بظاہر نواز شریف کے خلاف فیصلے کی تیاری ہے


ملٹری کورٹس میں جو فیصلے ہوتے ہیں ان کے بارے میں کسی کو کوئی علم نہیں ہوتا۔ سزا و جزا کے عمل سے قوم بے خبر ہوتی ہے۔ قوم یہ بھی نہیں جانتی ہوتی کہ ملزم کا جو ٹرائل ہو رہا ہوتا ہے اس میں ملزم کو صفائی کا کتنا موقع دیا جاتا ہے۔

احتساب کورٹ اسلام آباد چوبیس دسمبر کو ایک اہم فیصلہ سنانے جا رہی ہے۔ اس کیس میں ملزم پاکستان کے تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف ہیں۔ احتساب کورٹ اسلام کے جج ارشد ملک نے اس کیس کو سنا۔ یہ ریفرنس احتساب کورٹ روم نمبر ایک کے جج محمد بشیر کے پاس تھا۔

محمد بشیر نے ایون فلیڈ ریفرنس میں میاں محمد نواز شریف اور مریم نواز کو سزا سنائی تھی تو وکیل صفائی خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی کہ اس ریفرنس کو کورٹ روم نمبر دو میں منتقل کیا جائے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے تناظر میں ریفرنس کورٹ روم نمبر دو میں منتقل ہوا۔ کیس کی شروعات میں میڈیا کو کور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہم لوگوں نے اس پر بھرپور احتجاج کیا کہ یہ ملٹری کورٹس نہیں ہیں اور نہ ہی ملزم کوئی جنگی مجرم ہے بلکہ پاکستان کا تین بار وزیراعظم رہ چکا ہے۔ آئین شکنی بھی نہیں کی اور نہ سنگین غداری کا مرتکب ٹھہرا۔ پھر صحافیوں کو کوریج کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟

منصف نے بیس لوگوں کو کیس کور کرنے کی اجازت دی۔

چوبیس کو فیصلہ سنایا جا رہا ہے۔ احتساب جج ارشد ملک جمعہ کو چھٹی ہونے کے باوجود رات گئے تک دستاویزات کی جانچ کرتے رہے اور انھوں نے ماتحت عدالتی عملہ کی ہفتہ و اتوار کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی ہیں اس بات کو یقینی بنایا کہ عدالتی عملہ حاضر رہے۔

ارشد ملک نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو بھی طلب کر کے ان سے سیکیورٹی معاملات پر بریفنگ لی۔ نواز شریف کے خلاف متوقع فیصلہ حوصلہ افزا نہیں۔ قیاس اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فیصلے کے روز کمرہ عدالت کے اندر صرف دس صحافیوں کو جانے کی اجازت ملی۔ عین ممکن ہے کہ فیصلے کے روز ان لوگوں کو بھی اندر جانے کی اجازت نہ ملے اور وجہ قرار دی جائے سیکیورٹی۔

صحافیوں کے پاس تو قلم ہوتا ہے بندوق نہیں۔ تعجب ہے کہ بعض منصف طاقت والوں کے سامنے بچھ جاتے ہیں دوسرے الفاظ میں ”لم لیٹ“ ہو جاتے ہیں اور ان کے ہر ناجائز عمل کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیتے ہیں۔

بندوق والا آئین توڑے تو میرے ملک کی عدالتیں اسے کچھ نہیں کہتی بلکہ پورے پروٹوکول کے ساتھ باہر جانے کی اجازت دے دیتی ہیں۔ بات کہیں سے کہیں چلی گئی بات ہو رہی تھی کہ میڈیا کوریج کی اجازت نہ دینا۔ ایسا تو ملٹری کورٹس میں ہوتا ہے آزاد ملک کی آزاد عدالتوں میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui