قومی مستقبل کے معاملات کو احتیاط سے دیکھنا چاہیے


امریکی افغانستان سے واپس جا رہے ہیں لیکن کسی کو کچھ نہیں پتہ کس قیمت پر۔ سابق چیرمین سینٹ میاں رضا ربانی گزشتہ روز ایوان میں خارجہ پالیسی کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ وہ کہتے تھے عوام کے منتخب نمائندوں سے خارجہ پالیسی کی ملکیت چھین لی گئی ہے۔ ہمیں نہیں معلوم سابق چیرمین سینٹ کتنے معصوم ہیں اور وہ کس دور کی بات کر رہے تھے جب خارجہ پالیسی کی ملکیت پارلیمنٹ کے پاس تھی۔

قوم کو کچھ نہیں بتایا جا رہا افغانستان کے حوالہ سے امریکیوں کو محفوظ راستہ کن شرائط پر دیا جا رہا ہے۔ کیا افغانستان میں پاکستان دوست حکومت کی کوئی ضمانت حاصل کر لی گئی ہے۔ کیا روس اور چین افغانستان کے حوالہ سے کیے جانے فیصلوں میں ان بورڈ ہیں۔ کیا افغانستان میں داعشیوں کے حوالہ سے کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔ کیا افغانستان میں بھارت کی طاقتور موجودگی کے خاتمہ کا کوئی بندوبست کیا گیا ہے۔ کیا مستقبل میں افغان حکومت چلانے کے لئے کوئی مالی بندوبست کی عالمی ضمانت لی گئی ہے۔

 فیصلہ سازوں نے کبھی کارگل کا فیصلہ بھی کیا تھا اور آخر میں تمام ذمہ داری بھارت کے اوور ریکشن پر ڈال کر فارغ ہو گئے۔ فیصلہ سازوں نے کبھی ایک فون کال پر امریکیوں کو وہ کچھ دے دیا جس کی خود انہیں بھی امید نہیں تھی۔ ہمیں صرف اتنی خبر ہے سعودیوں نے خزانے میں رکھنے کے لئے ساڑھے تین فیصد شرح سود پر تین ارب ڈالر دیے ہیں۔ قوم کو صرف یہ خبر ہے یو اے ای نے چار فیصد شرح سود پر دو ارب ڈالر خزانہ میں رکھنے کے لئے دیے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے دو سے ڈھائی فیصد کی قیمت پر پیسے دیتے ہیں جنہیں استمال کرنے کی بھی اجازت ہوتی ہے خلیج سے جو پیسے ملے ہیں ان کی قیمت بھی زیادہ ہے اور استمال کرنے کی بھی اجازت نہیں۔

امریکی معیشت تباہی کے دھانے پر ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف والے عالمی مالیاتی بحران کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ امریکی شام سے فرار ہو چکے ہیں۔ امریکی وزیر دفاع استفعی دے چکے ہیں۔ امریکی دنیا بھر کے ممالک میں یو ایس ایڈ طرز کے اپنے پروگرام ختم کر رہے ہیں۔ امریکی معیشت کے تحفظ کے لئے امریکی اپنے ملک میں آنے والی تمام درآمدات پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیاں لگا رہے ہیں۔ جب امریکیوں کو افغانستان سے ہر قیمت پر نکلنا ہے تو قوم کو کیوں نہیں پتہ امریکی کس قیمت پر افغان کمبل سے جان چھڑا رہے ہیں۔

پارلیمنٹ میں قومی سلامتی کے ذمہ دار افراد سے بریفنگ کیوں نہیں لی جا رہی۔ افغانستان پاکستان کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جب امریکی افغانستان سے چلے جائیں گے تو پیسے بھی بند ہو جائیں گے پھر مستقبل کا کیا سوچا ہے۔ سوویت یونین کے جانے کے بعد امریکی مجاہدین اور مہاجرین پاکستان کے سپرد کر کے فرار ہو گئے تھے۔ کیا اب پھر ایسا ہونے جا رہا ہے۔

فیصلہ سازوں نے نواز شریف آپریشن اس بھونڈے طریقے سے کیا ہے ملکی معیشت تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی ہے۔ مستقبل قریب میں معاشی استحکام کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ فیصلے کون کر رہا ہے ان فیصلوں پر بحث کیوں نہیں ہو رہی۔ مستقبل میں افغانستان کس طرح پاکستان کے لئے مسئلہ نہیں بنے گا پارلیمنٹ کو کیوں نہیں بتایا جا رہا۔ اگر ماضی میں غیر متخب افراد بھی غلطیاں کرتے رہے ہیں تو پھر عوام کو فیصلوں کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا؟ سیاستدان عوامی دانش سے فیصلے کرتے ہیں اور اجتماعی دانش کبھی غلط نہیں ہوتی۔ چند افراد کے فیصلے غلط ہو سکتے ہیں اور ہوتے آئے ہیں۔ پارلیمنٹ کے فیصلے غلط نہیں ہوتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).