سب کے لیے سکون کی تلاش


\"mujahid

الیکٹرونک میڈیا کی دو عمومی قسمیں ہیں خبری یعنی نیوز میڈیا اور تفریحی یعنی انٹرٹینمنٹ میڈیا باقی اقسام ذیلی ہوتی ہیں۔ الیکٹرنک میڈیا میں ایک بھی چینل ایسا نہیں ملے گا جو دنیا میں عام انسانوں کی زندگی میں جاری مسلسل بیچارگی، عسرت، جبر وتشدد اور پریشانیوں کو اجاگر کرتا ہو۔ ایسا چینل ہو بھی تو کیوں ہو؟ کون چاہے گا کہ اپنی زندگیوں میں موجود مسائل کے ساتھ ساتھ کروڑوں شاید اربوں انسانوں کے عذابوں کے کرب کا بھی اضافہ کر دے۔

ادب، ڈرامہ، فلم اور اخبارات کی تفصیلی خبریں اس المیے کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسا ہر روز اور ہر وقت نہیں ہو سکتا۔ چند روز پہلے برخوردار رؤف کلاسرہ نے اپنے کالم میں ڈیرہ غازیخان کے صحافی یعقوب بزدار کے حوالے سے بابا نذر کا ذکر کیا جو اپنے گھر میں موجود بن بیاہی بیٹیوں اور کمسن بیٹوں کا پیٹ بھرنے کی خاطر ساٹھ برس سے اوپر کی عمر میں چالیس ڈگری سنٹی گریڈ کی دھوپ میں بیٹھا ریت چھان رہا تھا تاکہ شام کو تین سو روپے لے کر ان کا پیٹ بھر سکے۔ پاکستان میں ایسے لوگ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں اور دنیا میں کروڑ ہایا شاید اربوں۔

کل ایک ہندی فلم دیکھی جس میں ایک لڑکی دوست کی بیوی بن کر اس کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں چلی جاتی ہے۔ پولیس چھاپہ مارتی ہے۔ لڑکے کو کمرے میں ہی پیٹتی ہے اور لڑکی کی موبائل پر وڈیو بناتی ہے۔ لڑکا ہاتھ چھڑا کر باتھ روم میں گھس جاتا ہے اور اپنی کلائیوں کی رگیں کاٹ لیتا ہے۔ لڑکی کا باپ تاریخ کا استاد تھا جو گھاٹ پر سونیر بیچتا ہے۔ تھانیدار اسے بلیک میل کرتا ہے کہ تین ماہ میں تین لاکھ روپے دو ورنہ اس کی یٹی کی وڈیو یو ٹیوب پر لگا دے گا۔ غریب شریف آدمی سے پیسے بھی لیتا ہے اور بری طرح پیش بھی آتا ہے۔

ایسے تھانیدار ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، میانما، افریقی، لاطینی امریکی اور عرب ملکوں میں کتنے ہونگے اور ایسے باپ اور اسی طرح دوسری مصیبتوں میں پھنسے لوگ کتنے زیادہ ہونگے۔ یعقوب بزدار کے مطابق پاکستان میں تقریباً سارے ہی لوگ بابا نذر ہیں۔ سرکاری عمال کے مظالم کا شکار لوگوں کی تعداد گننا مشکل ہوگی۔

کیا مصائب اور عسرت کے شکار ان تمام لوگوں کے لیے سکوں کی تلاش کرنا ایک واہمہ ہے؟ یا ایسا ہونا فی الواقی ممکن ہے۔ کسی بھی ملک یا پوری دنیا میں مجموعی دولت اتنی ہی ہوگی جتنی موجود اور دستیاب وسائل سے پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہوا سے نہ کاغذ بن سکتا ہے نہ کپڑا۔ خیالوں میں نہ توریاں اگائی جا سکتی ہیں نہ گایوں بکروں کا منوں ٹنوں گوشت پیدا کیا جا سکتا ہے۔ گاڑیاں، بلڈوزر، طیارے، ریل گاڑیاں، پٹڑہاں، ہوائی اڈے اور سڑکیں بھی ہوا میں نہیں ہو سکتے۔ ہر چیز ہی زمین سے حاصل ہوتی ہے۔ معدنیات ہو یا زرعی اشیاء، مویشیوں کا چارہ ہو یا انسانوں کی غذا۔ مکانات ہوں یا اصطبل ان کے لیے لکڑی، اینٹ، سیمنٹ، لوہا سب ہی زمین سے حاصل ہوتے ہیں۔ بجلی کی بہت ضرورت ہے، بجلی بنانے کے لیے پانی، ڈیزل، نیوکلیائی مواد تا حتٰی ہوا بھی زمین پر یا زمین سے ہی حاصل ہونگے۔

زمین یا تو حکومت کی ملکیت ہونی چاہیے یا سب انسانوں کی برابر تاکہ ان کا وسائل پر برابر کا حق ہو لیکن ایسا نہیں ہے۔ زمین کے بڑے حصے پر حکومت کا قبضہ ہوتا ہے۔ باقی حصہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کے قبضے میں آ چکا ہے چاہے وہ وراثتی جاگیروں یا زرعی زمینوں کی شکل میں ہو یا جائیداد کی دوسری مدوں کی شکل میں۔ کارخانوں کی شکل میں ہو یا کمرشل پلازوں کی شکل میں، دکانوں کی شکل میں ہو یا سپر سٹورز کی شکل میں۔ اور تو اور پہاڑوں تک پر لوگوں کا قبضہ ہے۔ دریاؤں اور نہروں کا پانی تک حیثیت کے مطابق تقسیم ہوتا ہے۔ یوں چودہ ہزار روپے ماہانہ اور چودہ کروڑ روپے ماہانہ کمانے کا فرق کیسے ختم ہو سکتا ہے؟

اس کے لیے دو طریقے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، ایک جائیداد کی تمام انواع کو قومی ملکیت میں لیے جانے کا طریقہ تاکہ برابر کی تقسیم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ ایسا کرنےسے عارضی طور پر تو لگا جیسے مسئلے حل کر لیے گئے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بہت کچھ غلط ہو گیا۔ دوسرا طریقہ سماجی شعور کو بیدار کرنے کا طریقہ رہا جو ترقی یافتہ ملکوں میں مروج ہے۔ اس پر بھی اعتراض کیا گیا اور اب تک کیا جاتا ہے کہ نام نہاد ترقی یافتہ ملکوں نے نوآبادکاروں کے روپ میں ان ملکوں کی دولت لوٹ کر اپنے ملکوں میں پہنچائی تھی جو آج نادار ہیں۔ البتہ ایسا کہتے ہوئے دو باتیں بھلا دی جاتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ جب یہ ملک ان ملکوں کی دولت لوٹ رہے تھے تب بھی ان ملکوں میں غرباء کی تعداد بہت ہی زیادہ تھی۔ دوسری بات یہ کہ جو لوگ دولت لوٹ کر اپنے ملکوں میں لائے انہوں نے یہ دولت اپنے ہی پاس کیوں نہ رکھ لی؟ یقیناً رکھی تھی مگر پھر کیا ہوا کہ سب لوگوں کے لیے مواقع پیدا ہونے شروع ہو گئے؟ سب سے پہلی بات تو یہی کہ سماجی شعور بلند ہوا جس کے نتیجے میں سیاسی شعور میں اضافہ ہوا۔ جس طرح آج پاکستان میں سب بدعنوان لوگوں کو پکڑ کر لٹکانے کی بات کی جاتی ہے ایسا کسی ایسے ملک میں نہیں کیا گیا جو آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں بلکہ بدعنوانی کا خاتمہ، اگرچہ اس کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جانا ممکن نہیں ہے، بتدریج اور خود بخود ہوا۔

اس کے خاتمے کے لیے قوانین تشکیل دیے گئے اور قوانین کی عملداری کو یقینی بنایا گیا۔ امراء نے یونیورسٹیاں تعمیر کیں جن میں مناسب فیس کے عوض معیاری تعلیم دیے جانے کا اہتمام کیا گیا۔ دوسرے امراء نے جو بینکوں کے مالک تھے طلباء کو کم سود پر قرض دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ یوں معیاری تعلیم عام ہوتی گئی اور ایسے تعلیم یافتہ لوگوں نے ذاتی منفعت پسندی کو شعار بنانے کی بجائے زندگی کے ہر شعبے میں اس پیش رفت کو یقینی بنانے کی خاطر کام کرنا شروع کیا جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچ سکے۔ جو اچھی تنخواہ پاتے گئے ٹیکس ادا کرتے گئے۔ جنہوں نے مناسب کاروبار کر لیا انہوں نے بھی ٹیکس دینا شروع کیا، جن کی زراعت میں ترقی ہوئی انہوں نے بھی ٹیکس دیا۔ مزدوروں کی ٹریڈ یونینوں نے مزدوروں کے معاوضے میں اضافے کے مطالبات منوائے۔ کسی بھی پیشہ ور تنظیم نے یہ نہیں کہا کہ مہنگائی کم کرو بلکہ یہ کہا کہ معاوضہ بڑھاؤ۔ حکومتوں اور آجروں نے کہا کہ وسائل بڑھاؤ۔ دونوں فریقین نے ایک دوسرے کی بات مانی اور اس طرح آمدنی کی خلیج کم ہونا شروع ہوئی اور بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔

پھر ایسا کیوں ہے کہ ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ملکوں میں سب گڑبڑ ہے؟ کیا ان ملکوں میں بسنے والوں میں کوئی جینیائی نقص ہے جو امیروں کو راغب کرتا ہے کہ وہ مزید امیر ہوتے جائیں اور غریبوں کو حقوق کے حصول کے ضمن میں سلا دیتا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح کا کوئی نقص جین میں ابھی تک نہیں پایا گیا۔ نقص ہے تو فہم میں ہے کہ ان ملکوں کے لوگوں نے خود کو ایک قوم نہیں سمجھا ورنہ ایک کنبہ اپنے کنبے کے ہی افراد کو بھوکا نہیں رہنے دیتا۔ سرمایہ دار ملکوں نے اپنا مال بیچنے کے لیے ان ملکوں کے لوگوں کی ہوس کو ہوا دی ہے جو ایک فطری امر ہے لیکن ان ملکوں کے لوگوں نے تاحال خود کو پہچانا ہی نہیں۔ اگر صورت حال جوں کی توں رہی تو سب کے لیے سکون کی تلاش بلاشبہ واہمہ ہی رہے گا لیکن سوشل میڈیا کے عام ہونے کے باعث شاید یہ خواب واہمہ نہ رہے حقیقت کا روپ دھار لے مگر اس سے پہلے تشدد، بے چینی، جھگڑے اور قتل و غارت ہونے سے روکنا ایک اہم مسئلہ ہے جس پر ہم سب کو توجہ دینی چاہیے کہ وہ کیا ہو جس سے ان سب قباحتوں سے بچ کر لوگوں میں سماجی شعور بلند کیا جا سکے تاکہ وہ سیاست کے گھوڑے کو ماتھے کی ایال سے پکڑنے کی بجائے کسی اور طرح سے قابو کرنے کو کوشش کرنے کے قابل ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments