ہتھکڑی لگی لاش پوچھتی ہے


انسان کو بناتے وقت اللہ اور اس کے فرشتوں کے درمیان مکالمہ ہوا، جس میں نوری مخلوق نے کہا تھا کہ یہ زمین پہ جا کر فتنہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا مگر باری تعالیٰ نے فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ آپ کو معلوم نہیں چنانچہ اس پاک ذات نے انسان کو زمین پر اپنا نائب مقرر کر دیا۔ آج انسانیت کے زوال کو تکتے ہوئے دنگ ہوں کہ یہ اشرف المخلوقات کا ٹائٹل لگائے درندوں سے بدتر مخلوق خود کو اس پاک ذات کا خلیفہ کیسے کہلوا سکتی ہے۔

وحشت کی انتہا دیکھیے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ یہی وہی مخلوق ہے کہ جسے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اور جس نے انکار کیا تھا وہ لعین ہو گیا اور پھر مخلوق کی اکثریت اسی لعین ابلیس کی پیروکار بن کر انسانیت کی تذلیل کے لیے کمر بستہ ہے۔ ظلم نظر آتا ہے تو بجائے اسے روکنے کے ہم ظالم کے ساتھی بن کر انسانیت کے بخیے اکھاڑ کر اس سفاک کا ساتھ دیتے ہیں کہ قدم بڑھائیے ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کل اک تصویر نظر سے گزری، وہ تصویر کیا تھی ظلم کی اک داستان تھی کہ انسانیت کے ترانے گانے والو دیکھو جو دیدہ ء عبرت نگاہ ہو۔

تصویر پہ نگاہ جمی تو ایسے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے پوچھ رہی ہو، غور کیا تو وہ اس معاشرے سے سوال کر رہی تھی۔ زندگی و موت کی کشمکش میں تھا مگر یہاں کا اندھا قانون اسے ڈرامہ قرار دے رہا تھا آخر کیوں؟ جب تکلیف حد سے بڑھی تو اس قانون کے محافظوں نے زنجیروں کی گرفت اور زیادہ کس دی کہ مبادا کہیں بھاگ نہ جاؤں کہ اتنا بڑا مجرم ہوں جو بچوں کو سکھانے کے لیے درسگاہ بنانے کا جرم عظیم کا مرتکب ہوا ہوں۔ جب زندگی الوداع کہہ رہی تھی اور موت اپنے گلے لگانے کو تھی تب بھی قانون کے محافظ اسے ڈھونگ سمجھ کر ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہنانے میں مگن تھے ان سے پوچھیے کہ جب میں زندگی کی قید سے آزاد ہو چکا تھا مگر قانون کی ہتھکڑی میں جکڑا میرا لاشہ کب آزاد ہو پائے گا؟

اس تصویر پر جب مزید غور کیا تو ایسے لگا کہ میاں جاوید تصویر سے نکل آیا اور یادوں کے دریچے میں ہونے والی اک ملاقات کا دھندلایا منظر واضح ہونے لگا ہے۔ یہ سرگودھا یونیورسٹی لاہور کیمپس ہے جب ان کے چھوٹے بھائی اور اہنے دوست و کلاس فیلو میاں نواز کے پاس سے چائے پی کر باہر نکلنے لگا تو اتفاقیہ ملاقات ہوئی، جس میں تعارف کے بعد آپ نے نواز سے کہا تھا کہ دوست کو کچھ کھلایا پلایا بھی یا یونہی رخصت کرنے چلے ہو۔

وہ پہلی و آخری ملاقات تھی مگر جب بھی میاں نواز سے ملاقات ہوتی تو وہ بڑے بھائی کا ذکر ضرور کرتے، مگر آج وہ میاں نواز بھی غمگین ہو کر نوحہ کناں ہے کہ ظالمو! اس ظلم کا حساب کون دیگا؟ اس کی ماں کی ویران آنکھیں پوچھ رہی تھیں کہ میرا لخت جگر جب دم توڑ رہا تھا تو اس وقت بھی تمہارے اندر سے ضمیر نے آواز نہیں دی تھی یا تمہارے ضمیر مردہ ہو چلے ہیں۔ انسان دم توڑ چکا، انسانیت مر چکی مگر قانون جیت چکا ہے کیونکہ اس نے مجرم کو بعد از مرگ بھی اپنے شکنجے سے آزاد نہیں کیا۔

انسان سے انسانیت بنی مگر آج وہ حضرت انسان رہا نہ انسانیت۔ بندے سے بندگی کا وجود ملا تھا مگر وہ بندے زمانہ ہوا مر کھپ گئے اور بندگی بھی لاپتہ ہے۔ آدمی سے آدمیت سنا تھا مگر وہ آدمی رہا نہ آدمیت باقی رہی۔ آئیے انسان کا لبادہ اوڑھے مخلوق! انسانیت کا ماتم کیجئے اور بے حسی کے معاشرے کے اندھے قانون پہ لعن طعن کرتے ہوئے دو لفظ بول دیجئے کہ مجرموں پر تیرے شکنجے کی نرمی اور مردوں کو ہتھکڑیاں پہنانے والے قانون تو کتنا شرمناک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).