غلام عباس کا افسانہ بامبے والا


ان دنوں بعض دوست ادب سے پاکستانی معاشرے کے حسب حال حوالے ڈھونڈ ڈھونڈ کراپنی تحریروں میں پرو رہے ہیں۔ ان کی کاوشوں سے متاثر ہوکر مجھے بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالنے کی سوجھی اور اس سلسلے میں غلام عباس کا افسانہ ’’بامبے والا‘‘ یاد آیا۔ اس سے پاکستانی معاشرے کی اس عام روش پر روشنی پڑتی ہے جس میں کسی ناپسندیدہ فرد کو زیر کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جایا جاتا ہے۔ یہ عمل انفرادی سطح پر بھی ہوتا ہے جس کے مظاہر ہم اپنے اردگرد دیکھتے رہتے ہیں، مقصد حاصل کرنے کے لیے مذہب کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ قومی سطح پر اسے ہم اقتدار پر ناجائز قبضے کے لیے بروئے کار آتا دیکھ چکے ہیں، بین الاقوامی سطح پر اس کی بڑی مثال کیمیائی ہتھیاروں کا بہانہ بنا کر امریکا کا عراق پر حملہ کرنا ہے۔

غلام عباس کے افسانے میں اس حکمت عملی سے سیدھے سادھے آدمی کا گھیراؤ کیا جاتا ہے۔ ’’بامبے والا‘‘ میں ایک ایسی کالونی کا ذکر ہے جس میں فنون لطیفہ بالخصوص موسیقی کو بڑا فروغ ہے۔ ریڈیو پر موسیقی کے پروگرام سننے پر ہی اکتفا نہیں، میوزک پارٹیاں ہوتی ہیں، اس سے بڑھ کر کئی گھرانوں میں لڑکیوں کو موسیقی کے تعلیم دینے میوزک ماسٹر آتے۔ اس فنون پرور فضا کے بارے میں عام رائے تو مثبت ہے، صرف محلے کے بڈھے ٹھڈے جو زندگی کے جھٹپٹے کی منزل میں ہیں، کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے، کالونی میں پھیلنے والی روشنی سے ڈرتے ہیں، اس تبدیلی کے خلاف آواز اٹھاتے، لیکن اس پر کوئی کان نہ دھرتا البتہ چوک میں ہر روز جو پھڑ جمتا وہاں وہ آزادی نسواں اور فنون لطیفہ کی ترقی پر گرجتے برستے۔ ایک واقعہ سے مگر ان کے سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ گلستان کالونی میں ایک بنگالی بابو کی دو لڑکیاں اپنے کاٹھیا واری کتھک استاد کے ساتھ بھاگ گئیں۔ اس پر خوب لے دے ہوئی۔ قیاس کے گھوڑے دوڑائے گئے۔ اس واقعے سے کالونی میں فنون لطیفہ کی سرگرمیوں کو بڑی زک پہنچی۔ ریڈیو پر فلمی گانے چلنے بند ہوئے۔ ایک حضرت نے بیٹی کو ستار سکھانے پر مامور ستاریئے کو برطرف کر دیا۔ بابوں کے جذبے جوان ہوگئے اور بقول غلام عباس ’’کالونی میں یک لخت ان کا وقار بڑھ گیا۔‘‘

اس کہانی میں اہم کردار اس نوجوان کا ہے جو اپنے حلیے بشرے سے سرکس کا مسخرہ دکھتا۔ الٹے سیدھے فیشن کرتا۔ چہرے پر گاڑھا میک اپ تھوپتا۔ وضع قطع کی طرح سائیکل بھی وکھری ٹائپ کی تھی۔ گلے میں چھوٹا سا باکس، جس میں بچوں کی گولیاں ٹافیاں، سونف اور سنگترے کی پھانکیں ہوتیں۔ ایک ہاتھ اس کا ہینڈل پر تو دوسرے میں بھونپو ہوتا جسے منہ لگا کر وہ بامبے والا بامبے والا کی آواز لگاتا تو آن کی آن میں بچے گھر والوں سے پیسے جھاڑ کر اس کی طرف کھنچے چلے آتے۔

بامبے والا کی کامیابی کا راز غلام عباس نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

’’ بامبے والا کے الفاظ وہ لہک لہک کر ادا کرتا کہ وہ ایک نغمے کی طرح معلوم ہوتے جس میں کئی اترے ہوئے سر لگتے۔ اس کا یہ گانا اس کی آمد کا اعلان ہوتا۔دل کا نیک تھا۔ بچوں کو ان کے دام سے کچھ زیادہ ہی مٹھائیاں دے دیا کرتا۔ کبھی کسی بچے کے پاس پیسہ نہ ہوتا تو مفت میں ایک آدھ چوسنے والی گولی دے دیتا۔ وہ بامبے والا کی الاپ کے علاوہ اور بھی بہت سے گانے گایا کرتا۔ یہ فلموں کے چلنتر گانے ہوتے جن میں پریم اور پریمی, بھونرے اور پیپہے کا ذکر ایسے پرسوز طریقے پر ہوتا کہ انھیں سن کر بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی اور وہ اپنے چھوٹے بھائیوں یا یا بہنوں کو آنہ یا ٹکا دے کر میٹھی سونف منگایا کرتیں۔ اس کی آواز ایسی مدھر تھی کہ جب وہ کوئی فلمی گانا گاتا تو لوگ اس کے مسخرے پن کو بھول کر گانے پر جھوم اٹھتے۔ اس کی یہ آواز اس کے کاروبار کی کامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ عورتوں کو گھورنا یا ان پر آوازے کسنا اس کی عادت نہ تھی، یہ اور بات ہے کہ آواز گانے کے پردے میں بہت کچھ کہہ جاتی۔ ‘‘

بامبے والا کی خوش خلقی اور ہر دل عزیزی ان سٹریل بابوں کے فہم سے بالا تھی، وہ ان کی آنکھ میں خار بن کر کھٹکتا، ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ اسے کس جرم میں ماخوذ کریں۔ دو بہنوں کے گھر سے بھاگ جانے سے انھیں جو ’’وقار‘‘ حاصل ہوا اسے انھوں نے بامبے والا کی تادیب کا سنہری موقع جانا۔ ایک دن جب ان کی منڈلی سجی تھی اور وہ اپنی اپنی ہانک رہے تھے، بامبے والا کی آواز سنائی دی، اس پر ان کے ایکشن کا خلاصہ ہم نے اپنے لفظوں میں کرنے کی کوشش کی مگر بات بنی نہیں، اس لیے غلام عباس کی زبانی اسے پڑھ لیں:

’’ بڈھوں نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر بخشی جی، جو تھے تو ساٹھ کے پیٹے میں مگر جوانوں کا سا دم خم رکھتے تھے۔ مونڈھے سے اٹھے اور بامبے والا کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔

’’ کیا بیچتے ہو تم ؟‘‘بخشی جی نے غصے بھری آواز میں پوچھا۔

بامبے والا متعجب سا ہوکر مسکرانے کی کوشش کرنے لگا۔

’’ میں پوچھتا ہوں کیا بیچتے ہو تم ؟‘‘بخشی جی نے پہلے سے زیادہ غصے سے کہا۔

’’ ٹافی، چوسنے والی گولیاں، میٹھی سونف‘‘ بامبے والا نے بدستور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’ لاؤ دکھاؤ‘‘

اس نے بائیسکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کردیا اور گلے میں پڑا ہوا بکس کھول کر سب چیزوں کا ایک ایک نمونہ دکھانے لگا۔

’’ بے ایمان کہیں کا‘‘ بخشی جی اچانک ہی برس پڑے ’’ یہ ٹافی تو گڑ کی ہے، بچوں کو ٹھگنے کے لیے یہ چار سو بیس!‘‘

’’ بامبے والا کچھ پریشان سا نظر آیا مگر مسکراتے ہوئے ادب سے بولا:

’’ حضور، اول تو یہ درست نہیں کہ یہ ٹافی گڑ کی ہے، دوسرے یہ چیزیں میں خود تھوڑا ہی بناتا ہوں۔ یہ تو کمپنی کا مال ہے۔ میں بنا بنایا مال لاتا ہوں۔ ‘‘

اس اثنا میں تین چار بوڑھے اور منڈلی سے اٹھ کر بامبے والا کے پاس پہنچ گئے اور اس کو گھیر کر کھڑے ہوگئے۔

’’ کیا ٹر ٹر لگائی ہے‘‘ یہ کہتے ہوئے گپتا جی نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، زور کا ایک چانٹا بامبے والے کے منہ پر جڑ دیا ’’ ایک تو چور اوپر سے کمپنی کا رعب جماتا ہے، لے اور لے۔ ‘‘

اس کے بعد دوسرے بابے بھی اس پر پل پڑتے ہیں اورخوب ٹھکائی کرتے ہیں۔ اس کا سامان جس میں گولیاں ٹافیاں ہی نہیں، فلمی ایکٹروں کی تصویریں، گانوں کی کتابیں، فلمی پریوں کی داستانیں بھی تھیں، سب زمین پر بکھر گئیں۔ اس کے بعد بابے مغلظات بکنا شروع کردیتے ہیں:

’’ حرام زادہ۔ سور کا بچہ بڑا ایکٹر بنا پھرتا ہے۔ بدمعاش۔۔۔ جا، اب تو چھوڑ دیا، پھر کبھی ادھر رخ نہ کی جیو۔‘‘ بڑے بوڑھوں نے خود ہی تھک کر اس کا پیچھا چھوڑ دیا اور ہانپتے ہوئے آکر پھر اپنی منڈلی میں آبراجے۔ ‘‘

ادھر بامبے والا کا حال یہ تھا کہ ’’ اس مارپیٹ سے اس کا جسم درد کرتا تھا۔ اسے بے عزتی کا بھی بہت غم تھا مگر اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ کس جرم کی پاداش میں یہ سزا دی گئی۔

اس کے بعد گلستاں کالونی میں بامبے والا کی آواز پھر کبھی نہ سنائی دی۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).