ورلڈ اکنامک فارم کی پاکستان میں خواتین کے استحصال کی رپورٹ صحیح یا غلط؟


ورلڈ اکنامک فارم کی اس سال کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ میں صنفی تفریق کے اعتبار سے 149 ممالک کی درجہ بندی میں پاکستان کو 148 پوزیشن دی گئی۔ اس رپورٹ میں پاکستان صرف یمن سے بہتر کارکردگی دکھا سکا جو خود ایک اسلامی ملک ہے۔ پاکستان سے اوپر بھی جن ممالک کے نام ہیں ان میں اکثریت اسلامی ممالک کی ہے مثلاً ایران، عراق اور سعودی عرب۔ اسلامی ممالک جو عورت کو اعلیٰ ترین حقوق دینے کا دعویٰ کرتے ہیں ایسی تمام رپورٹس اور سروے میں عموماً بدترین ہی ثابت ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے، اس پر ریسرچ ہونی چاہیے۔

ورلڈ اکنامک فارم کی یہ گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ سنہ 2006 سے ہر سال شائع کی جاتی ہے۔ اس رپورٹ میں کسی بھی ملک میں صنفی تفریق کا جائزہ لینے کے لیے چار شعبوں میں کارکردگی دیکھی جاتی ہے۔ ان چار شعبوں میں خواتین کے لیے اقتصادی مواقعوں کی فراہمی، ان کی تعلیمی کارکردگی، صحت اور ان کو سیاسی اختیارات کی فراہمی شامل ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق اقتصادی مواقعوں کی فراہمی کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر 146، تعلیمی کارکردگی کے لحاظ سے 139، صحت کے لحاظ سے 145 اور سیاسی اختیارات کی فراہمی کے لحاظ سے 97 ہے۔

پاکستان میں سینئیر پوزیشنز پر صرف 2.9 فیصد خواتین کام کر رہی ہیں۔ خواتین کی شرح خواندگی 44.3 فیصد ہے جبکہ کالج یا یونیورسٹی تک پہنچنے والی خواتین کی تعداد صرف 9.4 فیصد ہے۔

جنوبی ایشیاء میں پاکستان نے مردوں اور عورتوں کی برابر تنخواہ اور خواتین کی تعلیم کے حصول میں کچھ بہتری ضرور حاصل کی ہے، اسے نہ ہونے کے برابر ہی سمجھا جائے تو اچھا ہے۔

اس رپورٹ میں پاکستان کا شمار ان چھ ممالک میں کیا گیا جہاں سینئیر پوزیشن پر مرد اور عورت کو مواقع دینے میں 90 فیصد تک کا فرق دیکھنے میں آیا۔ اتفاق دیکھئیے کہ ان تمام ممالک میں اسلام سب سے بڑا مذہب ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اسلامی ممالک میں ہی اتنا بڑا فرق کیوں ہے؟ ہم مسلمان تو بی بی خدیجہ کے ایک کامیاب اور نامور کاروباری خاتون ہونے پر فخر کرتے ہیں پھر بھی ہمارے ممالک میں سینئیر رتبوں پر خواتین کو جگہ کیوں نہیں دی جاتی؟ یہ ایک تحقیق طلب سوال ہے۔

وزیر برائے انسانی حقوق محترمہ شیریں مزاری نے اس رپورٹ کو غلط قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ورلڈ اکنامک فارم کو جو افسر ڈیٹا فراہم کر رہا تھا، اس نے غلطی سے غلط ڈیٹا دے دیا جس کی وجہ سے رپورٹ میں پاکستان صرف یمن سے بہتر کارکردگی ہی دکھا سکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ورلڈ اکنامک فارم سے ریکارڈ ٹھیک کرنے کے لیے رابطہ کیا جا رہا ہے۔

محترمہ سے گزارش ہے کہ ورلڈ اکنامک فارم میں ریکارڈ ٹھیک کروانے کے ساتھ ساتھ اگر پاکستان میں بھی صنفی امتیاز کی صورتحال تھوڑی بہتر ہو جائے تو۔ ۔ ۔

پچھلے دنوں ایک اور رپورٹ جاری ہوئی تھی جس کے مطابق خیبر پختونخوا کی سات تحصیلوں میں 79 فیصد لڑکیاں پرائمری سکول میں ہی تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ مڈل اور سیکنڈری تعلیم تک پہنچنے والی لڑکیوں میں سے 50 فیصد اپنی تعلیم کو خیر باد کہہ دیتی ہیں۔ اگر یہ رپورٹ بھی تھوڑی سی ٹھیک ہو جائے تو۔ ۔ ۔

2015 کی یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 178 زچگی کے دوران وفات پا جاتی ہیں۔ اب کی کیا صورتحال ہے اس کے بھی اعداد و شمار جاری ہو جائیں تو۔ ۔ ۔

گھر سے باہر کام کرنے والی خواتین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، اس کی کئی جھلکیاں محترمہ خود پارلیمنٹ میں متعدد بار دیکھ چکی ہیں۔ اگر وہ صورتحال بھی تھوڑی بہتر ہو جائے تو۔ ۔ ۔
اور اگر مجھے بھی میرے کام کا اتنا ہی معاوضہ مل جائے جو میرے ساتھ کام کرنے والے مردوں کو ملتا ہے تو۔ ۔ ۔
اگر خواتین کو بھی سینئیر پوزیشنز پر ترقی کے ویسے ہی مواقع ملیں جو مردوں کو ملتے ہیں تو شاید ہمیں ورلڈ اکنامک فارم سے بار بار درخواستیں نہ کرنی پڑیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).