خوف پر کیسے قابو پایا جائے؟


اس دنیا میں لاکھوں نہیں، کروڑوں نہیں بلکہ اربوں انسان ایسے ہیں جو خوف اور ڈر کے ہاتھوں زلیل ہورہے ہیں۔ ہر انسان کے ذہن میں ہر وقت کوئی نہ کوئی ہارر فلم چل رہی ہے۔ کسی کے ذہن میں یہ ہارر مووی چل رہی ہے کہ اگر وہ ناکام ہوگیا تو کیا ہوگا؟ کسی کو یہ خوف ہے کہ کوئی انسان اس کو بے عزت نہ کردے؟ کسی کو یہ ڈر ستا رہا ہے کہ جس سے وہ محبت کرتا ہے، کہیں وہ اسے رد نہ کردے؟ کسی کو یہ خوف ہے کہ اتنا بڑا پیسہ لگا دیا ہے کہیں بزنس ڈوب نہ جائے؟ دیکھا جائے تو تقریبا تمام انسان کچھ ایسا ہی سوچ رہے ہوتے ہیں؟ ایسا سوچنے کی وجہ سے ان کے چہروں سے مسکراہٹیں غائب ہوچکی ہیں اور وہ بیچارے ہر وقت پریشان اور دکھی دکھائی دیتے ہیں۔ ڈپریشن کا شکار ایسے انسانوں کے دماغ میں دوسری سوچ یہ چل رہی ہوتی ہے کہ خوف پرکیسے قابو پایا جائے؟

سوال یہ ہے کہ وہ خوف جس نے انسانی زندگی کو انتشار کا شکار کردیا ہے؟ وہ خود جس نے انسان سے معصوم مسکراہٹ چھین لی ہے؟ وہ خوف جس کی وجہ سے انسان کی زندگی موت میں بدل چکی ہے؟ اس خوف کی حقیقت کیا ہے؟ خوف کی حقیقت یہ ہے کہ بنیادی طور پر اس کا وجود ہی نہیں ہے؟ جس چیز کا وجود ہی نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ کیوں اس پر قابو پایا جائے؟ کیوں انسان اپنی ذہنی توانائیاں ایسی چیز پر برباد کرے جس کا وجود ہی نہیں ہے؟

انسانی ذہن خوف کو تخلیق کرتا ہے۔ خوف کو تخلیق کرنے کے لئے ہم انسان بہت زیادہ imagination کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ چیزیں جو ہم چاہتے ہیں ہونی چاہیے وہ نہیں ہورہی ہوتی تو ان چیزوں کو تخلیق کرتے ہیں اور اس تخلیقیت میں خوف کا رنگ بھر دیتے ہیں۔ ہمیشہ ذہن میں یہ سوال کھڑا کردیتے ہیں کیا ہوگا؟ یہ جو میں بزنس کررہا ہوں، اگر نقصان ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟ نوکری چھوٹ گئی تو کیا ہوگا؟ میرے پاس بہت پیسہ ہے، کسی نے فراڈ سے پیسے ہتھیا لئے تو کیا ہوگا؟

اس طرح کے ہزاروں خوف ہم ہر روز انسان پیدا کرتے ہیں۔ زیادہ تر خوف اور ڈر جو ہم اپنے ذہن میں پیدا کرتے ہیں وہ کچھ نہیں ہوتا۔ اپنے آپ سے سوال کریں یا گزشتہ زندگی کا مشاہدہ کرکے دیکھیں آپ نے کتنے خوف پیدا کیے، ان میں سے کتنے خوف عملی شکل میں آپ کے سامنے نظر آئے؟ مثال کے طور پر اگر آپ نے پانچ سو خوف اپنے ذہن میں تخلیق کیے تھے تو ان میں سے چار سو نوے خوف عملی شکل میں نظر ہی نہیں آئے؟ سوچیں چار سو نوے خوف جو آپ نے پیدا کیے تھے، اس میں کتنی توانائی ضائع کی؟ کتنے دکھ اور غم برداشت کیے؟ لاکھوں قہقہوں سے آپ محروم ہوئے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنیادی طور پر خوف کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ ہم ہی وہ انسان ہیں جو خود خوف کو وجود میں لاتے ہیں۔

معلوم نہیں انسان کو خوف تخلیق کرنے کا شوق کیوں ہے؟ کیوں وہ خوف سے نجات حاصل نہیں کرپارہا؟ ہم انسانوں کو اگر اپنے ذہنوں میں ہارر مویز پروڈیوس کرنے کا بہت ہی شوق ہے تو تکنیک بدل کر بھی زندگی کو انجوائے کیا جاسکتا ہے۔ ہر وقت ذہنوں میں ہارر موویز کا غلبہ کیوں رہے؟ بہت شوق ہے تو ذہنوں میں لو سٹوری والی فلمیں پیدا کریں، تھرل، سسپنس اور کامیڈی فلمیں پیدا کریں۔ یہ درست بات ہے کہ باہر والے یہ فلمیں نہیں دیکھ سکیں گے لیکن کم از کم ہم تو ان فلموں کو انجوائے کرکے اپنی خوشیاں اور مسکراہٹیں بحال کرسکتے ہیں۔

معلوم نہیں ہم ہارر مویزیز سے بور کیوں نہیں ہوتے؟ ہر وقت ہارر مویز؟ میرے پاس بہت پیسہ ہے، مجھے کسی نے قتل کردیا تو کیا ہوگا؟ میرا بیٹا اغوا ہوگیا تو کیا ہوگا؟ بیٹی کی شادی نہ ہوئی تو دنیا کیا کہے گی؟ ڈاکٹر نہ بن سکا تو کیا ہوگا؟ ہر وقت ذہن میں اس طرح کی ہارر فلمیں چلتی رہتی ہیں، ہم کیوں ان سے بور نہیں ہوتے؟

اگر دنیا آپ پر مہربان نہیں ہے کم ازکم آپ کا دماغ اور ذہن تو آپ پر مہربان ہو۔ کم از کم کامیڈی، لواسٹوری، تھرل اور سسپنس سے مزین شارٹ سٹوریز ہم خود تو تخلیق کرسکتے ہیں اور ان کو انجوائے کرسکتے ہیں۔ یہ بھی تو تخلیل میں لایا جاسکتا ہے کہ جس لڑکی سے دس سال پہلے یونیورسٹی میں محبت کرتا تھا اچانک میرے سامنے آگئی تو کیا خوبصورت لمحہ ہوگا۔ یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ اچانک پاکستان کا وزیر اعظم بن گیا تو انسانوں کی بھلائی کے لئے کیسی پالیسی بناوں گا؟ ٹھیک ہے کہ یہ سب کچھ شاید یا یقینا نہ ہو لیکن کم از کم اس طرح کے افسانوی خیالات سے ذہنی طور پر تو زندگی کو انجوائے کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).