صحافیوں کی غیر منصفانہ برطرفیاں، پسِ پردہ حقائق کیا ہیں


ملک میں ”تبدیلی حکومت“ کے ساتھ جہاں سب کچھ تبدیل ہوا وہاں میڈیا انڈسٹری کے حالات میں بھی تبدیلی رونما ہوئی۔ مشرف دور میں کھمبیوں کی طرح اُگنے والے نیوز چینلزکوخوش آمدید کہا گیا۔ لیکن پھر مشرف کے خلاف چلنے والی تحریک اور اس میں میڈیا کا کردارکسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے۔ شاید اس وقت ہی اسٹیبلیشمنٹ نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب میڈیا کو مزید آزادی دینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن نواز شریف اور زرداری کی حکومتوں کے باعث بعض نئے چینلز کی آمد اور کچھ کا بند ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ دو ہزارآٹھ کے انتخابات اور میڈیا ہاؤسز کی پالیسی کی واضح تقسیم کے بعد یہ طے کرلیا گیا تھا کہ اب میڈیا ہاؤسز کی ضرورت نہیں ہے وجہ صاف تھی کہ کافی کام تو اعلی عدلیہ سے ہی نکال لیا جائے گا۔

ریاست کے چوتھے سکون کو کمزور کرنے کی ٹھان لی جائے تو صحافیوں اور میڈیا ادارے کا ”استحصال“ حکومت اور حکومت کے ذیلی کام کرنے والے عسکری اداروں کی سب سے من پسند ”پروڈکٹ“ ہے۔ جیسے وہ پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے استعمال کرتے ہیں۔ ایک صحافی پر حملہ دراصل جمہوریت پر حملے کے مترادف ہے۔ ایسے میں پاکستان میں صحافیوں کی اچانک اور غیر منصفانہ برطرفیاں جمہوری حکومت پر سوالیہ نشان ہے۔ میڈیا اداروں سے صحافیوں کی جبری برطرفی کی وجہ مالکان کی طرف سے مالی بحران بتایا جاتا ہے اب یہ بحران ہے یا جان بوجھ کر اس بحران کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس حقیت سے پردہ اٹھ چکا ہے بس تسلیم کرنے کی دیر ہے۔

نئی حکومت کے ساتھ ہی میڈیا میں ہونے والی ترقی کا تاج محل زمین بوس ہوتا دکھائی دیا۔ چینلز اور اخبار مالکان کی جانب سے اپنے منافعے میں کمی کے بعد صحافیوں کو قربانی کا بکرا بنانا شروع کردیا۔ اب یہ طے ہونا باقی ہے کہ کیا میڈیا میں ہونے والی ترقی واقعی حقیقی تھی یا صرف عارضی طور پر عمارت بنائی گئی۔ جو دھڑام سے نیچے گری ہے اور اس کے ملبے تلے چند سو میڈیا مالکان دبے ہوئے ہیں وہ کبھی انصاف کے لئے سپریم کورٹ کے بابا رحمت کو دیکھ رہے ہیں کبھی جہلم کے چوہدری کو پکار رہے ہیں۔

لیکن لگتا ہے کہ اس بار کہیں سے کچھ ملنے والا نہیں۔ اخباری مالکان جن میں سب سے بڑا میڈیا ہاؤس جو اپنے شام کے چاروں اخبار اور دو ایڈیشنز کو بند کرکے پانچ سو کے قریب صحافیوں کو بے روزگاری کا پروانہ دے کر گھر بھیج چکا ہے۔ جبکہ دو سے تین چینلز پر صرف وقت پر تنخواہ مل رہی ہے سب سے بڑے چینل کے ملازمین بھی تین ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ تبدیلی سرکار نے نا صرف میڈیا کی قانونی اور غیرقانونی امداد بند کی ساتھ ہی ایجنڈا لے کر چلنے کے بدلے ملنے والے پیسے بھی شاید رک گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آنے والے برسوں میں درجنوں تعلیمی اداروں میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں اور میڈیا کی صنعت سے جڑے میڈیا ورکرز کا مستقبل کیا ہوگا۔

ابلاغ عامہ کے ماہر اور استاد ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ ”ریاست پر اپنی رٹ قائم کرنے اور عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑنے کے لئے سب سے پہلے ڈیپ اسٹیٹ انجینرنگ کا سہارا لیا جاتا ہے پھر پولیٹکل انجینرنگ کے ذریعے مطلوبہ نتائیج حاصل کیے جاتے ہیں سو پاکستان میں اس وقت کلی طورپر ان دونوں صورتحال پر قابو پا لیا گیا تھا۔ اب باری تھی ذرائع ابلاغ کو قابو کرنے کی تو میڈیا انڈسٹری پر عسکری اسٹیبلشمنٹ کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت دھاوا بولا گیا ہے“۔

اور کم و بیش ایسی ہی صورتحال کا کھل کر صحافیوں اور صحافتی اداروں کو سامنا ہے۔ حق اور سچ کی آواز کو نہایت بھونڈے انداز میں دبایا جارہا ہے۔ اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نا ہوگی اگر اگلے چند سالوں میں سوشل میڈیا کو بھی مکمل طور پر قابو میں کرنے کے لئے اس پر ٹیکس سازی کا عمل شروع کردیاجائے۔ اور جہاں تک سوشل میڈیا پر آزادی کا سوال ہے نئی حکومت کے آنے کے بعد سے وقتا فوقتا سوشل میڈیا پرحکومت یا فوج مخالف اظہارِ خیال پر قانونی چارہ جوئی کی بات کی جاری رہی ہے۔ سو عوام کو اس حق سے بھی مستقبل قریب میں محروم کر دیے جانے کے صد فیصد امکانات ہیں۔

صحافیوں کو جانب داری سے لفافے لینے تک ہر الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کے مسائل، مصائب اور ان کے ساتھ ہونے والی فریب کاریوں کوکوئی سامنے لاتا ہے تو یہی طبقہ ہے جس کا نام صحافی ہے۔ اس طبقے کا المیہ یہ ہے کہ یہ سب کے لئے آواز اٹھاتا ہے مگر اپنے مسائل پر بولنے سے قاصر ہے۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ جب ایک صحافی معاشرے کے ناسوروں کو ان کے انجام تک پہچانے کے لئے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو کس طرح صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور مختلف طریقوں سے ان کی جان کو خطرہ رہتا ہے عوام کو آگاہی دینے اور پاکستان کے مستقبل میں حقیقی مثبت تبدیلی لانے کے لیے بلاشبہ ایک صحافی نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔ لیکن افسوس صحافیوں کے حوالے سے کوئی سیفٹی لا پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ ریاست کچھ جہگوں پر میڈیا کو اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہے اور بعض سیاسی و نظریاتی گروہ بھی میڈیا سے ناراضگی کا اظہار تشدد کے ذریعے کرتے ہیں۔ پاکستان کی حکومت صحافیوں کے معاملے میں سنجیدہ نہیں۔

پاکستان میں اب تک سو سے زائدصحافی اور میڈیا ورکر اس خطرناک پیشے کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اور اب تک 95 فیصد مقدمات میں سے کسی کو کوئی سزا نہیں ہوسکی۔ ایسی صورتحال میں صحافیوں کا تحفظ کیسے ممکن ہے۔ صحافیوں کے تحفظ کے لئے گزشتہ حکومت میں جرنلسٓٹ ویلفیر اینڈ پروٹیکشن بل کو منظور کرنے کے لئے کوششیں کی جارہی تھی لیکن صحافتی تنظیموں کی پھرتیوں کے باوجود بل پاس نا ہوسکا۔ اس بل کی رو سے نیشنل جرنلسٹ کونسل میں صحافیوں کے نمائندہ رہنما، اخباری مالکان، نشریاتی اداروں کے مالکان، اخباری مدیران، پیمرا اور پریس کونسل کے سربراہ کے علاوہ متعلقہ اعلی سرکاری افسران کو شامل کرنے کی تجاویز دی گئی تھی ساتھ ہی جرنلسٹ انڈومنٹ فنڈ کے نام سے صحافیوں کو موت، زخمی ہونے یا بیماری کی صورت میں اہل خانہ کی مالی مددکرنے کی شق شامل کی گئی۔

اس کے لیے حکومت پاکستان سے 20 کڑوڑ روبے کی رقم جبکہ میڈیا مالکا ن سے بھی سالانہ مد میں میڈیا کی نوعیت کے اعتبار سے رقم دینے کے مطالبات شامل تھے۔ قانون کے مطابق میڈیامالک کوسال میں کم از کم ایک تربیت منقد کروانے کے پابند کرنا تھا۔۔ ایک نئے ویج بورڈ ایواڈ کا قیام اور تنخواہوں کا ازسر نو تعین کرنیکی قانونی ضرورت پر توجہ دی گئی تھی۔

لیکن یہ بل فقط بحث و مباحثے کی نذر ہوگیا اور اس کے بعد حکومت کی مشنری اپنی اپنے وسیع تر مفادمیں ترجیحاتی پالیسوں اور اگلے الیکشن کی گہماگہمی میں مگن رہی۔ نئی حکومت جس طرح سے تشکیل دی گئی ان حالات میں میڈیا ورکرز کے حق میں کسی بھی قسم کے ایسے بل کی منظوری کی دور دور تک کوئی اُمید نظر نہیں آتی تھی۔ لحاظا اس سارے قصے کو بلائے طاق رکھ دیا گیا اور پھر نا کوئی اجلاس طلب کیا گیا نا مشاورت ہوئی نا بحث و مباحثے کیے گئے گو نا گو اس بل کا مسودہ لکھنے والے اور بل کی منظوری میں پھرتی دکھانے والے بھی شاید اس بات سے واقف تھے کہ اس میں خیر کی اُمید نہیں کی جاسکتی تھی۔

کسی بھی میڈیا ادارے کو چلانے کے لئے اشتہارات ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں۔ پرنٹ میڈیا کو پہلے ہی اشتہارات کی کمی اور پیپر مہنگا ہونے کی دہائی دیتے ہوئے محدود کیا جارہا تھا۔ جس کے لئے پجھلے ایک سال سے مختلف عذر پیش کرکے ملازمین کو نوکریوں سے جبری فارغ کیا جارہا تھا۔۔ اب الیکڑونک میڈیا بھی کم و بیش انھیں حالات کا شکار ہے۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اس حوالے سے کہاگیا کہ صحافی کسی موزوں فورم سے رجوع کیوں نہیں کرتے۔ بات درست ہے لیکن جب صحافیوں کے حقوق کے قوانین کے بل کے مسودہ کو نظر انداز کرکے ردی کی ٹوکری کی زینت بنا دیا جائے تو کون سا فورم ہوگا جو صحافیوں کے تمام حقوق کی ضمانت کے لئے آواز اٹھا سکے۔ اور اگر کوئی ساتھ دے بھی دے تو قانونی طور پر کس طرح کسی کی مدد کی جاسکتی ہے۔ جس سفاکی سے صحافیوں کا معاشی قتلِ عام کیا جارہاہے اس پرملک بھر میں اس وقت صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔

صحافی تنظیموں کا موقف ہے کہ آئے دن اخبارات کا بند ہونا، صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کرنا ایک سوچھی سمجھی سازش ہے جس کا مقصد عوام کو حقائق سے بے خبر رکھنا ہے۔ لیکن صحافی تنظیمیں اس بات کا عزم رکھتی ہیں کہ وہ اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔ اور آزادی اظہار رائے کے لئے قربانیاں دیتی رہے گی صحافیوں کی برطرفی کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی۔ یہ الفاظ حقیقت کے پیرائے میں ڈھل سکیں گے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اسلام آباد جسٹس اعجازالاحسن کورٹ کارروائی کے دوران ریمارکس تھے کہ ادارے کا مالک کسی ملازم کو نہیں رکھنا چاہتا تو ہم مجبورنہیں کرسکتے۔

کورٹ میں دیے گئے ریماکس کو اس لئے چیلنچ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کس قانون کے تحت ادارے کے سربراہ کو پابند کیا جائے کہ وہ تنخواہیں دینے اور صحافیوں کو ملازمتوں سے نکالنے کے لئے واضح جواب دے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ میڈیا اداروں میں کی جانے والی بر طرفیاں ”نیوزپیپرز ایمپلائزسروس کنڈیشنز ایکٹ“ اور ”پاکستان کے لیبر“ قوانین ساتھ ہی ”آئی ایل او کے کنوینشنز“ کے منافی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).