سلمان خان پر تنقید کرنے سے سونا مٹی ہو گیا
پہلے زمانے میں جب کسی اہم شخصیت کو کسی سے اختلاف ہوتا تھا تو اس خبر دوسروں کو اگلے دن کے اخبار میں مل جاتی تھی یا بہت ہوا تو متاثرہ شخص ایک عدد پریس کانفرنس کر ڈالتا تھا جس میں مخالفین پر تمام الزامات بمعہ ثبوت دکھانے کی کوشش کی جاتی تھی اور رات نو بجے کا خبرنامہ دیکھتے ہوئے ایک سلائیڈ اس کانفرنس کی بھی نظر آ جاتی تھی۔ جس نے اخبار نہ دیکھا یا جو خبرنامے کی سعادت سے محروم رہا اسے پھر وہ خبر چار پانچ دن بعد دوست یار گپ شپ کے دوران سناتے تھے اور پھر مل کر اس پر تبصرے ہوتے تھے یا اگر وہ جھگڑا اداکاروں کا ہوتا تھا تو سٹار ڈسٹ قسم کے رسالے ایک آدھ ماہ بعد اس کی خبر دیتے تھے۔
زمانہ بدل چکا ہے، ذرائع ابلاغ اتنے تیز ہو چکے ہیں کہ ادھر واقعہ ہوا نہیں اور ادھر اس کی تصاویر یا ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہوتی ہیں۔ ان تصاویر کے نیچے دیکھنے والوں کے کمنٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔ ٹوئٹر اور فیس بک دونوں یہ آپشن دیتے ہیں۔ یہ کمنٹ ہماری سوچ کے عکاس ہوتے ہیں۔ کمنٹ کرنے والا صرف اپنی بھڑاس نکالنا چاہتا ہے، اس کی بلا سے وہ کمنٹس کسی کو اچھے لگیں یا برے۔ پھر جب معاملہ اختلافی ہوتا ہے تو کچھ سیانے سیدھا بات کرنے والے کے ان باکس میں جا دھمکتے ہیں اور بجائے دلائل کے فحش گالیوں اور لغو گوئی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ اسے انگریزی میں (Cyber Bullying) کہا جاتا ہے اور یہ گلیوں محلوں میں ہونے والے جھگڑوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس میں متاثرہ شخص ایک ہوتا ہے اور گالم گلوچ اور دھمکیاں دینے والے بے شمار ہوتے ہیں۔ اگر سامنے والی کوئی لڑکی ہو تو پھر طبیعتوں میں اور بھی روانی آ جاتی ہے، لوگ اپنی غلیظ ترین خواہشات اس بے چاری کے ان باکس میں انڈیل کر رکھ دیتے ہیں۔ لڑکی اگر کچھ ہمت باندھ لے تو ان فحش الفاظ کی تصویر کھینچ کر اپنی وال پر شئیر کر دیتی ہے یا سائبر کرائم والوں کو رپورٹ کر دیتی ہے لیکن عموماً اس ساری محنت کا نتیجہ کوئی نہیں نکلتا اور پاکستان ہو یا ہندوستان، عورت Virtual (غیر موجود یعنی انٹرنیٹ) دنیا میں بھی محفوظ نہیں رہ پاتی۔
امبرسریا، منڈیا وے کچیاں کلیاں نہ توڑ ۔۔۔ یہ گانا سونا مہاپترا نے گایا اور اس کے بعد وہ شہرت کی ان بلندیوں پر پہنچ گئیں جہاں سے ان کی آواز دنیا بھر میں گونجنے لگی۔ سونا اعلی تعلیم یافتہ ہیں، انجینئیرنگ کی ڈگری کے ساتھ ساتھ ایم بی اے بھی کر چکی ہیں۔ کچھ عرصہ نوکری کرنے کے بعد انہوں نے اشتہاروں کے لیے اپنی آواز پس پردہ استعمال کرنا شروع کی، پھر باقاعدہ گلوکاری کی طرف آئیں اور 2007 میں اپنا پہلا البم ریلیز کر دیا۔ 2009 کے بعد انہیں فلموں میں گلوکاری کے لیے بھی بہتر مواقع ملنے لگے، چند گانے عامر خان کی فلموں کے لیے گائے، یہاں عامر خان نے ان میں موجود روایات کی ایک باغی عورت پہچان لی اور انہیں اپنے مشہور زمانہ پروگرام ستیما وجیتے (Satyamev Jayate) میں کام کرنے کی دعوت دی۔ سونا مہاپترا اس پروگرام میں بہت پسند کی گئیں اور ان کے گانوں نے بے تحاشا مقبولیت حاصل کی۔ یہ تمام گانے مختلف سماجی مسائل پر بنائے گئے تھے۔ ان میں کا ایک گانا ’مجھے کیا بیچے گا روپیہ‘ آج بھی اسی طرح مقبول ہے۔ یہ گانا عورت کی آزادی سے متعلق ہے اور اب تک پچاس لاکھ سے زیادہ مرتبہ یو ٹیوب پر دیکھا جا چکا ہے۔
اتنی مقبولیت اور عوام سے ملنے والا بے پناہ پیار سونا کو راس نہ آیا اور انہوں نے ایک ایسی بات چھیڑ دی جس پر انہیں بھی باقاعدہ سائبر بلئینگ کا نشانہ بنا گیا اور حق پر ہونے کے باوجود کسی اور فلم سٹار نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ انہوں نے غلطی یہ کی کہ سلمان خان کی کہی گئی ایک بات پر اعتراض کر دیا۔
اپنی نئی فلم کی پروموشن کے دوران سلمان نے بیسیوں انٹرویو دئیے، ایک جگہ کہنے لگے کہ فلم میں موجود دنگل کے ایک منظر کے لیے 120 کلو وزنی آدمی ان کے مقابل تھا جسے انہیں کم از کم پانچ بار اٹھانا پڑا تاکہ کیمرہ مختلف زاویوں سے عکاسی کر سکے، اور یہ سب تقریباً چھ سات گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے وہ بات کہہ دی جس کی امید Being Human جیسا ادارہ چلانے والے اداکار سے ہرگز نہیں تھی۔ وہ بولے، ’جب میں رنگ سے باہر نکل رہا ہوتا تھا تو میری حالت ایسی ہوتی تھی جیسے کوئی ریپ کا شکار عورت باہر جا رہی ہو، یہ اتنا مشکل ہوتا تھا کہ میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا تھا‘۔ انہیں احساس ہوا کہ وہ غلط بول گئے لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
سونا مہاپترا نے ٹویٹر پر لکھا، ’عورتوں کے بارے میں غلط کہا، لوگوں کے اوپر گاڑی چڑھا کر فرار ہوئے، وائلڈ لائف کا شکار کیا، پھر بھی قوم کے ہیرو ہیں۔ افسوس، انڈیا ایسے چاہنے والوں سے بھرا ہوا ہے۔‘
سونا اس سے پہلے بھی خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہیں، مختلف مسائل پر بلاگز بھی لکھتی رہتی ہیں، ان پر تنقید پہلے بھی ہو چکی ہے لیکن اس بار ان کے ساتھ وہ ہوئی جو ان کی سوچ میں بھی نہ تھا۔ باقاعدہ ’بھائی‘ کے فینز نے اسی پوسٹ پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا اور گھٹیا ترین الفاظ استعمال کرنے شروع کر دئیے۔ وہ بے ہودگی مچی کہ ہماری آپ کی سوچ سے باہر ہے۔ حالاں کہ صرف اتنا کہا گیا تھا کہ باوجود بہت سے جرائم کرنے کے، سلمان خان آج بھی لوگوں کے ہیرو ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جس اخبار میں یہ خبر چھپی اس پر بھی خبر کے نیچے بھائی کے فینز اور عقلیت پسندوں کے لڑائی جھگڑے جاری ہیں، انڈیا ٹوڈے پر دی گئی یہ خبر آپ کسی بھی وقت ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
یہ سب سونا کے ساتھ ہوا اور جائز احتجاج کرنے پر ہوا۔ وہ جو ایک مشہور شخصیت ہیں، ان کے ساتھ ان کے تمام فینز ہیں، سوشل میڈیا پر بھی لوگوں کا تعاون حاصل ہے، گھر والے بھی ان پر اعتماد کرتے ہیں، معاشرے میں ان کا ایک مقام ہے اور فلمی دنیا میں بھی کئی لوگوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے تمام گالیوں کے سکرین شاٹس پیش کر دئیے اور بیس پچیس لائنوں میں اپنی مکمل پریشانی اور اپنے ساتھ ہونے والی شدید سائبر بلئینگ سے لوگوں کو آگاہ کر دیا۔ سوچیے عام لڑکیوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا، جن کی پشت پر ان کے والدین بھی سہارا دینے کو نہیں ہوتے، وہ انٹرنیٹ پر ہوتی ہیں اور مشکوک ہوتی ہیں۔ ان کو برا سمجھنے کے لیے یہ کافی ہوتا ہے کہ وہ نیٹ پر بیٹھتی ہیں۔
باقی پوری دنیا کو چھوڑیے صرف پاکستان میں آن لائن لکھنے والوں سے پوچھ لیجیے، اور مردوں کی بجائے خواتین سے پوچھیں گے تو ہر لڑکی روزانہ کے حساب سے آپ کو سائبر بلئینگ کے واقعات دکھا دے گی اور یہ واقعات بہت دور جائیں تو بھی آپ کو صرف برصغیر میں ہی دکھائی دیں گے۔ مغرب میں قوانین طے ہیں اور ایسی حرکات کی سزا بھی جلدی مل جاتی ہے اس لیے وہاں ایسے کام انتہائی محتاط رہ کر کیے جاتے ہیں۔ ہمارے یہاں تو ایک ایک آدمی بیس بیس اکاؤنٹ لیے بیٹھا ہوتا ہے اور صرف اسی نیت سے کہ لڑکیوں کے ان باکس میں گھس سکے۔ لکھنے والی کی بات سے اتفاق ہو گا تو ان سے دوستی کی فرمائش کی جائے گی، اختلاف ہو گا تو وہ تمام باتیں کی جائیں گی جنہیں کرتے ہوئے دماغ تک کی رال گٹھنوں تک بہہ رہی ہو گی۔ یہ سب ہونے کے بعد بھی لڑکوں کو کچھ نہیں کہا جائے گا، قصور لڑکی کا ہی ہو گا کہ وہ لکھتی کیوں ہے یا انٹرنیٹ استعمال ہی کیوں کرتی ہے۔
سونا مہاپترا کا اٹھایا گیا یہ قدم کوئی بہت بڑا انقلاب نہیں لانے والا۔ صرف ہمیں اپنے رویوں پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اور بہت سے سلمان خانوں کے بے شمار احمقانہ اور لغو خیالات کو جھٹلانے کی بھی صلائے عام ہے۔
- سنہ 1925 میں ایک ملتانی عراق جا کر عشرہ محرم کا احوال دیتا ہے - 22/07/2023
- مذہبی روادری کیسے کیسے نبھائی گئی - 22/11/2022
- کربلا کی داستان کا ایک کردار زعفر جن - 05/08/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).