سینسرشپ کی وجہ سے میڈیا کے افراد، سوشل میڈیا ایکٹویسٹ کے حوالہ سے آزادی صحافت انڈیکس 2018 ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 180 ممالک میں 179 ویں پوزیشن ہے۔ اس قدر ”آزادانہ“ صحافتی ماحول کے باوجود بھی مقتدر طاقتیں میڈیا اور صحافیوں کے گرد شکنجے کو مزید بڑھاتے ہوئے اور آزادئی اظہار کو محدود کرنے والے اقدامات کی حمایت کی طلب گار ہیں جس میں سندھ اسمبلی سے پریس لاز کا انتہائی جابرانہ قانون پاس کروانے میں پیپلز پارٹی کی مدد کی ڈیمانڈ بھی شامل ہے

مسلم لیگ (ن) کے خلاف اداروں کی فیصلہ کن کارروائی کے دوران مقتدر حلقوں کو یہ بھی توقع تھی کہ پیپلزپارٹی کی قیادت نواز شریف سے اپنی سیاسی رقابت اور کشماکش کی وجہ سے ”ن“ لیگ کے خلاف مجوزہ ڈیزائن کی حمایت کرے گی۔ واضح رہے کہ معاملات چونکہ بگاڑ کی طرف چل رہے ہیں اور مقتدر طاقتوں کے خلاف پشتون، سندھی، بلوچ، گلگت بلتستان اور کشمیریوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج اور ابھرتی تحریکوں کو غداری اور ملک دشمنی کے سرٹیفیکیٹ بانٹنے کے لئے پیپلز پارٹی کی حمایت ایک کلیدی کردار رکھتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خاں کی حالیہ تقاریر اور حکمران جماعتوں کی طرف سے پھسلنے والے جملوں میں قبل از وقت انتخابات، اسمبلی کے اندر تبدیلی جیسی باتوں سے یہ واضح ہے کہ مقتدر طاقتیں قومی اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے قیام سے ہرگز خوش نہیں ہیں کیونکہ ایسا ماحول بننے سے 18 ویں ترمیم کو رول بیک کرنے میں شدید رکاوٹ ثابت ہوگی۔ واقفان حال کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور صدر زارداری کے خلاف کھلتے ہوئے نئے مقدمات اور دباؤ کے پیچھے معاملات کو طے کرنے کے لئے دباؤ کی موجودگی ناممکنات میں شامل نہیں ہے۔

مقتدر طاقتوں کو بھی توقع تھی کہ اس وقت جہادی اور تکفیری اثاثوں پر عالمی سطح پر ہونے والی تنقید کے بعد ان اثاثوں کو بچانے میں عمران خاں اکیلے کچھ نہیں کر پائیں گے لہذا پیپلز پارٹی اس ایشو پر اسٹیبلشمنٹ کا ساتھ دے مگر پیپلز پارٹی نے اس کے برعکس تحریک انصاف کو پیشکش کر دی ہے کہ جس طرح بھی اسے اقتدار میں آنا تھا وہ آگئی ہے لہذا اب وہ ہوش مندی سے کام لے اور اسٹیبلشمنٹ کے اثر سے باہر نکلے مگر شاید حکمران جماعت کے لئے بنا سہارے کے اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا ممکن ہی نہیں ہورہا۔

اسٹیبلشمنٹ اپنے ایجنڈے کے اسیر نہ بننے والے آصف علی زرداری اور پی پی پی چئیرمین بلاول بھٹو کو سبق سکھانا چاہتی ہے تو پی ٹی آئی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے اس ایجنڈے پر آنکھیں بند کرکے عمل پیرا ہونا چاہتی ہے۔ عمران خان اور ان کی سرپرست قوتیں آصف علی زرداری اور نواز شریف کو اکٹھے جیل بھیجنے کا جو خواب دیکھ رہے ہیں اس کا انجام بھی اسٹیبلشمنٹ کی کئی دفعہ پہلے کی ناکام کوششوں میں ایک اور ناکام کوشش ہی ثابت ہوگا۔ جسے اس بات کا یقین نہ ہو اسے چاہیے کہ وہ مرد۔ بحران آصف زارداری کا عدالت سے پیشی کے بعد مسکراتا ہوا چہرہ ضرور دیکھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).