انتہا پسندی کا نشہ


\"mujahid

پاکستان کے فکری افق کا جائزہ لیا جائےتو تین بنیادی رنگ بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ ایک رنگ اس گروہ پر مشتمل ہے جن کے لئے رجعت پسند، مذہبی یا قدامت پسند جیسی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔ اس فکری قوس قزح کا دوسرا رنگ لبرل، ترقی پسند یا جدت پسند جیسے ناموں سے معروف ہے۔ جبکہ ایک قلیل تعداد میں ملحد طبقہ بھی اپنے وجود کا احساس دلا رہا ہے۔ تاہم یہ رنگ اپنی عددی قلت اور دیگر سماجی وجوہات کی بنا پر بہت مدھم ہے۔ ہمارے سماج کے فکری بیانیئے کو تشکیل دینے میں پہلے دو طبقات ہی سب سے اہم ہیں۔ ان کا اگر بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو کچھ دلچسپ زاویے سامنے آتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے کی بنت میں مذہب کا بنیادی کردار ہے۔ جس طرح کسی بھی مذہب میں سب سے بلند مقام عقیدے کا ہوتاہے، اسی طرح اسلام میں بھی کلمہ طیبہ اور ختم نبوت کا تصور بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے بعد ایک طرف عبادات کا دائرہ ہے جو خالق و مخلوق کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہیں اور دوسری طرف اخلاقیات کا زاویہ ہے جو ایک فرد کے دوسرے فرد سے تعامل کی حدود متعین کرتا ہے۔ یہ تینوں ہمارے مذہب کے سب سے اہم ستون ہیں۔

لبرل اور مذہبی دونوں طبقات کے درمیان ان بنیادی امور پر کو ئی خاص اختلاف موجود نہیں ہے۔ آپ نے کسی جگہ یہ نہیں دیکھا ہو گا کہ نمازوں کی تعداد پر ان دونوں میں بحث ہو رہی ہو، یا ایک فریق سچ بولنے پر اصرار کر رہا ہو اور دوسرا جھوٹ بولنے کو اخلاقیات کا حصہ قرار دے رہا ہو۔ اس کا مطلب مبادیات میں دونوں کے مابین کوئی تنازع موجود نہیں۔

اب بات آ جاتی ہے ان معاملات کی جن کا تعلق سماج سے ہے۔ یہاں بھی اکثر معاملات پر اتفاق موجود ہے۔ مثلاً معیشت کے میدان میں بنکوں کے جواز اور عدم جواز پر سنجیدہ بحث کبھی نہیں ہوتی ،اسی طرح ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ کوئی فریق عدلیہ، مقننہ یا انتظامیہ میں سے کسی ایک ریاستی ستون کو نہ مانتا ہو (جمہوریت کو خلاف اسلام قرار دینے والا مذہبی طبقہ وجود رکھتا ہے: مدیر)۔ پارلیمنٹ کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تقسیم پر بھی کوئی جھگڑا نہیں اور انتظامیہ کی تشکیل پر بھی سب متفق ہیں۔ آپ سماج کے مختلف شعبہ ہائے جات کو فرداً فرداً دیکھتے جائیں تو حیرت ہو گی کہ مبادیات میں کہیں اختلاف موجود نہیں ۔ صرف ایک میدان ایسا ہے جو رزم گاہ بنا ہوا ہے اور وہ ہے فرد کی آزادی کی حدود۔ یہ کوئی نیا تنازعہ نہیں بلکہ جس دن سے انسانی معاشرہ وجود میں آیا ہے سوچنے والے اذہان اس حوالے سے مختلف آرا کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ اس پر اختلاف رائے فطری بات ہے لیکن اگر معاملہ سر پھٹول تک پہنچ جائے تو یہ خطرناک رجحان ہے۔

اصل میں ہر عصر اپنے ساتھ کچھ بنیادی تقاضے لاتا ہے۔ جو تہذیب ایک خاص وقت میں دنیا پر غالب ہوتی ہے وہ اپنی اقدار کو دیگر اقوام اور تہذیبوں میں پھیلانے کی کوشش کرتی ہے۔ چونکہ ہر معاشرے نے اپنی مقامی اقدار کو تقدیس کا لبادہ پہنایا ہوا ہوتا ہے اس لئے ایک طبقہ بیرونی اثرات کے خلاف شدید مزاحمت کرتا ہے۔ اس مزاحمت کو ہمیشہ مذہبی لبادے میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کے جذباتی وجود کو آواز دی جا سکے۔

اس کے برعکس ایک اورگروہ ایسا پیدا ہو جاتا ہے جس کے یا تو مفادات اس غالب تہذیب سے وابستہ ہوتے ہیں یا پھر وہ اس سے حد درجہ مرعوب ہو تا ہے اور مقامی کلچر کی حساسیت کو نظر انداز کر کے ان اقدار کو اپنانے کا داعی بن جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان ایک غیرضروری معرکہ برپا ہوتا ہے اور وہ تمام صلاحیتیں جو حقیقی مسائل کو حل کرنے کے لئے صرف ہونی چاہئیں، وہ مضحکہ خیز مباحث میں ضائع ہو جاتی ہے۔

اگر عقیدہ، عبادات اور اخلاقیات کو شامل کر کے ایک بڑی تصویر بنائی جائے تو فریقین کے درمیان اتفاق کا دائرہ اسقدر وسیع ہو جاتا ہے کہ مذہبی اور لبرل کے درمیان موجود شدید فکری تقسیم بہت حد تک مصنوعی رہ جاتی ہے۔ اس سے بڑی تقسیم تو مذہبی طبقے کے اندر فقہی اختلافات کے نام پر موجود ہے جس کی تاریخ صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان تنازعات کا نشہ پوری شدت سے ہماری رگوں میں جگہ بنا چکا ہے۔ اب ہمیں اوریا مقبول جان اور ماروی سرمد جیسے کرداروں کی ضرورت ہے جو نت نئے تنازعے کھڑے کر کے ہمارے نشے کی طلب پوری کرتے رہیں۔ بیمار معاشروں میں بیمار کردار ہی مقبولیت حاصل کرتے ہیں۔ وجاہت مسعود، رؤف کلاسرا، خورشید ندیم، عامر ہاشم خاکوانی، آصف محمود اور ان جیسے دیگر متوازن فکر کے حامل دانشور ہمیں مزہ نہیں دیتے۔ ہمیں تو وہ افراد چاہئیں جن کی بات سن کر نفرت کی آگ بھڑکے، دونوں اطراف کے بالشتیے مغلظات سے بھری تحریریں ایک دوسرے کے خلاف لکھیں اور ہمارے اندر کے شیطان کو تسکین ملتی رہے۔

یہ صورتحال زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہوتا ہے کہ شدید فکری انتشار قوموں کی جڑوں میں بیٹھ جاتا ہے جس کی وجہ سے اندرونی نفرتیں اسقدر پھیل جاتی ہیں کہ معاشرے تباہ ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ دوسری صورت میں اگر اس معاشرے میں تھوڑی سی بھی جان باقی ہو تو پھر ایک ایسا گروہ اٹھتا ہے جو دونوں انتہا پسند گروہوں سے جان چھڑا کر تخلیقی انداز میں اس مسئلے کو حل کرتا ہے۔ اگرچہ دو انتہائیں سماج میں موجود رہتی ہیں لیکن وہ اپنا اثر و نفوذ کھو بیٹھتی ہیں۔ یہ نیا گروہ جدید تقاضوں کو اپنے تہذیبی وجود میں اس طرح ضم کرتا ہے کہ مقامی شناخت بھی محفوظ رہتی ہے اور معاشرہ فطری انداز میں ارتقا کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ ہمارے چند بہترین دماغ جو غیر ضروری مباحث میں اپنی توانائی صرف کر رہے ہیں، انہیں اس بارے میں ضرور غور کرنا چاہئے۔ ہمیں بھی بطور قوم یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کیسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ ایک تخلیقی اور اندرونی طور پر جڑا ہوا معاشرہ یا ایک کٹا پھٹا سماج جو اپنے آپ سے ہی جنگ میں مصروف ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments